"IGC" (space) message & send to 7575

مفتی سعید: زیرک سیاستدان یا دہلی کا پروردہ مہرہ

غالباً 2005ء کے اوائل میں جب مفتی محمد سعید مقبوضہ کشمیر حکومت کے سربراہ تھے، میں شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے آٹھ سیٹوں والی ٹاٹا سومو پسنجر لاری میں سرینگر کی جانب سفر کر رہا تھا۔ چونکہ میں فرنٹ سیٹ پر براجمان تھا، اس لیے ڈرائیور کی قینچی کی طرح چلتی زبان اور عالمی جنرل نالج پر اس کے علم کا تختہ مشق بننے پر مجبور تھا۔ سنگرامہ موڑ سے ذرا آگے سرینگرـ مظفر آباد ہائی وے پر ڈرائیور نے فتویٰ صادرکیا کہ ''کشمیر میں اب حالات بہت ٹھیک ہوگئے ہیں‘‘۔ میں نے وضاحت مانگی تو اس نے پاس سے گزرتے فوجی ٹرکوں اورکانوائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: '' اب ہم ان کو اوور ٹیک کرسکتے ہیں‘‘۔ حالات ٹھیک ہونے کی یہ توجیح سن کر مجھے ہنسی آگئی، مگر یہ ایک حقیقت تھی کہ اس سے پہلے کشمیر کی شاہراہوں پرکسی آرمی ٹرک کو اوور ٹیک کرنا قابل تعزیر جرم تھا۔ سوپور سے سرینگر جاتے ہوئے مجھے بھی متعدد بار کانوائے کے پیچھے سست روی سے سفر کرنا پڑا تھا۔ اگر راستے میں کانوائے کسی آرمی کیمپ کے پاس ٹھہر جاتا تو ایمبولینس سمیت پوری سویلین ٹریفک کو رکنا پڑتا تھا۔ یوں ڈیڑھ گھنٹے کا سفرکبھی کبھی پانچ گھنٹے میں ختم ہوتا۔ جب عسکریت پسندوں کے حملوں یا بارودی سرنگیں بچھی ہونے کا اندیشہ ہوتا تو سویلین لاری کوکانوائے یا فوجی لاری کے آگے یا درمیان میں انسانی ڈھال بنا کرچلنے کا حکم صادر ہوتا۔ راستے میں مسافروںکو موت اتنی قریب دکھائی دیتی کہ وہ منزل تک پہنچنے سے پہلے استغفار پڑھتے ہوئے گناہوں کی معافی مانگ کر اگلی دنیا کے سفرکی تیاری کرنے لگتے۔ 2002ء سے 2005ء تک ان کا تین سالہ دورِ حکومت گڈگورننس اور عوام کو خوف کی نفسیات سے باہر نکالنے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شاید یہ واحد دور تھا جب آزادی پسند قیادت کو جلسے جلوس کی کھلی چھوٹ تھی۔ شاید قسمت بھی ان پر مہربان تھی کہ ان کا دورِ حکومت، پاکستان سے امن مساعی کے ساتھ ہم آہنگ رہا۔ اس دور میں صدر مشرف، اٹل بہاری واجپائی اور بعد میں من موہن سنگھ سنجیدگی کے ساتھ امن کے خاکے میں رنگ بھرتے رہے۔ مفتی
سعیدکی یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ اس دور میں جنرل وی جی پٹانکر سرینگرکی 15ویں کورکے کمانڈر متعین رہے جو عام بھارتی جنرلوں کے برعکس تھوڑی بہت سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی مفتی سعید کو ماحول فراہم کرنے میں مدد دی۔ اسی دور میں سویلین لاریوںکو اجازت ملی کہ وہ فوجی ٹرکوں کو اوور ٹیک کر سکیں۔ جنوبی کشمیرکے دور دراز علاقوں میں فوج کی طرف سے بلیک آئوٹ کا حکم کئی برسوں سے نافذ تھا جو ختم کر دیا گیا۔ سوپور سے سرینگر تک سفر کے دوران کم از کم تین چار مقامات پر سواریوں کو بس سے اتارکر ان کی پریڈ کروائی جاتی جو کسی حد تک کم ہوگئی۔ اسی دور میں لائن آف کنٹرول کو بھی آمدورفت اور بعد میں تجارت کے لیے کھول دیا گیا جو ''اسٹیٹس کو‘‘ ختم کرنے کی سمت ایک بڑا قدم تھا۔
مفتی محمد سعید یقیناً واحد لیڈر تھے جوکشمیر میں بھارت کے لیے ایک سیاسی حلقہ ترتیب دینا چاہتے تھے جس کے لیے انہیں شیخ محمد عبداللہ کے زیر عتاب بھی رہنا پڑا۔ مگر 1998ء کے بعد ان کی سوچ میں اتنی تبدیلی آ گئی کہ وہ نیشنل کانفرنس کی طرح بھارتی آئین کی حدود میں 1953ء سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی کے لیے آمادہ ہوگئے۔ ان کے سیلف گورننس کا اطلاق کشمیر کے آر پار آمد و رفت کی بحالی پر بھی ہوتا تھا۔
ایک بار انہوں نے مجھ سے کہا کہ ''کشمیری عوام پاکستان کے تئیں خاصے جذباتی ہیں مگر میں ان کو پاکستان یا حق خود ارادیت دلانے کا وعدہ نہیں کرسکتا، البتہ میں ان کو پاکستان جانے کے لیے سہل راہداری اور اس خطے کے تاریخی تجارتی روابط کو بحال کرواسکتا ہوں‘‘۔ مستقل طور پر سرینگر منتقل ہونے سے قبل 2000ء تک سردیوں میں ہر سال مفتی سعید تغلق لین پر اپنے سرکاری بنگلے میں کشمیری 'وازہ وان‘ کا اہتمام کرتے تھے جس کا دہلی کا میڈیا انتظارکرتا تھا۔ واجپائی کے دور حکومت میں جب جگ موہن وزیر ہائوسنگ بنے تو انہوں نے مفتی سعید سے یہ سرکاری بنگلہ خالی کروا لیا۔ یہ وہی جگ موہن تھے جن کو مفتی سعید نے 1989ء میں بطور بھارت کے واحد مسلمان وزیر داخلہ کشمیر کا گورنر بناکر بھیجا تھا۔ اس کے اگلے سال مفتی سعید نے دہلی کے نواح میں ایک کثیر منزلہ عمارت میں اپنے دو بیڈ روم کے فلیٹ میں یہ ضیافت دی۔ اس بار جگہ کی کمی کے باعث انہوں نے چنیدہ افرادکو ہی بلایا۔ سبھی صحافی حیران تھے کہ ایک شخص جو دو بار مرکزی وزیر رہا ہو، کشمیر میں طویل عرصہ کانگریس اکائی کا سربراہ رہا ہو‘آخر دہلی میں ایک مکان خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا؟ ان کے مخالفین بھی ان کے دامن پرکرپشن کے چھینٹے نہیں لگا پائے۔
میں مفتی سعید سے پہلی بار 1990ء کے اوائل میں ان کے ایک سابق کابینہ کے رفیق عارف محمد خان کی رہائش گاہ پر افطار پارٹی کے دوران ملا، اگرچہ اس سے قبل سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں میں مجھے ان کی تقریر سننے کا موقع مل چکا تھا۔ میں اس وقت صحافت کا طالب علم تھا اور انٹرن شپ کر رہا تھا۔ جب میں نے اپنا تعارف کرایا توانہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیر کے مسلم نوجوان تو صحافت میں آتے ہی نہیں اورکیریئر کے لیے دہلی کا رخ بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مجھ سے پہلے یو این آئی کے شیخ منظور احمد اور سنڈے آبزرورکے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی دو ایسے کشمیری مسلمان ہیں جنہوں نے دہلی میں صحافتی کیریئر بنایا۔ انہوں نے مجھے صلاح دی کہ میں ان دونوں حضرات سے مشورہ لیتا رہوں۔ اگرچہ مفتی سعید کا انداز پدرانہ شفقت کا تھا مگر میں ان کو گہرے شک کی نگاہ سے ہی دیکھتا رہا۔ میں ان کوبھارتی ایجنسیوں کا پروردہ سمجھتا تھا جنہیں کشمیری عوام کی خواہشات کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، انہوں نے1977ء میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایا اور اس کے بعد 1984ء میں دہلی کے ایما پر فاروق عبداللہ کو معزول کروایا اور کشمیر میں سیاسی بے چینی کا سبب رہا۔ 1997ء میں مجھے مفتی سعید کی سیاسی حیثیت کا پہلی بار اس وقت اندازہ ہوا جب وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنی حکومت کی پہلی سالگرہ اور اپنے فرزند عمر عبداللہ کے باپ بننے کی مناسبت سے دہلی کے کشمیر ہائوس میں ضیافت کا اہتمام کیا۔ مفتی سعید انہی دنوں گوشہ نشینی ترک کر کے دوبارہ کانگرس میں شامل ہوکر ریاستی اکائی کے صدر بنائے گئے تھے۔ فاروق عبد اللہ اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کے بجائے صحافیوں اور دیگر افراد سے چپکے چپکے مفتی سعید کے ارادوں کے بارے میں پوچھتے رہے۔ اس وقت اسمبلی میں تین چوتھائی نشستوں پر نیشنل کانفرنس قابض تھی۔ میں حیران تھا کہ کیا مفتی سعید اتنا بڑا عفریت ہے کہ فاروق عبد اللہ کو اتنی بڑی اکثریت کے ہوتے ہوئے بھی متزلزل کرسکے؟ ضیافت کے بعد جموں وکشمیر حکومت کے میڈیا ایڈوائزر اونکار ناتھ کول مجھے کشمیر ہائوس میں ہی اپنے دفتر لے گئے اور باتوں باتوں میں ہدایت کی کہ ایک صحافی ہونے کے ناتے میں مفتی پر گہری نظر رکھوں۔ انہوں نے کہاکہ مفتی اب 'خبر‘ ہے‘ اس لیے ان کا ہر قدم کشمیر کی کوریج کرنے والے صحافی کے لیے اہم ہے۔کول صاحب حکومت میں آنے سے قبل خود معروف صحافی تھے۔ اس جہاندیدہ پنڈت کی پیش گوئی کئی سال بعد سچ ثابت ہوئی۔
اپنی صاف گوئی کی وجہ سے مفتی سعید اپنے حریف شیخ عبد اللہ یا ان کے فرزند فاروق عبد اللہ کی طرح سیاسی مقام نہیں بنا پائے۔کشمیر میں بھارت نواز (وہ سیاستدان جو بھارتی آئین میں خود مختاری کے قائل ہیں) لیڈروںکوعجیب و غریب مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طر ف ووٹ بٹورنے کے لیے عوامی جلسوں میں آزادی، خود اختیاری اور سیاسی عزت و آبرو کا پاسبان بننا پڑتا ہے اور دوسری جانب اقتدار میں آکر اسے بچائے رکھنے کے لیے دہلی اور بھارتی ایجنسیوں کی ناز برداری کرنی پڑتی ہے۔ دونوں کو خوش رکھنے کا ملکہ فی الحال فاروق عبداللہ کو حاصل ہے جوکشمیری عوام کو سبز باغ دکھاتے اور دہلی میں پاکستان پر بم گرانے کی بات کرتے ہیں۔ 
مفتی سعید کا کوئی موروثی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ انہوں نے نچلے درجے کے کارکن کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغازکیا اور شیخ محمد عبداللہ کی بارعب شخصیت کے ہوتے ہوئے کانگریس کی بنیادیں ہموارکیں اور ریاست کے تقریباً تمام حصوں میں اس کو ایک متبادل کی صورت میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر 1999ء میں مفتی سعیدکو احساس ہوگیا کہ سرینگر سیکرٹریٹ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ مقامی کشمیری قوم پرست پارٹی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا کرگل جنگ کے خاتمے کے دو روز بعد ہی انہوں نے اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے کانگریس سے مستعفی ہوکر نئی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور سوچ سمجھ کر انتخابی نشان قلم دوات منتخب کیا کیونکہ 1987ء کے بد نام زمانہ اسمبلی انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ (موجودہ حریت کانفرنس) کا یہی انتخابی نشان تھا۔ اس انتخاب نے کشمیر میں دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے اور اکثر تجزیہ کار اسے عسکریت کا محرک تسلیم کرتے ہیں۔ 1998ء سے ہی حریت رہنمائوں کی طرح مفتی سعید کے ایما پر محبوبہ مفتی نے بھی سکیورٹی فورسزکی طرف سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے گھروں میں تعزیت کے لیے جانا شروع کردیا تھا اور کئی مواقع پر عسکریت پسندوں کے جنازوںکے جلوس میں بھی شرکت کی۔ (باقی صفحہ 13پر)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں