"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت : فرقہ پرستی اور عدم برداشت کا عفریت

بھارت کے عروس البلاد ممبئی کی سڑکوں پر پچھلے ہفتے ایک پاکستانی خاندان کو رات فٹ پاتھ پر گزارنی پڑی کیونکہ ویزا ہونے کے باوجود پورے شہر میں کوئی ہوٹل ان کو ٹھہرانے کے لئے تیار نہ ہوا۔ عنایت علی کی فیملی جودھ پور (راجستھان) میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں چالیس دنوں کے ویزے پر بھارت آئی تھی۔ ان کے مطابق وہ حاجی علی کی درگاہ سے فیض حاصل کرنے اور اپنے چودہ سالہ بیٹے کی خواہش پوری کرنے کے لئے ممبئی آئے تھے، مگر تلخ یادیں لے کر واپس گئے۔ بھنڈی بازار، محمد علی روڈ اور ممبئی سنٹرل کے کم و بیش چالیس ہوٹلوں نے پاکستانی ہونے کے باعث انہیں کمرہ دینے سے انکار کیا توعنایت علی نے خواتین سمیت ریلوے اسٹیشن کے باہر فٹ پاتھ کو نشیمن بنا لیا اور اگلے دن ممبئی کی سیر کئے بغیر جودھ پور لوٹ گئے۔ 
بھارت کے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے مواقع پر اکثر کشمیریوں کو اس قسم کے واقعات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے، کئی برس قبل جب میں کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو سے وابستہ تھا، ڈودہ ضلع کی ایک فیملی میرے آفس میں آئی، وہ پچھلے 18 گھنٹوں سے ٹیکسی میں شہرکا چکر لگاکر ہوٹل کا کمرہ تلاش کر رہے تھے۔ شناختی کارڈ، مقامی پولیس سرٹیفکیٹ وغیرہ ہونے کے باوجود کوئی ہوٹل ان کو ٹھہرانے کے لئے تیار نہ تھا۔ ہم نے پولیس میں فون کرکے،اس فیملی کے لئے جو دراصل ایک بیمار کو ہسپتال میںداخل کروانے آئی تھی، ہوٹل کا بندوبست کروایا۔کچھ اسی طر ح کی صورت حال کا سامنا خود مجھے 2003ء میں کرنا پڑا۔ ممبئی پریس کلب نے مجھے ایک لیکچر کے لئے مدعو کیاتھا۔ میری اہلیہ ان دنوںاپنے والد کی تیماداری کے لئے ممبئی میں ہی تھی۔ طے ہوا کہ میں صبح ممبئی پہنچوں گا اور لیکچر سے فارغ ہو کر رات 11 بجے کی آخری فلائٹ سے اہلیہ کے ساتھ واپس دہلی روانہ ہوجائوںگا۔ جب ہم ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے تو صدر اے پی جے عبدالکلام
کے کانوائے کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگیا۔ جب ہم ایئر پورٹ پہنچے تو بورڈنگ بند ہوچکی تھی۔ خاصی رات ہوچکی تھی، اس لئے ممبئی میں اپنے دوستوںکو یا واپس ہسپتال کے گیسٹ ہائوس جانا مناسب نہ سمجھا اور ایئر پورٹ کے قریب ہی کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا۔ مگر ہمارا نام اور شناختی کارڈ دیکھ کر کوئی بھی ہمیں ہوٹل میں کمرہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر تھک ہار کر ہم میاں بیوی فٹ پاتھ کے کنارے اپنے سوٹ کیس کے اوپر بیٹھ کر صبح کا انتظارکرنے لگے۔ دہلی کے برعکس ممبئی شہر سوتا نہیں، رات بھر لوگوںکا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس دوران ایک شخص کو ہم پر رحم آیا، اس نے اپنے دفتر میں رات گزارنے کے لئے ہمیں دعوت دی۔ مرتا کیا نہ کرتا، ہم نے دعوت فوراً قبول کرلی۔ اس شخص نے فرنیچر ادھر ادھر کرکے ایک چٹائی بچھا کر ہمارے لئے سونے کی جگہ بناکر 1000 روپے کے عوض کمرہ ہمارے حوالے کیا۔
عدم برداشت یا فرقہ پرستی بھارت کے لئے نئی چیز نہیں۔ ویدک دھرم کے پیروکاروں نے جس طرح پچھلے دو ہزار برسوں سے دلتوں اور دیگر نچلے طبقوں کو تختۂ مشق بنایا ہوا ہے، وہ تاریخ میں درج ہے۔ مگر اب حکومت کی پشت پناہی کی وجہ سے فرقہ پرستوں کے تیور جارحانہ ہو گئے ہیں۔ ممبئی میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کے اجرا کی تقریب کے منتظم سدھیندرکلکرنی پر سیاہی چھڑکنے کا معاملہ ہو یا گائوکشی کے بہانے تین مسلمانوں کا بہیمانہ قتل، آج بھارت میں فرقہ وارانہ جارحیت اور عدم رواداری تمام حدیں پار کرچکی ہے، یہاں تک کہ فرقہ پرستی کا یہ عفریت اب خود بی جے پی کا بھی تعاقب کرنے لگا ہے۔ ممبئی میں اپنے نظریاتی حلیفوں کے ہاتھوں سدھیندر کلکرنی کو سر عام جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ اس کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ ملک بھر سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے نامور ادیبوں کا مرکزی حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آجانا اور اپنے سرکاری اعزازات اور تمغے بطور احتجاج واپس کرنا معمولی واقعہ نہیں‘ لیکن اس کے باوجود سربراہ حکومت نے معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یوپی کے گائوں دادری میں ایک معمر شخص اور اس کے بیٹے کو محض افواہ کی بنیاد پر بے رحمی سے ہلاک کردیا جاتا ہے‘ لیکن اس شرمناک واقعہ کے بعد وزیراعظم نریندرمودی نے متاثرہ گائوں جانا تو درکنار اس کی مذمت بھی نہیںکی۔اس واقعہ کے بارے میں بی جے پی رہنمائوں اور وزیروںکے اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہوئی اور یہ تاثر گیا کہ سب سے بڑی جمہوریت ، سیکولرزم اور عدم تشدد کے فلسفہ کے علمبردار ملک میں انسانی جان سے زیادہ جانور کی جان کو اہمیت اور قدر حاصل ہے۔ گو بڑی لے دے کے بعد وزیراعظم نے دادری واقعہ کے حوالے سے بہار کے انتخابی جلسہ میں کنایتاً بات کی مگر اس واقعہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اس سے قبل پونا میں نوجوان سافٹ ویئر انجینئر کی اسی طرح ہلاکت پر بھی یہی رویہ اختیارکرچکے ہیں۔
اس وقت بھارتی حکمرانوں کا طرز عمل پہلی صدی عیسوی میں روم کے شہنشاہ نیرو کی یاد تازہ کر رہا ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ موجودہ اٹلی کے شہر روم کو جولائی 64 عیسوی میں زبردست آگ لگی اور پورا شہر چھ دن آگ کے شعلوں میں جلتا رہا اور تقریباً 70 فیصد آبادی کی املاک جل گئیں مگر 'بادشاہ سلامت‘ اس آفت کی گھڑی میں اپنی رعایا کی مدد کرنے کے بجائے بانسری بجاتا رہا۔ نیروکو تاریخ میں ایک بے حس، اذیت پسند، ظالم اور بے رحم حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے، جس نے اس خاکستر شہر پر اپنا عالی شان محل تعمیرکرایا تھا۔ جب2002 ء میںگجرات نسل کش فسادات کی آگ میں جل رہا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ریاست کے حالات کی عکاسی اسی تاریخی جملہ سے کی تھی کہ ''جب روم جل رہا تھا، نیرو اپنی بانسری بجا رہا تھا‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات کا اعادہ ہو رہا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ معاملہ پہلے صرف ایک ریاست تک محدود تھا مگر اب اس کی لپیٹ میں پورا ملک آگیا ہے اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ 
دادری اور اس کے بعد ہونے والے مزید دو واقعات پر بی جے پی کے رہنمائوں اور وزیروں کے بیانات سے دنیا بھر میں بھارت رسوا ہوا، دنیا کو یہ تاثر ملا کہ سب سے بڑی جمہوریت، سیکولرزم اور عدم تشدد کے علمبردار ملک میں انسانوں سے جانور کی زیادہ قدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر پرناب مکھرجی کو مجبوراً ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں انہوں نے اہل ملک کو خبردار کیا کہ ا یسے واقعات سے ملک کی عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے۔ پھر بھی وزیر اعظم نے ایک بنگالی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں دادری سانحہ کو محض ایک 'افسوسناک واقعہ‘ قرار دے کر واضح کر دیا کہ وہ اپنے وزرا اور پارٹی لیڈروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیںگے۔ ان مخدوش حالات پر باضمیر اور ملک سے محبت رکھنے والے افراد کا فکر مند ہونا فطری امر ہے۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے وزیراعظم کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' بی جے پی کی طرف سے ملک میں منافرت اور عدم رواداری کا ماحول پیدا کرنے کی منظم مہم کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان میں دادری سانحہ کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اسے ایک 'افسوسناک واقعہ‘ سے تعبیر کرنا نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ انسانیت کے لئے بے حسی کا بھی عکاس ہے۔ بطور وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستان کے 125 کروڑ عوام کی سلامتی اور بہبود کے لئے جوابد ہ اور ذمہ دار ہیں۔ حیرت ہے کہ انہیں اپنی آئینی، قانونی اور سماجی ذمہ داریوں کی کوئی پروا نہیں‘‘۔
وزیر اعظم کا اصرار ہے کہ اس منافرانہ مہم اور پر تشدد واقعات سے ان کی حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کی طرف سے اس کے لئے اپنے حریفوں اور مخالف سیاسی جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہرانا دراصل اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور منافرت کے علمبرداروں کے حوصلے بلند کرنے کے مترادف ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کی ان دلیلوں میں کوئی وزن نہیں ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ وزیراعظم نے اب تک اپنے وزیروں مہیش شرما، سنجیو بلیان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ وہ انہیں غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے پر کم ازکم وزارت سے برطرف کرکے مثبت پیغام دے سکتے تھے۔ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ ساکشی مہاراج ، یوگی ادیتہ ناتھ ، ترون وجئے، سنگیت سوم، نواب ناگر کے علاوہ پارٹی لیڈر سر چند شرما، سادھوی پراچی اور ہریش سنگھ کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں