"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر : گائے کے بہانے آگ لگانے کی کوشش

چاہے جموں و کشمیر کی اسمبلی کے فلور پر ایک منتخب نمائندے کی مارپیٹ کا معاملہ ہو یا بڑے گوشت کے قضیہ کی آڑ میں اودہم پور میں کشمیر کی طرف جانے والے ٹرک پر پٹرول بم پھینک کر تین افراد کو زندہ جلانے کی کوشش، لگتا ہے ایک حکمت عملی کے تحت خرمن میں آگ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کے خلاف منافرت کا محاذ تیز کر کے اسے نفسیاتی طور پر خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور دیو ار کے ساتھ لگانا ہے۔ ایک غیر ضروری تنازع کو ہوا دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر کی مسلم آبادی بیف یا گائے کا گوشت کھانے کے لئے بیتاب ہو رہی ہے۔ بھارت میں جموں و کشمیر واحد خطہ ہے جہاں گائو کُشی، اس کا گوشت فروخت یا سٹورکرنے پر10سال تک قید بامشقت مع جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ بھارت کے 30 میں سے 25 صوبوں میں جہاں گائوکشی پر پابندی عائد ہے، سزا چھ ماہ سے دو سال تک ہے، صرف گجرات میں سات سال جبکہ دہلی اور تامل ناڈو میں پانچ سال ہے۔ شاید کشمیر ہی وہ واحد خطہ ہے جہاں تاریخ دانوںکے مطابق گزشتہ دو صدیوں کے دوران، جب سے یہ پابندی نافذ ہے، 19افراد کوگائو کشی کے جرم میں سزائے موت دی جا چکی ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے ایما پر سکھوں کے گورنر دیوان موتی رام نے1819ء میںگائوکشی پر ایک فرمان کے ذریعے پابندی لگائی۔ 195 برسوں میں کشمیر کے لوگوں کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ سرینگر یا وسطی کشمیر میں شاید ہی کوئی شخص گائے تو دور کی بات ہے، کسی بڑے جانور کا گوشت ہی استعمال کرتا ہو۔کشمیر کا شہرہ آفاق کیوزین ''وازہ وان‘‘ تو صرف بھیڑ کے گوشت سے تیار ہوتا ہے۔ پیشہ ور باورچی اس کی اکثر ڈشوںکے لئے بکرے کے گوشت کے استعمال سے بھی منع کرتے ہیں۔
نامور مورخ جی ایم ڈی صوفی کے بقول گورنر موتی رام کے جانشین چونی لال نے سرینگر کے ایک مشہور تاجر معین الدین کھوسہ اور ان کے داماد مرزا کلو کو ان کے گھر سے گائے کا ذبیحہ برآمد ہونے کے جرم میں سرعام پھانسی پر لٹکایا تھا۔ ان کی لاشوں کو سرینگر کی سڑکوں پرگھسیٹا گیا تاکہ سامان عبرت ہو۔ سکھ حکمرانی کے خاتمہ سے ایک سال قبل 1845ء میں تھانیدار بولکا ناتھ نے سرینگر کے نواح میں چھتہ بل سے پیرزادہ صمد بابا قادری اور ان کے 17 اہل خانہ کو اسی جرم میں گائے کے گوبر اور بید کی سوکھی لکڑیوں کے الائو میں ڈال کر زندہ جلا دیا تھا۔ ڈوگرہ حکومت نے بھی گائو کشی پر پابندی جاری رکھی مگر اس کی سزا، موت سے کم کرکے دس سال قید با مشقت مقرر کردی جو اب تک جاری ہے۔ 1880ء میں کشمیر کے دورہ پر آنے والے برطانوی مصنف انتھونی جارج کا کہنا ہے، کشمیر میں حکمران کی ہمدردی کی حس گائے سے شروع ہوکر گائے ہی پر ختم ہو جاتی ہے، یعنی وہاں رعایا کی کوئی اہمیت نہیں۔کشمیر یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرگل محمد وانی کی تحقیق کے مطابق 1920ء میں سرینگر کی سینٹرل جیل میں بند 117 قیدیوں میں سے 97 گائو کشی کے جرم میں سزا بھگت رہے تھے۔
اب 200 سال بعد یہ قضیہ کھڑا کرکے آخر کیا پیغام دینے کی کوشش ہو رہی ہے؟ جیسے اوپر ذکر ہوا، اودہم پور میں شر پسندوں نے کشمیرجانے والے ٹرک پر پٹرول بم پھینک کر اس میں سوار تین افراد کو زندہ جلانے کی کوشش کی تاہم ڈرائیورکی حاضر دماغی اور پولیس کے بر وقت پہنچ جانے سے ٹرک کو خاکستر ہو نے سے بچا لیاگیا۔ اس کے باوجود دو افراد بری طرح جھلس گئے اور ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا ۔ گرفتار ہونے والے حملہ آوروں کی شناخت ہریش، بال بہادر، سندھور سنگھ اور سنیت سنگھ ساکنان ادھم پورکے طور پر ہوئی ۔اشتعال کی وجہ یہ بتائی گئی کہ علاقے میں ایک اور مردہ گائے پائی گئی تھی۔ وٹرینری ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد بتایا کہ اس کی موت قدرتی تھی۔ گزشتہ جمعہ کے روز بی جے پی کے دو کارکنوں نے سرینگر کے تاریخی گھنٹہ گھر آکر بھارتی پرچم لہرانے کی کوشش کی۔ وہاں موجود لوگوں نے انہیں دبوچ لیا۔ ان میں سے ایک بی جے پی کا کارکن سچن تھا جبکہ اس کا دوسرا ساتھی گورا رام عکس بندی کر رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی رہی۔ اسی طرح جموں کے سرحدی ضلع راجوری میں بھی ہندو تنظیموں سے وابستہ شر پسند گھریلو استعمال کے لئے بھینس 
لے کر جانے والے ایک پولیس اہلکار اور اس کی اہلیہ کی جان لینے کے درپے ہو گئے۔ راجوری اور اس کے نواحی علاقوںکی مسلم آبادی اس پر سراپا احتجاج ہے۔ ان کے مطابق ریاستی کابینہ کے وزیرکی طرف سے یقین دہانیوںکے باوجود شرپسند کھلے عام گھوم رہے ہیں، پولیس اور انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ جموں صوبہ میں یہ پہلا یا واحد واقعہ نہیں، گزشتہ سال کے دوران اس کے اضلاع جموں،کٹھوعہ اور رام بن میں نصف درجن سے زیادہ مواقع پرگائوکشی کی افواہیں یا کوئی دوسرا بہانہ تراش کر آتشزنی اور توڑ پھوڑکی وارداتیں کی جا چکی 
ہیں۔ معلوم ہو تا ہے، بھگوا تنظیموں نے حساس راجوری کو اپنی تجربہ گاہ بنالیا ہے، جہاں ایک قضیہ ختم نہیں ہو تا کہ دوسرا کھڑا کر لیا جا تا ہے تاکہ اقلیتی اور اکثریتی طبقہ کے مابین کشیدگی ختم نہ ہونے پائے۔ چند ہفتے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ، واٹس اپ پر قابلِ اعتراض تصویریں اپ لوڈ کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی۔ دو ماہ قبل انہی تنظیموں کے شر پسندوں نے داعش کے خلاف احتجاج کے بہانے کلمہ طیّبہ والے جھنڈے نذر آتش کر کے ماحول کو آلودہ کیا۔ اس سے پہلے سندر بنی میں وقف کی زمین پر مسجد کی تعمیرمیں رکاوٹیں کھڑی گئیں۔ کسی نہ کسی بہانے نہ صر ف راجوری بلکہ پورے صوبے میں فرقہ واریت کا زہر پھیلانے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جا رہا۔ افسوس،کسی بھی معاملے میں انتظامیہ اور پولیس نے شر پسندوںکے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی۔ بغور تجزیہ کیا جائے تو واضح ہو تا ہے کہ اس طرح کے سبھی واقعات میں مما ثلت پائی جاتی ہے۔
نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی ہندو انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ عناصر کھلم کھلا آ ئین و قانون اور متعلقہ اداروںکو ٹھینگا دکھا کر جس طرح دندنا رہے ہیں، یہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوںکے لئے یقیناً باعث تشویش ہے۔ یکے بعد دیگر ے سنگین واقعات پیش آرہے ہیں جنہیں تنہا یا الگ تھلگ حادثات قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی مہم ہے جو کا فی عرصہ سے چلائی جا رہی ہے اور اس وقت یہ اپنے انتہائی مراحل میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے نریندر 
مودی اقتدار میں آئے ہیں، ملک میں فرقہ پرستوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اپنے ایجنڈے میں شامل منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے درجنوں وزراء نے آر ایس ایس کے ہیڈکواٹر میں حاضری دی اور اس کے سربراہ موہن بھاگوت کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت وہ اسی تنظیم کے خطوط پرکام کر رہے ہیں اور اس کی منشاء کو پورا کرنے کے پابند ہیں۔ اس سے پورے ملک میں سنگھ پریوار سے متعلق تنظیموںکے کارکنوں کا نہ صرف حوصلہ بڑھا ہے بلکہ وہ بے خو ف ہوکر مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ موجودہ تمام واقعات اسی مہم کا ایک حصہ ہیں۔ یہ عناصر خود افواہیں پھیلا تے ہیں تاکہ جذبات بھڑکا کر لوگوں کی ایک بھیڑ کو حملوں کے لئے اکسایا جائے اور بعد میں اسے وقتی اشتعال کا نام دے دیا جائے (جیسے سانحہ دادری میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے) مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا ایک منظم منصوبے کے تحت ہو رہا ہے ۔ 
انتہائی دائیں بازو کی تنظیمیں افواہیں پھیلانے اور پروپیگنڈا کرنے میں بدنام زمانہ جرمن نازی گوبلز کی پیرو کار ہیں، اس لئے کسی بھی طرح کا ہوا کھڑا کرنا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مستقبل قریب میں ان کی سرگرمیوں میں مزید شدت آنے کے امکانات و آثار موجود ہیں۔ ادھر حکومت اور اس کی پولیس و انتظامیہ ان کے مکروہ عزائم کو روکنے میں فی الحال دانستہ یا نادانستہ بے بس نظر آرہی ہے، اس لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ تمام مذاہب اور طبقوں کے باشعور، روا دار اور بقائے باہم میں یقین رکھنے والے لوگ متحد ہو کر ان عناصر کا کھل کر مقابلہ کرنے اور ان کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے صف آرا ہو جائیں۔ بصورت دیگر جس طرح کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی لپٹوں سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں