"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر کی تاریخ کے موڑ

گزشتہ چھ عشروں میںکشمیرکی تاریخ میں کئی اہم موڑ آئے۔ بیشتر اوقات دانستہ یا نادانستہ طور پر ''خیرخواہوں‘‘ کے کچھ ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں نے بھی بدقسمت عوام کی اندھیری راتوں کو مزید طویل کیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جولائی 1995ء میں جنوبی کشمیر کے پہلگام پہاڑوں سے چھ مغربی سیاحوں کا اغوا اور گمشدگی ہے جس نے ایک سیاسی تحریک آزادی کو مغربی دنیا کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ دنیا کے جیو سٹریٹیجک حالات کی وجہ سے اکثر مغربی ممالک تحریک کشمیر کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے، مگر یہ واقعہ نہ صرف مغربی ممالک کی اخلاقی اور سفارتی ہمدردیاں ختم کرنے کا باعث بنا بلکہ رفتہ رفتہ اس واقعے کو بنیاد بنا کرکشمیر میں جاری عسکری تحریک کو بین الاقوامی دہشت گردی سے جوڑنے کی بھر پور کوشش بھی ہوئی۔ 
حال ہی میں مظفرآباد میں مقیم متحدہ جہاد کونسل اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے جس طرح بھارتی پنجاب کے پٹھانکوٹ شہر میں بھارتی فضائیہ کے مستقر پر حملوں کی ذمہ داری خم ٹھونک کرقبول کی ہے، یہ یا تو انتہائی بچگانہ حرکت ہے یا لگتا ہے کہ پھر کسی گہری سازش کا خاکہ بنایا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے، مغری سیاحوں کے اغوا کے فوراً بعد دہلی میں مقیم ناروے کے سفیر نے اپنی رہائش گاہ پر چند کشمیری صحافیوں اور سیاسی لیڈروں کو مدعو کیا تھا۔ وہاں امریکی، برطانوی اور جرمن سفارت خانوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ حریت کانفرنس کے مقتدر لیڈر سید علی گیلانی بھی ان دنوں دہلی میں تھے، وہ بھی چند رفقاء کے ہمراہ وہاں آئے۔ میٹنگ کا مقصد پہلگام میں اغوا شدہ مغربی سیاحوںکی رہائی ممکن بنانا تھا۔ گیلانی صاحب کے ایک معتمد ساتھی فردوس عاصمی نے سفارت کاروں سے سوال کیا کہ وہ یہ امکان کیوں نظر انداز کر رہے ہیںکہ اس واقعے میں بھارتی ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے؟ برطانوی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکرٹری (اسلام آباد میں موجودہ برطانوی سفیر) نے کہا، اگر کسی موقع پر بھی ان کی تفتیش میں یہ بات سامنے آ گئی تو وہ بھارت سے بخوبی نمٹ لیں گے، مگر فی الحال اغوا کے تار حرکۃ الانصار کے الفاران گروپ سے جڑے ہیں اور اس گروپ پر دبائو ڈالنے کے لیے انہیں کشمیری رہنمائوں اور سول سوسائٹی کی مدد درکار ہے۔مگر چند سال پہلے جب دو برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک کی کتاب The Meadow میں اغوا کیے گئے ان پانچ مغربی سیاحوں کے معاملے سے پردہ ہٹایا گیا تو مغربی دنیا کو سانپ سونگھ گیا۔ بھارت کے کسی ادارے کو بھی اس کتاب کے مندرجات کی تردید کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پاکستان یا اس کے میڈیا میں بھی اس کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی حالانکہ اس تفتیش سے پاکستان ان سیاحوں کے قتل سے اپنے اداروں کو بری کروا سکتا تھا۔ اغوا کیے گئے سیاحوں میں سے ناروے کے ہانس کرسٹیان اوسٹرو کی سربریدہ لاش ملی تو امریکہ اور برطانیہ کے سکیورٹی ماہرین سرینگر پہنچ گئے۔ جموں وکشمیر کے باہر رہنے والے قارئین کو یہ خبر تو ضرور ملی کہ الفاران گروپ کا صفایا کردیا گیا ہے لیکن انہیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اغوا کیے گئے تمام مغربی سیاحوں کا انجام کیا ہوا۔ کتاب کے مصنفین نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے دو سابق سربراہوں کے حوالے سے یہ ہوشربا انکشاف کیا کہ اغوا کے اس واقعے کو جان بو جھ کر پاکستان کو عالمی برادری میں بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مصنفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا کیونکہ 'را‘ کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں اور اغوا کاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔ جب ایک خاتون کوہ پیما ناروے کے سیاحوں کے اغوا کی اطلاع دینے بھارتی فوج کے راشٹریہ رائفلز کے کیمپ پہنچی تو بجائے داد رسی کے اس کی عصمت دری کی گئی۔ اغواکاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع دینے پر مامور جموں و کشمیر پولیس کے مخبر 'ایجنٹ اے‘ کو فوج نے عسکریت پسند کا لیبل لگا کر قتل کردیا تاکہ اطلاع کا یہ سرچشمہ بند ہوجائے۔
دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا کہ بھارت نے سیاحوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔ The Meadow میں دونوں صحافیوں نے تفتیشی صحافت کے نئے میعارات قائم کئے ہیں۔ اس میں نہ صرف الفاران کے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے بلکہ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز اور ان کے ایجنٹوں نے کس مخصوص حکمت عملی کے ساتھ پاکستانی انتہا پسند تنظیم حرکۃ الانصار (جس کے سیکرٹری جنرل اس وقت مولانا مسعود اظہر تھے) کے ساتھ جنگ بندی کی تاکہ دونوں مل کر علاقے سے حزب المجاہدین کا صفایا کرسکیں۔ کتاب میں جنوبی کشمیر کے میر واعظ قاضی نثار کی ہلاکت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ حرکت کا مقامی کمانڈر سکندر ان کا مداح تھا۔ بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے حزب تک یہ اطلاعات پہنچائی کہ قاضی صاحب نہ صرف جامع مسجد کے فنڈزکا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ عسکریت کے خلاف حکومت کی درپردہ مدد بھی کر رہے ہیں، تو اس اطلاع کی بنا پر تحقیق کیے بغیر حزب کے کمانڈر عمر نے 1994ء میں انہیں قتل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جنوبی کشمیر میں حزب اور حرکت کے درمیان کشت و خون کی ہولی کھیلی گئی اور کئی مجاہد اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
تقریباً500 صفحات پر مشتمل یہ کتاب کسی حیرت انگیز تھریلر سے کم نہیں۔ مصنفین نے کشمیر میں سکیورٹی ایجنسیوں کے خطرناک کھیل کے علاوہ بھارتی فوج‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس کی باہمی رقابت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بھارتی حکومت اغوا سے پیدا شدہ بحران کو ختم کرنے کے لیے اس معاملے کی تفتیش جموں و کشمیر پولیس یا اسکاٹ لینڈ یارڈ یا ایف بی آئی کو دینے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اینڈرین کے بقول بھارت نے یہ واقعہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے غنیمت سمجھا۔ چنانچہ انڈین انٹیلی جنس اورآرمی میں موجود سخت گیر عناصر بات چیت یا کارروائی کرکے یرغمالوں کو بچانے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا رائو کی ہدایت پر سازشی حربے استعمال کرنے میں مصروف ہوگئے جن کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان سرکاری طورپر دہشت گردی کی اعانت کر رہا ہے۔ 
جب الفاران نے مغربی سیاحوں کو چھوڑا تو انٹیلی جنس اور فوج کے حمایت یافتہ تائب جنگجوئوں نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔ مصنفین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حرکۃ الانصار اور تائب جنگجوئوں نیز آرمی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، لیکن جونہی مغربی سیاحوں کو آزاد نبی کی قیادت والے تائب جنگجوئوں کے حوالے کیا گیا، الفاران کے کمانڈر الترکی اور دیگر دو افراد کو ایک جال میں پھنسایا گیا اور گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد حرکۃ الانصار کے مقامی کمانڈر سکندر کو بھی مار دیا گیا۔ پولیس کے مذاکرات کار جہانگیر کا بھی یہی حشر ہوا۔ نذیر 
سمیت دیگر لوگوں کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا جو اب بھی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ ان لوگوں کو پکڑ کر اس وقت تک اذیتیں دی گئیں جب تک ان سے یہ تسلیم نہیں کروا لیا گیا کہ انہیں پورے واقعے کا مکمل علم تھا؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بے چارے کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس سبھروال اور گورنر کے دفتر نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے۔ اینڈرین لیوی کے مطابق دسمبر 1999ء میں انڈین ایئرلائنز کے طیارہ IC 814 کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا تاکہ پاکستان کو مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔ مصنف کے بقول الفاران کو چھوٹ دیتے رہنے کا مشورہ بھی اسی طرح کے ناقابل تصور معاملات میں سے ایک تھا۔ دونوں واقعات میں فرق یہ ہے کہ 1995ء میں انٹیلی جنس سروس نے جو معلومات فراہم کیں نرسمہا رائو کی کانگریسی حکومت نے اس پر من و عن عمل کیا۔ دوسری طرف 1999ء میں بی جے پی کی قیادت والی واجپائی حکومت اقتدار میں تھی جس نے انٹیلی جنس کی فراہم کردہ معلومات پر غور کیا اور پھر اسے مسترد کردیا۔ اس نے اپنی صوابدید پر فیصلے کیے جو 'را‘ اور انٹیلی جنس بیورو کی خواہشات کے برعکس تھے۔ 
لیوی اور اسکاٹ کلارک لکھتے ہیںکہ ''دنیا میں ہر جگہ ایسا ہوتا ہے کہ پولیس کو انٹیلی جنس رپورٹوں سے آگاہ کیا جاتا ہے، لیکن یہاں (کشمیر میں) ہر چیز سیاست سے آلودہ ہے، ہر چیز راز کے پردے میں پوشیدہ ہے اور ہر چیز پر کنٹرول ہے‘‘۔ مغربی سیاحوں کے اغوا کی یہ ہولناک داستان تو صرف ایک معمولی سی جھلک ہے، اس خطے میں ایسی بہت سی کہانیاںمنظر عام پر آنے کے لیے لیوی اور اسکاٹ کلارک جیسے صحافیوں کی منتظر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں