فروری 2002ء میں بھارت کے مغربی صوبہ گجرات میں حکومت کی ایما پر احمدآباد یونیورسٹی گرائونڈ میںکشمیری دستکاری، میوزک اور سیاحت کے میلہ کا انعقاد کیا گیا۔دہلی سے صحافیوں کی جو ٹیم اسے کور کرنے کیلئے مدعو کی گئی تھی، میں بھی اس میں شامل تھا۔ سابرمتی ندی کے دونوں کناروں پر آباد ، سلطان احمد شاہ کے بسائے اس شہر کی چند عہد رفتہ کی یادگاریں دیکھنے کے بعد، شاہی باغ علاقہ سے گزرتے ہوئے، ہمارے گائڈنے ، جو گجرات حکومت کے ایک افسر تھے، خاص طور پر میری توجہ ایک درگاہ کی طرف مبذول کرتے ہوئے کہا، کہ یہ مشہور صوفی شاعر ولی محمد ولی عرف ولی گجراتی (دکنی)کی آرام گاہ ہے۔ اس گروپ میں شاید میں اکیلا مسلمان اور اردو سے شد بد رکھنے والافرد تھا۔میں نے یہاں کچھ دیر رک کر درگاہ سے متصل ایک مسجد میں نماز ادا کی، اور اردو شاعری کے بانی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی۔اگلے دن سویرے ہماری دہلی روانگی تھی۔ میلہ کے کئی اور پروگراموں کی کوریج کیلئے گجرات حکومت کے افسروں نے ہمیں کچھ دن اور رکنے کی درخواست کی، مگر چونکہ اگلے دن دہلی میں پارلیمان میں بجٹ پیش کیا جانا تھا، اور افغانستان کے صدرحامد کرزئی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار بھارت کے دورہ پر آنے والے تھے؛چنانچہ ہم نے معذرت کرتے ہوئے رخصت لی۔اگلے ہی دن خبر آئی، کہ احمد آباد سمیت پور ے گجرات میں تاریخ کے بھیانک مسلم کش فسادات بھڑک اٹھے ہیں۔ کشمیری دستکاروں اور میلہ میں شامل قالین اور شال بیچنے والے تاجروں کی ساری املاک لوٹ لی گئیں ۔ وہ کیسے اپنی جانیں بچا کر بھاگ گئے ، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ چند روز بعد خبر آئی، کہ ولی گجراتی (دکنی)کی درگاہ، جہاں میں نے حاضری دی تھی، زمیں بوس کردی گئی ہے۔صرف 24گھنٹوں میں پولیس ہیڈکوارٹر کے بالکل سامنے اس درگاہ کی جگہ پر پکی سڑک بنائی گئی۔ بعد میں نیوز چینلوں نے یہ خبر بھی دی، اس درگاہ اور اس سے متصل مسجد کو گرانے اور وہاں راتوں رات سڑک بنانے کیلئے بھار ی بھرکم مشینوں کا استعمال کیاگیا، جو صرف بے قابو بھیڑ اور فسادیوں کا کارنامہ نہیں ہوسکتا تھا۔بلکہ اس میں انتظامیہ کا ملوث ہونا لازمی تھا، جس کی کمان صوبہ کے اس وقت کے و زیر اعلیٰ اور بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے سپرد تھی۔ پورے صوبہ میں ان فسادات میں 230درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
قصہ مختصر ،دہلی کے عالیشان وگیان بھون میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی صوفی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے، جب وزیر اعظم نریندر مودی ، فلسفہ حیات سمجھا رہے تھے‘ صوفیوں اور مشائخ کی تعلیمات کا ورد کررہے تھے، تو مجھے یقین تھا، کہ وہ ولی گجراتی (دکنی)کی درگاہ اور مسجد کی تعمیر نو کا بھی اعلان کریں گے۔میں تو اس انتظار میں بھی تھا، کہ وہ شاید حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر اور اپنے دست راست امیت شاہ کی بھی سرزنش کریں گے، جنہوں نے حال ہی میں اترپردیش کے شہر بہرائچ میں عظیم صوفی سید سالار مسعود غازی کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کیا۔ بہر حال مودی کی تقریرکا مسودہ خاصی عرق ریزی کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے جو کچھ پڑھا، وہ اگر واقعی دل سے کہا، توتقریر لائق تعریف ہے۔انہوں نے اسلامی تہذیب کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس نے سائنس، طب، ادب ، آرٹ، فن تعمیر اور تجارت میں بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ انہوں نے صوفیانہ تاریخ کا حوالہ بھی دیا اور اس کے ذریعے انسانیت اور روحانیت کا پیغام عام کرنے کی بات کی۔ اگر یہی باتیں وہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈروں خاص طور پر اپنے دست راست امیت شاہ تک بھی پہنچاتے، تو اقلیتوں کے اند ر عدم تحفظ کا احساس کسی حد تک کم ہوجاتا۔امن اور ہم آہنگی کے پیغام کے لئے اسلام کی تعریف
کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اللہ کے 99 ناموں میں سے کسی کا مطلب تشدد سے نہیں ہے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کسی مذہب کے خلاف ٹکرائو نہیںہے۔ دہشت گردی اور مذہب کو الگ کیا جانا چاہئے۔ ''تصوف کے پیغام کو آگے بڑھانے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی مذہب کے خلاف محاذ آرائی نہیں ہے۔ یہ انسانیت اور غیر انسانیت کے درمیان سنگھرش ہے۔ اسے صرف فوجی، انٹیلی جنس یا سفارتی طریقوں سے نہیں لڑا جا سکتا۔ ‘‘ وزیر اعظم نے کہا، '' یہ ایسی جنگ ہے جسے ہمیں اقدار کی طاقت اور مذہب کے حقیقی پیغام کے ذریعے جیتنا ہوگا‘‘جس وقت مودی حمیت اور برداشت کا لیکچر دے رہے تھے‘ اسی وقت مشرقی ریاست جھاڑ کھنڈ میں مویشیوں کا کارو بار کرنے والے محمدمظلوم اور آزاد خان کو ایک بے قابو بھیڑ نے درخت پر لٹکا کر بے دردی کے ساتھ پھانسی دے دی۔ اس سے چند روز قبل ہی راجستھان کی میوارڈ یونیورسٹی میں کشمیری طالب علموں کو صرف اس بنا پر حوالات کی زینت بنایا گیا، کہ انہوں نے اپنے کمرے میں گوشت پکایا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے، کہ اُنہیں شکایت موصول ہوئی تھی، کہ انہوں نے بڑے جانور کا گوشت پکایا تھا، بعد میں معلوم ہوا، کہ یہ بکرے کا گوشت تھا۔
اس سے پہلے آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے منعقد اس پروگرام میں مودی کا خیر مقدم ''بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے کے ساتھ کیا گیا۔ مودی نے اس صوفی کانفرنس میں یہ پیغام ایسے وقت میں دیا ہے جب فرقہ واریت کے مسئلے پر ان کی حکومت اپوزیشن کے نشانے پر ہے اور قوم پرستی کو لے کر بحث چل رہی ہے۔ اس چار روزہ کانفرنس میں مصر، اردن، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈاکے علاوہ پاکستان کے رہنما، دانشور بشمول ڈاکٹر طاہر القادری بھی شریک تھے۔ مگر چار دن تک چلنے والی اس کانفرنس کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں تھی، ان کا ریکارڈ صوفیانہ سے زیادہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور انتشار پھیلانے کا رہا ہے۔ مہمانوں کو پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ٹھہرا کر، کس نے بل اٹھایا، یہ بھی ایک معمہ ہے۔ شاید مودی کو یہ باور کرایا گیا تھا، کہ صوفی ازم کا دامن تھا م کر عام مسلمان ان کے گن گائے گا۔ ایک صاحب کو تو کانفرنس میں یہ بھی کہتے سنا ، کہ اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے۔یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کیلئے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی، عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی ٹریننگ دے رہے ہیں۔اور اب یہ نعرے بلند کئے جارہے ہیں، کہ مسلمانوں میں شدت پسندی آ رہی ہے‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہے۔اور اس کے لئے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ شاید یہ اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ، مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔ بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، مودی نے بھی ان دو حضرات کا نام اپنی تقریر میں لیا، کیونکہ ان دونوں راہنمائوں نے مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کے خلاف کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں سرسید احمد خان کو بھارت میں مسلمانوں کیلئے ایک قائد کا رتبہ حاصل رہا ہے۔کیا یہ تینوں شخصیات خانقاہی اور ، کانفرنس کے منتظمین کے صوفی نظریہ سے مطابقت رکھتی ہیں۔
دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، نہ ہی کوئی فرقہ یامسلک اس کی اجازت دے سکتا ہے۔ مظلوم خطوں کے عوام جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، سامراجی ملک اسے ناکام بنانے کیلئے صوفی اسلام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور ایک حربے کے طورپر اسے پروموٹ کیا جارہا ہے۔ سیدھے سادے مسلمانوں کو صوفیت کے نام پر محض ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکہ کے سٹار کالج میں ورلڈ لینگویج کے پروفیسرڈاکٹر غلام زرقانی کے مطابق مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ غیروں کے کہنے پر فروغ تصوف کیلئے جدوجہد ہورہی ہے، جس سے ہوسکتا ہے، کہ ہمیں بھی فائدہ پہنچے، مگر سوچنے کی بات ہے آخر تصوف سے ان کی مراد کیا ہے۔ ان کے یہاں تصوف کا نظریہ یہ ہے، کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بنا ڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ کردار سے ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا، چاہے، کشمیر میں میر سید علی ہمدانی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں ،خاصہ رہا ہے۔