"IGC" (space) message & send to 7575

مقبوضہ کشمیر: حکومت سازی میں تاخیر کیوں؟

جموں وکشمیر میں 1989ء سے 1996ء تک تقریباً سات سال گورنر راج کا نفاذ بین الاقوامی سطح پر بھارت کے لئے سبکی کا باعث بنا ہوا تھا۔ نئی دہلی کی حکومتیں بھی سرینگر میں سویلین انتظامیہ کی بحالی کے لئے کوشاں تھیں۔ یہ وہ دن تھے جب بھارتی حکومت جموں اور کشمیر پر عملاً اپنا کنٹرول کھو چکی تھی اور سیکرٹریٹ کے باہر انتظامیہ بھی خواہی نہ خواہی آزادی پسندوں کے حکم اور مرضی کے مطابق چل رہی تھی۔ ان دنوں الیکشن لڑنا تو دورکی بات، کوئی سرکاری ملازم الیکشن ڈیوٹی کرنے کے نام سے بھی کانپتا تھا اور الیکشن کمیشن کو ریاست کے باہر سے بھاری اخراجات کے عوض انتخابی عملہ منگوانا پڑتا تھا۔ زوردار عسکری جدوجہد اور عوام کے اندر احساسِ بے گانگی کے پس منظر میں 1989ء کے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ نئی دہلی کو پتا چلے کہ کشمیری قوم سے ووٹ لے کر اسی کو بین الاقوامی سطح پر کشمیرکاز کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ دن تھے جب نئی دہلی کشمیر کے حل کے لئے کسی بھی حد تک جانے پر آمادگی کا اظہار کر رہی تھی۔ 1996ء میں نئی دہلی نے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کو انتخابات میں شرکت کرنے اور حکومت سازی پر اس وعدے پر تیارکیا کہ ایوان میں ان کی تین چوتھائی اکثریت یقینی بنائی جائے گی، نیز انہیں بھارتی وفاق کے اندر زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور 1953ء سے پہلے کی سیاسی پوزیشن کی بحالی کے سلسلے میں قانون سازی کا پورا اختیار ہوگا۔ کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا رائو افریقی ملک برکانہ فاسو میں منعقدہ غیر وابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر میڈیا کو بتا چکے تھے کہ کشمیر میں آزادی سے ذرہ کم، کسی بھی فارمولے پر بھارتی حکومت راضی ہو سکتی ہے۔ اس سے حوصلہ پاکر 1995ء میں نیشنل کانفرنس نے نرسمہا رائو کو ایک میمورنڈم پیش کر کے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا اور اس کو انتخابات میںشرکت کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ مگر ایک سال کی سفارت کاری اور لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ بیک چینل مذاکرات کے بعد انہیں شیشے میں اتارکر سرینگر کی زمام اقتدار ان کے گلے میں ڈال دی گئی۔ اس کے بعد 12سال تک ) 1996ء تا 2002 ء اور پھر 2009ء تا 2014ء) اقتدار
کے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنے انتخابی منشور کو لاگو نہیں کر پائے اور نہ ہی نئی دہلی نے ان سے وہ وعدے ایفا کئے جو سفارتی بحران سے نکالنے کے عوض ان سے کئے گئے تھے۔ 
یہی حشر اب نیشنل کانفرنس کی حریف پیپلزڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ دس ما ہ قبل حکومت سازی کے نام پر مفتی محمد سعید جیسے تجربہ کاراور بزرگ سیاستدان کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اشتراکِ اقتدار کے لئے اپنے شیشے میں اْتارا۔ اتحاد کے لئے پی ڈی پی اور بی جے پی نے دو ماہ تک طویل مذاکرات کے بعد ایک ایجنڈا تشکیل دیا جس میں پاکستان کے ساتھ تعلقات، آ زادی پسندوں کے ساتھ مذاکرات، فوج کو خصوصی اختیارات والے قانون (آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ یعنی افسپا) کا مکمل خاتمہ، دیگر کالے قوانین پر عمل میں احتیاط، کشمیر کے دریائوں پر بنے پاور پروجیکٹس کی واپسی، مغربی پاکستان کے ہندو رفیوجیوں کا معاملہ جوںکا توں رکھنا، سیاسی عمل اور عوام میں اعتماد کی بحالی، بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہ کر نے اور دیگر کچھ نکات کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ یہ ایجنڈہ تشکیل پاتے ہی اس پر عمل کرتے ہوئے مفتی حکومت نے حریت لیڈر مسرت عالم کو رہا کردیا تو جیسے پورے بھارت میں آگ لگ گئی۔ حالانکہ مسرت عالم پر عائد 'پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کی مدت ختم ہو رہی تھی اور ان کے خلاف عدالت میں کوئی کیس بھی نہ تھا۔ ہنگامہ اس حد تک بڑھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو پارلیمنٹ میں صفائی دینا پڑی۔ سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کو بھی کہنا پڑا کہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کے فیصلے پر بھروسا کیا جانا چاہئے ورنہ حکومت کو تحلیل کر کے دہلی براہ راست حکومت چلائے۔ 
بھارت کی سبھی سیاسی جماعتیں اور میڈیا ریاست میں انتخابات کے موقع پر عوام کی شرکت پر دنیا کو باورکراتے ہیں کہ کشمیری عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں حتیٰ کہ ان کی شرکت کو وہ آزادی پسندوںکی شکست سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی، جو بھی کامیاب ہو، اس کی بھر پور واہ واہ ہوتی ہے، مگر جونہی یہ جماعتیں اقتدار میں آکر اپنے انتخابی منشور کو لاگو کرنے کا ارادہ کرتی ہیں تو پورے بھارت میں سیاسی جماعتیں اور میڈیا قیامت برپا کر دیتے ۔ اس لیے یا توکشمیر کے انتخابات میں شامل جماعتوں پابندی عائد ہونی چاہئے کہ وہ اپنے منشور میںکوئی سیاسی وعدہ نہ کریں یا پھر انہیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی آزادی ہونی چاہئے۔ اس کے بغیر جمہوری عمل ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔
پی ڈی پی کا خیال تھا کہ ایک طاقتور حکمران کے طور پر مودی میں من موہن سنگھ کے مقابلے میں سخت فیصلے کرنے کی اہلیت ہوگی۔ 2014ء میں سرینگر اور اس کے اطراف میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی آبادکاری کے لئے رقوم کی فراہمی، پاکستان کے ساتھ روابط کی بحالی اور کشمیر کے سیاسی حل کی گنجائش مفتی سعید کی اولین ترجیہات تھیں جن پر مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر عمل کیا جا سکتا تھا۔ مگر ان دس مہینوں میں ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم آرایس ایس نے جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ پیر پنچال اور چناب ویلی کے دیہی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے نام پر ہندو اقلیت کو پہلے ہی مسلح کر دیا گیا تھا۔ انہیں عرف عام میں ویلج ڈیفنس کمیٹی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اب عسکریت کا ان علاقوں میں 
نام و نشان ہی نہیں لیکن ان مسلح افراد نے اقتدارکی شہ پاکر قہر برپا کر رکھا ہے۔ لگتا ہے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیہی علاقوں کے مسلمانوںکو تختہ مشق بنا کر شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ بعد میں انہیں مزید مجبور کرکے وادی کشمیر کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا جائے۔ 
پورے جموں خطے میں 31 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اس کے 10اضلاع میں مجموعی طور 4 ہزار 111وی ڈی سی ممبران کام کر رہے ہیں جن میں سے بیشتر چناب ویلی اور پیر پنچال میں ہیں۔ ان کے خلاف اب تک 197مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے بھارتی سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن پر رٹ پیٹیشزبھی دائر کی ہوئی ہیں۔ اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ اس ایشو پر کئی بار فیصلہ سنا چکی ہے مگر بار بارکی عدالتی کارروائیوں نے سرینگر انتظامیہ کو الجھا کر رکھنے اور گورننس سے دھیان ہٹانے میں بھر پورکردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں ریاستی جھنڈے کو کالعدم کروانے کی عرض داشت ہائی کورٹ کی جموں بنچ میں بی جے پی کے قومی سیکرٹری نے پیش کی۔ نائب وزیر اعلیٰ سمیت بی جے پی کے وزرا نے بھارت کے قومی جھنڈے کے ساتھ ریاستی فلیگ لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے انہوں نے ریاستی آئین پر حلف اٹھایا مگر اسی آئین کو روندنے میںکوئی کسر نہ چھوڑی۔
مفتی محمد سعید مرحوم نے اگرچہ ابتدائی ایام میں آزادی پسندوںکے لئے نرم پالیسی اختیار کرتے ہوئے محبوس قائدین کو رہا کرنا شروع کیا تھا لیکن بی جے پی، اس کی حلیف جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے دبائو کے نتیجے میں اْنہیں پسپائی اختیارکرنا پڑی۔ ریاست میں اقتصادی محاذ پر یہی معاشی وسائل کا معاملہ ہے۔ جموں وکشمیر چونکہ آبی وسائل سے مالا مال ہے اور اگر ان وسائل کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہاں نہ صرف اقتصادی بدحالی کا یقینی خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ امکانات کی ایک نئی دنیا روشن ہوسکتی ہے مگر ان وسائل پر نئی دہلی کی ملکیت والی این ایچ پی سی کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے کئی بھارت نواز سیاستدان تک اسے'' ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ مفتی سعید اورانہیں ووٹ دینے والوں کا شاید خیال تھا کہ وہ اپنے پچھلے تین سالہ دور اقتدار( 2002ء تا 2005ء) کے فیصلوں کو ازسر نو لاگو کر سکتے ہیں، مگر وہ شاید یہ بھول گئے کہ اس وقت نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان سیاسی عمل انتہائی تیز رفتاری سے جاری تھا۔ بھارت میں پہلے اٹل بہاری واجپائی اور پھر من موہن سنگھ، پاکستان میں پرویز مشرف، سرینگر کی چنار کور میں جنرل وی جے پٹانکر کی موجودگی نے مفتی سعید کو اپنے سیاسی خاکوں میں رنگ بھرنے دیئے جس کا ان کی گورننس پر مثبت اثر پڑا۔ مگر اس بار وہ بر ی طرح ناکام رہے۔ 7 جنوری کو ان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے کہا کہ وہ وزارتِ اعلیٰ کی کرسی اسی صورت میں سنبھالنے کے لئے تیا ر ہیں کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت ایجنڈا آف الائنس کو لاگوکرنے کے لئے کسی مدت کا تعین کرے اور کشمیر کو حاصل آئینی حقوق میں چھیڑ خانی اور انہیں بحث و مباحثہ کا حصہ بنانے سے گریز کرے نیز آر ایس ایس سمیت اس طرح کی دوسری تنظیموں کو نکیل دے۔ ان کا خیال ہے کہ بی جے پی کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم رکھنے سے پارٹی کی ساکھ کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچ چکاہے۔ ادھر بی جے پی کاکہنا ہے کہ وہ کوئی نئی یقین دہانی نہیں کراسکتی جس کا خمیازہ اسے بھارت میں آنے والے ریاستی انتخابات میں اٹھانا پڑے۔
اگرچہ لاہور جاکر مودی نے کشمیر میں امید کی کرن جگا دی تھی مگر یہ جلد معدوم بھی ہوگئی۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب بھی نئی دہلی نے کشمیر کو کوئی سیاسی یا اقتصادی پیکیج دیا تو یہ اپنے نظریے، عقیدے یا خلوص کی وجہ سے نہیں بلکہ کبھی اس پر عسکری دبائو تھا اورکبھی عوامی مزاحمت سے تو جہ ہٹانے کی خاطر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئی۔ جونہی عسکریت نے دم توڑا یا انہیں لگا کہ عوام اب خواب غفلت میں مست ہیں تو پیکج یا سیاسی عمل تو دورکی بات وہ کشمیر کی ہر چیز بشمول زبان، کلچر اور تہذیب کو چھیننے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ فی الحال جموں کے مسلم علاقوں میں آر ایس ایس کے منصوبے خاصے تشویشناک ہیں جن پر قد غن لگانا بہت ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں