"IGC" (space) message & send to 7575

بہار الیکشن: مودی کا وقار دائو پر

آبادی کے لحاظ سے بھارت کے تیسرے بڑے صوبہ بہار میں پانچ مرحلوں پر محیط ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا عمل جاری ہے۔ اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ صوبے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، مگر ملک بھر میں موجودہ تشویشناک حالات کے پیش نظر یہ انتخابات کئی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت اختیارکرگئے ہیں۔ یہ انتخابی جنگ فرقہ پرستی بمقابلہ سیکولرازم میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ انتخابات ملک کی سیاست میں فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کی پیش قدمی کو روک لگا سکتے اور سیکولر قوتوں کو ایک نئی توانائی عطا کرسکتے ہیں۔ بہارکے انتخابی نتائج کا بھارت کے مجموعی سیاسی نقشہ پراثر اندازہونا بھی یقینی ہے کیونکہ ملک بھر میں بہارکے موجودہ وزیر اعلیٰ اورسیکولر اتحاد کے سربراہ نتیش کمار واحد لیڈر ہیں جو وزیراعظم نریندر مودی کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں اورمودی کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ وہ مودی کی طرح عوام کو تقریر سے لبھانے کا فن بھی جانتے ہیں اوردس سالہ دور اقتدار میں ان کا دامن سکینڈلز سے بھی پاک ہے۔ انہوں نے بہار جیسی پسماندہ اور لاقانونیت سے پر ریاست میں تعمیر و ترقی کا نیا باب بھی رقم کیا، لہٰذا بھارت کی مڈل کلاس انہیں مودی کے متبادل کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ اگر نتیش کمار بہار میں کامیاب ہو جاتے ہیں تومرکز میں اقتصادی محاذ پر مودی کی ناکامی کی صورت میں وہ بھارتی کارپوریٹ سیکٹر اور مڈل کلاس کے پسندیدہ امیدوار کے روپ میں آئندہ عام انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے دعویدار ہوںگے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی خاصی تگ ودوکے باوجود مودی کے مقابلے میں بونے نظر آتے ہیں، ان میں قیاد ت کی اہلیت ہے نہ ہی وہ مودی کی چرب زبانی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، بھارتی مڈل کلاس انہیں سیاسی جوکر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔
ملک میں اس وقت فرقہ وارانہ جنون میں اچانک جو اچھال آیا ہے وہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بہارکی انتخابی مہم میں جب بی جے پی نے دیکھا کہ اس کا نام نہاد ''وکاس‘‘ (ترقی) کا نعرہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے تو وہ اپنی سابق روش پر اتر آئی کیونکہ اس الیکشن پر پارٹی خصوصاً وزیر اعظم مودی کا سب کچھ دائو پر لگا ہے۔
اس سال فروری میں دہلی اسمبلی کے انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد وزیر اعظم نے اپنی ساری توجہ حکمرانی کے بجائے بہار اسمبلی کے انتخابات پر مرکوز کر دی۔ یہ انتخابات بی جے پی سے زیادہ مودی کے لیے سخت امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر انتخابی نتائج ان کی توقع کے خلاف آتے ہیں تو ان کی حکومت اور پارٹی پر گرفت کمزور ہوجائے گی اور پارٹی کے اندر ان کے مخالفین کوتوانائی مل جائے گی۔ اسی خوف کے سبب مودی نے ریاست کے دورے شروع کردیے۔ انہوں نے گیا شہر میں ایک جلسہ عام میںکہاکہ اگر ریاست کے عوام ترقی چاہتے ہیں تو وہ بی جے پی کو ووٹ دیں۔گجرات میں مودی کے دور حکومت میں ہوئی تو ہر ایک نے نہیں دیکھی لیکن جب سے انہیں مرکزی اقتدار ملا ہے ملک میںجوترقی ہو رہی ہے اس کی حقیقت ہرکوئی جان گیا ہے۔ لہٰذا ریاست کے عوام کا ان کے دعووں پر اعتبار نہیں رہا۔ بی جے پی کے پاس اب ذبیحہ گائے اور ہندوئوں کو مسلمانوں سے ڈرانے کا کمیونل کارڈ کھیلنے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یوں تو بہار میں بہت پہلے سے انتخابی بساط بچھ چکی ہے، گزشتہ برس جب اسمبلی کے ضمنی انتخابات ہوئے تھے،ان میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے ماضی کی تلخیاں فراموش کرکے ہاتھ ملا لیا تھا‘ جو پہلے سیاسی حریف تھے۔ اس کے نتیجے میں ریاست کا انتخابی منظر نامہ 'اعلیٰ‘ ذاتوں بمقابلہ پسماندہ ذاتوں میں تبدیل ہوگیا۔ اب بھی یہ انتخابی معرکہ پسماندہ طبقات اور 'اعلیٰ‘ طبقات کے درمیان سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی لڑائی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ان حالات میں ترقی کا پُر فریب نعرہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔ رہی سہی کسر آرایس
ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس وقت پوری کردی جب انہوں نے اپنی تنظیم کے ترجمان جریدے کو انٹرویو میں ریزرویشن یعنی ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نچلی ذاتوں کے لیے مخصوص نشستوںکی پالیسی پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔ اس انٹرویو نے بہارکی حکمران جماعت جنتادل ( متحدہ)، یادوکی راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کے عظیم تر اتحاد ( مہا گٹھ بندھن) کا کام آسان کردیا ہے۔ مودی اور پارٹی لیڈر بار بار صفائی دے رہے ہیں کہ ریزرویشن کی پالیسی جاری رہے گی لیکن اب تیرکمان سے نکل چکا ہے اورپارٹی اس خوف میں مبتلا ہو گئی ہے کہ بہار میں بھی بی جے پی کا وہی حشر نہ ہو جو دہلی میں ہوا تھا۔ یوں بھی بی جے پی کی پہچان 'اونچی ذاتوں‘ کی جماعت سے ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت کی زمام کار پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص کے ہاتھ میں ہے لیکن مرکزی کابینہ میں اعلیٰ ذاتوںکا ہی غلبہ ہے۔ بہار میں بھی اس نے بڑی تعداد میں 'اعلیٰ‘ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ 
ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے جہاں بھی اسمبلی انتخابات ہوئے وہاں بی جے پی کے ووٹوں کا تناسب روبہ زوال رہا اور جو رائے دہندگان بی جے پی کے سبز باغ کے جھانسے میں آئے تھے وہ اب مودی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اس حقیقت سے مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ ( جنہیں مودی نے پارٹی کا صدر بنادیا) انکار نہیں کر سکتے۔ 
بہارکی آبادی تقریباً نوکروڑ ہے جس میں 16.9فیصد مسلمان ہیں۔ حیدرآباد دکن کے رکن پارلیمنٹ اور مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی چھ امیدوار میدان میں اتار دیے ہیں۔ ان انتخابات کا مایوس کن پہلو یہ ہے کہ سیکولر اتحاد نے جس کی پشت پر پورا مسلم ووٹ بینک کھڑاہے، 245 رکنی اسمبلی کے لیے چند ہی مسلمانوں کوٹکٹ دیے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیکولر اتحاد کے لیڈر ان انتخابات کو ہندو بنام مسلمان کے بجائے اونچی ذات بمقابلہ نچلی ذات بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کی کوشش ہے کہ مسلمان، پاکستان اورگائے کشی کا خوف پیدا کروا کر ہندو ووٹروں کو یکجاکیا جائے کیونکہ یہی تین ایشوزایسے ہیں جو ہندوئوں کو ذات پات کے بندھن توڑ کر اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بہارکی سیاست میں ذات پات کا غلبہ ہے اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتاکہ وہاں کے رائے دہندگان اجتماعی اورانفرادی مسائل سے زیادہ اپنی اپنی ذات (caste) کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی کو محض نام نہاد ترقی کے نعرے کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا تھا بلکہ بی جے پی نے ریاست میں انتہائی پسماندہ طبقات اور دلتوںکا ایک اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اب ذات کی بنیاد پر یہ صف بندی بی جے پی اتحاد پر بھاری پڑی رہی ہے اور وہ اپنے کسی لیڈرکو وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اگر سوشل کمار مودی کو امیدوار بنایا جاتا تو اعلیٰ ذاتیں ناراض ہوجاتیںکیونکہ ان کا تعلق پسماندہ طبقہ سے ہے۔ 
گزشتہ17مہینوں میں مودی حکومت کی جو کارکردگی رہی وہ ایسی نہیں جو رائے دہندگان کو راغب کر سکے۔ مودی سرکار نے آرایس ایس کے حامیوں کو خوش کرنے کے سوا کوئی ایسا کام نہیں کیا جو عام آدمی کے لئے یک گونہ راحت کا باعث ہو۔ ہوشربا مہنگائی میں کمی کے بجائے ہردن اضافہ ہو رہا ہے۔ جن لوگوں نے 15لاکھ روپے ملنے کی لالچ میں ووٹ دیا تھا وہ بھی مایوس ہوچکے ہیں اور کالے دھن کا حربہ بھی اب الٹا پڑ رہا ہے۔امیت شاہ علانیہ کہہ چکے ہیں کہ یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا انتخابی نعرہ تھا۔ اس کے علاوہ کرپشن کے یکے بعد دیگرے معاملات منظر عام پر آئے لیکن وزیراعظم اور پارٹی قیادت نے مبینہ بدعنوان ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کرائی گئی ذات شماریCensus) (Caste کی رپورٹ اب تک شائع نہیںکی۔ دلتوں کے بعض طبقات کے ساتھ بی جے پی کی سیاسی صف بندی کے باوجود ریاست میں ذات پات کا جو منظر نامہ ہے اس کی بنیاد پر جنتادل اتحادکو بی جے پی پر واضح سبقت نظر آتی ہے۔ انہی محرکات نے ریاست کی انتخابی مہم کو فرقہ واریت سے آلودہ کردیا ہے۔ ادھر بہار کے بی جے پی لیڈر سیشل کمار مودی نے اعلان کیا ہے کہ اگر این ڈی اے ریاست میں بر سر اقتدار آ گیا تو وہ گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگادے گا۔ یہ سادہ لوح عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی ایک بھونڈی حرکت ہے کیونکہ ریاست میں1955ء سے ہی یہ پابندی نافذ ہے۔ بہار سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے بعض لیڈر بشمول گری راج سنگھ آئے دن زہر اگلتے رہتے ہیں۔ ان عوامل کی بنا پرکہا جاسکتا ہے کہ اگر بی جے پی یہ انتخاب ہار جاتی ہے تو اس کے صدر امیت شاہ کا یہ امیج بری طرح مجروح ہو گا کہ وہ بہترین حکمت ساز ہیں۔ وزیراعظم مودی کی بھی حکومت اور پارٹی پر گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ ملک میں ان سیاسی جماعتوں کو تقویت ملے گی جو خوف کے سبب فرقہ پرستوںکے خلاف کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ اگر انتخابی نتائج اس کے برخلاف آتے ہیں تو یہ فرقہ پرست طاقتوں کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دورکردیں گے اور انہیںکھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں