بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کرسمس ، بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے یوم پیدائش کے موقعہ پر اچانک لاہور کا دورہ کرکے سب کو حیران و پریشان کردیا ۔ انہوں نے ایسا کرکے اس بات کا واضح پیغام بھی دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ منجمد تعلقات کو پھر سے استوار کرنا چاہتے ہیں۔افغانستان میں پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کرنے کے بعد ‘بعددوپہر انہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ نواز شریف سے ملنے لاہور جارہے ہیں۔کابل سے وزیر اعظم مودی کے ٹویٹ سے بھارت اور پاکستان میں ہلچل مچ گئی۔انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ میں نے نواز شریف کو آج صبح فون کر کے انہیں ان کی سالگرہ پر مبارکباد دی ہے اور میں دلی جاتے ہوئے ان سے لاہور میں مل رہا ہوں۔اس کے فوراً بعد بھارت اور پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوگیا۔نریندر مودی کا یہ پہلا اور 12سال بعدکسی بھی بھارتی وزیراعظم کاپہلادورہ ٔپاکستان تھا۔لاہور کے نواح میں واقعہ رائیونڈ پیلس میںمیاں صاحب سے ملاقات کے بعد اب لگتا ہے کہ 2016 ء بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارت کاری کے حوالے سے خاصا مشغول سال ثابت ہوگا۔ اگلے ماہ سوئٹزر لینڈ کی یخ بستہ ہواوٗں میں دونوں سربراہان ایک بار پھر آمنے سامنے ہوںگے ۔ دائوس شہر میں 20جنوری کو ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقعہ پر مودی اور نواز کی ملاقات خارجہ سیکرٹریوں کی میٹنگ کے صرف ایک ہفتہ کے بعد ہوگی۔ اسی دوران دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات بھی طے ہے‘ جس کے بعد 31مارچ کو واشنگٹن میں نیوکلیئر سکیورٹی سربراہ کانفرنس کے موقعہ پر ایک بار پھر نواز۔مودی ملاقات کا امکان ہے۔ امریکی صدر بارک اوبامانے دونوں وزراء اعظم کو اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دی ہے، اور دونوں نے اس کو قبول بھی کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان پے درپے چوٹی مذاکرات کا مقصد دراصل دونوں
ملکوںکے فارن آفس اور بیوروکریسی پر از حد دباؤ بڑھانا ہے، تاکہ وہ ستمبر تک کوئی واضح ایجنڈا ترتیب دے سکیں۔ مودی دوسری بار سارک سربراہ کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے ستمبر میں پھر پاکستان جارہے ہیں۔اس سے قبل بھارت کے صرف دو وزراء اعظم جواہر لال نہرو اور اٹل بہاری واجپائی دو بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ راجیو گاندھی ایک بار 1987ء میں سارک کانفرنس کے موقعہ پر بے نظیر بھٹو کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا چکے ہیں۔ کسی اور بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان کے دورہ کی توفیق نہیں ہوئی۔ گو کہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پاکستان جانے اور اپنا آبائی گاوٗں دیکھنے کا خاصا اشتیاق تھا،جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے، مگر ان کی کانگریس پارٹی نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی۔
دونوں ممالک کے دفاتر خارجہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ یہ مودی کا دورہ اچانک اور 25دسمبر کی صبح کو ہی طے ہوا‘مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں، کہ دس دن سے اعلیٰ حکام دورہ کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ پچھلے منگل کو بھارت میں مقیم پاکستانی سفیر عبدالباسط کا اسلام آباد روانہ ہونا، اور ایک بھارتی صنعت کار سجن جندل کی لاہور میں موجودگی محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔پچھلے سال کٹھمنڈو میں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر جندل نے اپنی رہائش گاہ پر مودی اور نواز کی میٹنگ کروائی تھی۔ اس کے علاوہ 14 دسمبر کو جنوبی ریاست کیرالا کے دورہ کے موقعہ پر مودی نے آرک بشپ جارج آلین چیری سے معذرت کی تھی،کہ مسیحی رہنمائوں کے ساتھ کرسمس کے موقعہ پر ان کی طے شدہ میٹنگ ممکن نہیں ہے۔ یہ میٹنگ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی رہائش گاہ پر ہونا تھی اور اس سلسلے میں حکمران بی جے پی نے خاصی تیاریاں کی
تھیں‘کیونکہ یہ علامتی میٹنگ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسیحی اداروں کو نشانہ بنانے کی مہم اور مغربی ممالک میں اس کے مضمرات کو زائل کرانے کیلئے نہ صرف پارٹی بلکہ حکومت کیلئے بھی اہم تصور کی جا رہی تھی۔
تجزیہ کار مودی کے دورہ اور اس کی وجوہ پر سیر حاصل تبصرہ کر رہے ہیں۔ یہ بات طے ہے، کہ مغربی ممالک اور حتیٰ کہ روسی رہنمائوں کے مشوروں نے مودی کو یہ باور کرایا‘کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو دوسرے نظریہ سے دیکھنے اور سفارت کاری میں بھارت کو پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ پچھلے ماہ بھارت کے دورۂ پر سینئر افغان اہلکاروں نے بھی بھارت اور پاکستان کو اپنے تعلقات بہتر بنانے کی اپیل کی تھی، اور بر ملا کہا تھا، کہ اس کا خمیازہ ان کو افغانستان میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسرا اہم محرک جموں کشمیر میں ابتر ہوتی جارہی صورت حا ل بھی ہے۔ حکمران پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے 15اکتوبر کو مودی کے ساتھ دہلی میں ہوئی میٹنگ میں خاص طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی، کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی، پاکستان کو ساتھ لئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اُمید کی جارہی تھی کہ 7نومبر کو ا پنے پیش روئوں کی طرح مودی سرینگر کی ریلی میں کوئی سیاسی یا سفارتی پیغام ضرور دیں گے‘مگر نہ صرف انہوں نے عوام کو مایوس کیا، بلکہ مفتی محمد سعید کے وقار پر بھی سوالیہ نشان لگاکر واپس آگئے۔مگر وزیر اعلیٰ جو آج کل دہلی میں زیر علاج ہیں ، کہہ رہے ہیں ، کہ مودی نے مذاکرات کی بحالی اور امور کو حل کرنے کی طرف پیش قدمی کی ان کو یقین دہانی کروائی تھی۔ ۔پچھلے ماہ برطانیہ کے دورہ سے قبل لندن میں احتجاج کو سبوتاژ کرنے اور اس کی شدت کم کروانے کیلئے مودی کے دست راست رام مادھو نے بیرون ملک کئی کشمیری لیڈروں سے ملاقاتیں کرکے ان کو بھی کچھ اسی طرح کی یقین دہانیاں کروائی تھیں۔مفتی سعید اب اپنے پارٹی کے کارکنوں کو، جو بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے سے ناراض ہیں، بتارہے ہیں، کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور مسئلہ کشمیر پر پیش رفت کی غرض سے ہی انہوں نے کانگریس کو ٹھکرا کر بے جے پی کے ساتھ رشتہ جوڑ لیا تھا۔مفتی محمد سعیدنے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ لاہور کا دور ہ دو ملکوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ خطے میں قیام امن کے لئے موثر ثابت ہوگا۔مفتی نے مزید کہا کہ یہ مثبت قدم ہے اور اس سے پاکستان کے ساتھ رشتوں کو استوار کرنے کے وزیر اعظم کے عزم کا اشارہ ملتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بھائی چارے کو بڑھاوا دینے اور آپسی بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سود مند ثابت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل سے سارک کے تصور کو مزید متحرک کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کے ایک معتمد نے بتایا، کہ 2003 ء اور 2005ء کے دوران پچھلی مفتی محمد سعید کی حکومت ، گورننس کے حوالے سے اس لیے ایک کامیاب حکومت تصور کی جاتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کا دور کامیابی کے ساتھ رواں دواں تھا۔ پہلے واجپائی اور مشرف بعد میں من موہن سنگھ اور مشرف مسئلہ کشمیر کا کوئی دیرپا اور متبادل حل کے لئے کوشاں تھے۔ اپنے دس سالہ دور اقتدار کی آخری اور چوتھی پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے اقرار کر ہی لیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کی دہلیز تک وہ پہنچ گئے تھے‘ مگر صد ر پرویز مشرف کی اقتدار سے بے دخلی اور پاکستان کے داخلی مسائل نے اس کونپل کوپھوٹنے سے پہلے ہی مرجھا دیا۔
حال ہی میں اب پاکستانی لیڈر خصوصا ًسابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے تو باضابطہ اپنی کتاب میں اس حل کے خد و خال سے پردہ ہٹایاہے۔ اٹل بہاری واجپائی سے لے کر من موہن سنگھ تک اور وزیر اعظم نریندر مودی بھی کئی بار یورپی یونین کی طرز پرجنوبی ایشیائی یونین کے قیام کا برملا اظہار کرچکے ہیں، مگر یہ شاید وہ بھی جانتے ہیں، کہ سیاسی تنازعات کا تصفیہ کئے بغیر ، اقتصادی یونین شاید ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ ویسے مودی کے اس سفارتی قدم سے پاکستان اور کشمیر میں اس بات کو تقویت پہنچی ہے، کہ سخت گیر بی جے پی ، اعتدال پسند کانگریس کے مقابلے پاکستان کے ساتھ معاملات کر نے میں فیصلہ کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتی ہے۔
اس دورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے، حریت راہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ یہ مثبت قدم ہے اور ریاستی عوام ایسے کسی بھی موقعہ کا خیر مقدم کرتے ہیں جس سے دونوں ملک آپس میں قریب آسکیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے سیاسی خود اعتمادی اور سیاسی بصیرت کشمیر جیسے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ وہ ہمیشہ مذاکرات سے ہی مسائل کے حل کے متمنی ہیں، مگر یہ نتیجہ خیز ہونے چاہئیں ۔ماضی کاتجربہ بتاتا ہے، کہ ان کی آڑ میں کشمیر میں کشت و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ اگر ان مذاکرات کا کشمیر کی گراونڈ سچویشن پر مثبت اثر پڑتا ہے، اوربنیادی مسئلہ کے حل کی طرف دونوں ممالک گامزن ہوتے ہیں ، تو وہ ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مگر یہ بات طے ہے، کہ حتمی مذاکرات میں کشمیری رہنمائوں کو شامل کرنا لازمی ہے۔