بھارت میں پانچ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ جنوبی بھارت کے دو صوبوں کیرالا، تامل ناڈو اور مرکز کے زیرانتظام پانڈی چری کے علاوہ مغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاست آسام میں یہ انتخابی عمل 4 اپریل سے مرحلہ وار شروع ہوکر 19مئی کو اختتام پذیر ہوگا۔ چونکہ ان ریاستوں میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت سیاسی اعتبار سے زیادہ موثر نہیں، اس لئے گزشتہ برس بہارکے انتخابات کے برعکس ان کے نتائج وزیر اعظم نریندر مودی کے وقار پر اثر انداز نہیں ہوںگے۔ تاہم اب بی جے پی نے آسام میں اپنی تمامتر توانائیاں جھونک دی ہیں اور دیگر صوبوں میں بھی سیاسی انٹری کے لئے بھر پور زور لگا رہی ہے۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ تین صوبوں آسام، کیرالا اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ آسام میں مسلمان آبادی 34.20 فیصد، کیرالا میں 26.56 فیصد (یہاں عیسائی بھی 18.38فیصد ہے) اور مغربی بنگال میں 27.01 فیصد ہے۔ تامل ناڈو میں مسلمان آبادی صرف 5.86 فیصد ہے۔
ساحلی ریاست کیرالا میں اگرچہ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کا نیٹ ورک سب سے مضبوط ہے، مگر اقلیتوںکی خاصی بڑی تعداد اور سیاست میں ان کے موثر رول کی وجہ سے یہاں یہ تنظیم کبھی سیاسی لحاظ سے بی جے پی کے لئے معاون ثابت نہیں ہو سکی۔ شمالی بھارت کے مقابلے میں یہاں مسلمان سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی اس قوت کا سرچشمہ انڈین یونین مسلم لیگ رہی ہے جو اگرچہ حالیہ دنوں میں اپنی مقبولیت بڑی حد تک کھوچکی ہے مگر چونکہ یہاں مقابلہ کانگریس کی قیادت والے جمہوری اتحاد اور بائیں بازو والے اتحاد کے درمیان ہے، اس لئے مسلمانوں کے پاس متبادل بھی موجود ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ کا احیاء یہیں سے ہوا تھا جس کے روح و رواں مولوی محمد اسماعیل اور ابراہیم سلیمان سیٹھ تھے۔ مسلم لیگ کی کیرالا شاخ کو مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے جسے علاقائی سطح پر الیکشن کمیشن نے ایک مسلمہ سیاسی جماعت کا درجہ دیا ہے۔ اس کے ایک رہنما سی ایچ محمد ریاست کے مختصر عرصے کے لیے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ 141 رکنی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے عموماً 16تا 22 ارکان منتخب ہوتے رہے ہیں۔ چونکہ مسلم لیگ کانگریس کی اتحادی ہے، اس لئے مسلمانوں کی کانگریس سے ناراضگی کا خمیازہ اسے انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ریاست کے مسلمانوں میں اب کئی دوسری تنظیموں نے بھی اپنی جگہ بنالی ہے۔ ان میں جماعت اسلامی ہندکے حمایت یافتہ سالیڈیریٹی یوتھ فرنٹ نے گزشتہ انتخابات میں بائیں بازو کے محاذ کی حمایت کی تھی، غالباً یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پہلا موقع تھا جب جماعت نے کمیونسٹوں کی حمایت کی۔
اسی طرح ہمسایہ ریاست تامل ناڈو میں اصل مقابلہ برسراقتدار پارٹی اور ڈی ایم کے کے درمیان ہے۔ کانگریس نے یہاں ڈی ایم کے کا ہاتھ پکڑا ہے جبکہ بی جے پی نے حکمران پارٹی کی سربراہ اور وزیر اعلیٰ جے جیا للیتا کو منانے کی بہت کوشش کی مگر بار آور نہیں ہوئی۔ پھر بی جے پی نے سابق مشہور فلم اسٹار رجنی کانت کی سربراہی میں چھوٹی پارٹیوں کو اکٹھا کرکے تیسرا فرنٹ بنانے کی بھی کوشش کی۔ فرنٹ تو بن گیا مگر رجنی کانت نے عین وقت پر بی جے پی کو اس سے باہر رکھا۔ مغربی بنگال میں بھی اصل مقابلہ حکمران ترنمول کانگریس، جس کی سربراہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ہیں اور لیفٹ فرنٹ کے درمیان ہے۔ یہاں کانگریس بھی خم ٹھونک کر میدان میں ہے۔ لیفٹ فرنٹ اور ترنمول دونوں اس کو اپنے حق میں ہموارکرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی یہاں اپنا سیاسی قد منوانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے اور بائیں بازو سے ناراض ووٹروں کو رجھانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس صوبے میں فی الحال مسلم ووٹروں نے ممتا بنرجی کا ہی دامن تھاما ہوا ہے۔
ان انتخابات میں کانٹے کی جنگ شمال مشرقی ریاست آسا م میں ہے جہاں بی جے پی اقتدار میں آنے یا معلق اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کے روپ میں ابھرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی خود یہاںکے انتخابات کی نگرانی کر رہے
ہیں۔ بی جے پی کشمیر کی طرز پر آسام میں ہندو ووٹروں کو یکجا کرکے قبائلیوں اور دیگر گروپوں کو بنگالی مسلمانوںکے خلاف اکسا کر اور مسلمان علاقوں میں کئی درجن امیدواروںکو میدان میں اتارکر ان کے ووٹوںکو بے وقعت بنانے کا ماحول پیدا کر رہی ہے۔ یہ انتخابات حکمران کانگریس سے زیادہ مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش ہیں کیونکہ ایک طرف کانگریس اوردوسری جانب مولانا بدرالدین اجمل کی آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ ( اے آئی یو ڈی ایف) ہے۔ دونوں کے درمیان ووٹوںکی تقسیم کا فائدہ فرقہ پرست تنظیموںکو مل سکتا ہے۔
جیسا کہ مئی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں دیکھنے میں آیا، بی جے پی کو خلاف توقع ریاست کے 14میں سے سات پارلیمانی حلقوں میں کامیابی ملی لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آسام میں کیرالا کی طرز پر مسلمان ایک بڑی سیاسی قوت بن سکتے ہیں۔ آسام بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے۔ اگرچہ ان کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں مگر نام نہاد بنگلہ دیشی مہاجرین کے نام پر بنگالی آبادی کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد انہیں عدم تحفظ کا احساس دلا کر مسلمانوں کے خلاف متحد کرنا ہے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں آل آسام اسٹوڈنس یونین نے صدیوں سے
آباد بنگالی آبادی کے خلاف پر تشدد اور خونیں مہم چلائی تھی اور فروری 1983ء میں ضلع نوگائوںکے قصبہ نیلی میں تین سے پانچ ہزار لوگوںکو بیدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ اب تک ''بنگلہ دیشی دراندازوں‘‘ کا نام نہاد مسئلہ فرقہ پرست جماعتوں کے لئے ایک سیاسی حربہ بنا ہوا ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے بنگلہ دیشی کارڈ کھیلتے ہوئے وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی کی حکومت پر الزام عائدکیا تھا کہ وہ اے آئی ڈی یو ایف کے ساتھ سازش کرکے ایک ''خفیہ منصوبہ‘‘ بنا رہی ہے تاکہ آسام کو بنگلہ دیش کا ایک صوبہ بنایا جائے۔ جب مرکزکی حکمران جماعت کا سربراہ اس طرح کی بات کرسکتا ہے تو باقی لیڈروں کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ سال جب بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے یہ مسئلہ اپنی بنگلہ دیشی ہم منصب کے ساتھ کیوں نہیں اٹھایا؟ وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی دورہ ڈھاکہ میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ ظاہر ہے کہ یہ بے اصل مسئلہ صر ف اور صرف انتخابی مفاد کے لئے اٹھایا جا رہا ہے۔ دراصل اس کے پشت پر یہ نفسیات کار فرما نظر آتی ہے کہ آسام کے مسلمانوں کے سر پر شہریت کی تلوارلٹکی رہے۔ تقریباً پانچ لاکھ بنگالیوںکو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا ہے۔ تازہ مثال جولائی 2012ء میں بوڈو کونسل کے زیر انتظام اضلاع کوکرا جھار اور گوپال پاڑا میں بوڈو انتہاپسندوں کے پر تشدد حملے ہیں جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افرادکو عارضی کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔
مرکز میں جب بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت تھی تو اس نے2003ء میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی تھی۔ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض 28 فیصد ہے۔ ریاست کے حالات اورکانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہوکر اکتوبر 2005ء میں 13 تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ تشکیل دیا جس میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم رول رہا لیکن انہوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی۔ قرعہ فال عطرکے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں یہ فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمائندگی ایک سے بڑھ کر تین ہوگئی، لیکن انہوں نے بہت جلد اسے اپنی خاندانی جماعت بنا نا شروع کردیا۔ بدرالدرین کے علاوہ ان کا چھوٹا بھائی سراج اجمل بھی رکن پارلیمان ہے اور ان کا ایک بیٹا صوبائی اسمبلی کا رکن ہے۔ یوڈی ایف پر بڑھتے ہوئے خاندانی تسلط اور مولانا اجمل کی غلط پالیسوں اور آمرانہ رویہ کے خلاف اس وقت بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی جب اسمبلی کے دو ارکان شریمن علی اور عطا الرحمن مزاربھوئیاں نے اس غیر جمہوری طریقہ کار کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر مولانا اجمل نے انہیں پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا۔ آسامی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی فکر مند ہے کہ سیکولر ووٹوںکی تقسیم سے بی جے پی کی راہ ہموار نہ ہو جائے مگر مسلمان کانگریس سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ مولانا بدرالدین نے بہار کی طر ز پر سیکولر جماعتوںکا ایک عظیم تر اتحاد تشکیل دیا ہے جس میں راشٹریہ جنتادل اور جنتا دل ( یو) شامل ہیں، لیکن ان دونوںجماعتوںکا وہاںکوئی خاص اثر نہیں ہے۔ ریاست میںگزشتہ پندرہ سال سے برسر اقتدار79 سالہ کانگرسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ادھر بی جے پی نے بوڈو پیپلز فرنٹ اور سابق حکمران جماعت اے جی پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کر رکھا ہے۔ اگرچہ انتخابات میںکسی ایک جماعت یا اتحادکو واضح اکثریت ملنے کا امکان کم ہے لیکن جو جماعت یا اتحاد قبائلی آبادی کوقائل کرنے میں کامیاب ہوگا اس کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔ ویسے یہ ستم ظریفی ہے کہ اس صوبہ میں ہر انتخاب کے مو قع پراصل مسائل کی بجائے ہندو مسلم مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔