پچھلے ہفتے میں نے کالم میں ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کیا تھا۔ مقصود یہ بتانا تھا کہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں اس لئے اس کی قیادت کو اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لاتے ہوئے بھارتی قیادت کو کشمیر کے سلسلے میں کئے گئے اپنے 1994ء کے وعدے کی یاددہانی کرانی چاہئے کیونکہ اگر یہ وعدہ ایفا ہو جاتا ہے تو نہ صرف پاکستان مستحکم ہو گا‘ بلکہ اس سے خطے میں امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ممکن ہو گا‘ جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور ایران سٹیک ہولڈر ہوں گے۔ یا تو میں اپنے خیالات صحیح طریقے سے پہنچا نہیں پایا‘ یا ہم ایران اور سعودی عرب کی اندھی حمایت میں سیاہ و سفید کا فرق پہچاننے سے گریز کرتے ہیں۔ کسی نے مجھے دلال کہا، کسی نے سعودی عرب سے موٹی رقم لینے کا الزام لگایا‘ تو کسی نے وارننگ دی کہ ایران کے خلاف پروپیگنڈا بند کر دوں۔ کئی حضرات نے تو مبارکباد دی کہ میں نے ایران کا پول کھول دیا ہے۔ ان لوگوں کو یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ میں پاکستانی نہیں ہوں ورنہ انہوں نے میری دستار بندی کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔
2012ء میں جب دہلی میں ایک اسرائیلی سفارتکار پر حملہ ہوا اور پورا بھارتی میڈیا ہاتھ دھو کر ایران کے پیچھے پڑ گیا‘ تو میں نے بھارت کے ایک سابق سفارتکار ایم کے بھدر کمار، جو تہران میں سفیر رہ چکے ہیں تھے، کے انٹرویو پر مبنی اسی طرح کی رپورٹ لکھی تو بھارت میں ایرانی سفیر نے اس کی نہ صرف ستائش کی بلکہ سفارتخانے کے پریس آفیسر نے باضابطہ ای میل بھیج کر رپورٹ کی غیر جانبداری اور بھارتی حکومت کو ایرانی احسانات یاد دلانے کی میری کوششو ں کی تعریف کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ جو رپورٹ 2012ء میں غیر جانبدار اور معروضی تھی، اب 2016ء میں کس طرح معیوب ٹھہری؟ ایک صاحب نے چیلنج کیا کہ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب اور وہاں ان کو ملنے والے اعزازکے بارے میں بھی لکھوں۔ میں ضرور اس موضوع پر قلم اٹھائوں گا‘ مگر چونکہ میری ذمہ داری روزنامہ دنیا کے قارئین تک بھارت کے حالات و واقعات پہنچانا اور ان کا تجزیہ کرنا ہے، اس لئے اس ہفتے مَیں بھارت میں جاری پانچ صوبائی انتخابات کو کالم کا موضوع بنانا چاہتا ہوں، جہاں شمال مشرقی صوبہ آسام کے انتخابات 35 فیصد سے زائد مسلمانوں کے لئے سخت امتحان ثابت ہو رہے ہیں۔
یہ صوبہ چائے کے وسیع و عریض باغوں، اعلیٰ درجے کے ریشم کے علاوہ 1983ء میں بدترین نسل کشی کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ نیلی کے مقام پر 18 فروری 1983ء کو ایک اندازے کے مطابق دس ہزار بنگالی مسلمانوں کو راتوں رات تہ تیغ کیا گیا۔ سرکاری فائلوں میں یہ تعداد 3000 کے لگ بھگ بتائی گئی۔ پولیس نے بعد میں کئی سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی مگر 1985ء میں آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور غیر آسامی باشندوں کے خلاف برسر پیکار آل آسام سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کی ایک شرط کے تحت کیسز واپس لئے گئے‘ اور آج تک اس نسل کشی کے لئے کسی کو سزا ملی نہ ہی کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس واقعے کو ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام سٹوڈنس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔
مسلمانوں کے لئے آزمائش اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف سیکولر کانگریس ہے تو دوسری طرف مولانا بدرالدین اجمل کی آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ ( اے آئی یو ڈی ایف)۔ تجزیہ کاروں کے بقول ان دونوں جماعتوں کے درمیان ووٹوںکی تقسیم کا براہ راست فائدہ فرقہ پرست تنظیموں کو مل سکتا ہے جیسے مئی 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں دیکھنے میں آیا تھا اور جس کے نتیجے میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو خلاف توقع ریاست کے 14 میں سے سات پارلیمانی حلقوں میں کامیابی ملی تھی، جو اب اس حساس صوبہ میں قدم جمانے کے لئے تمام تر حربے استعمال کر رہی ہے، جس کے لئے وہ اچھی طرح جانی بھی جاتی ہے۔ تشویش کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں برطانیہ سے مستعار لیا ہوا جو انتخابی نظام رائج ہے اسے First Past the Post کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی جماعت یا امیدوار محض ایک تہائی سے بھی کم ووٹ لے کر کامیاب ہو سکتا ہے، جیسے بی جے پی کو گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں فقط 31 فیصد ووٹ ملے تھے لیکن وہ آسانی سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ یہی خطرہ آسام میں بھی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو آسام میں مسلمانوں کا یہ موقف ہے کہ وہ ایک بڑی سیاسی قوت بن سکتے ہیں، جس طرح جنوبی بھارت کی ساحلی ریاست کیرالا میں مسلمان ایک مستحکم سیاسی قوت رکھتے ہیں۔ آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر اس کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی زمین اپنے حق میں ہموارکر رہی ہے؛ چنانچہ صوبے میں نام نہاد بنگلہ دیشی ہونے کی آڑ میں بنگالی آبادی کو ہراساں کرنا انہیں سیاسی اقتدار سے دور رکھنے کی سازش ہے۔ اس فتنے کا آغاز پہلی مرتبہ 1978ء میں ہوا جب اسمبلی کے چھٹے انتخابات میں 16، 17 مسلمان منتخب ہو گئے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ آسام کو ''اسلامی ریاست‘‘ میں تبدیل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح 1979ء میں فرقہ پرست تنظیموں اور حکومتوںکی در پردہ حمایت سے طلبا کی تحریک کھڑی کی گئی‘ جس میں آل آسام سٹوڈنٹس یونین نے صدیوں سے آباد بنگالی آبادی کے خلاف پُرتشدد اور خونیں مہم چلائی۔
اس کے بعد اب تک ''بنگلہ دیشی دراندازوں‘‘ کا نام نہاد مسئلہ فرقہ پرست جماعتوں کے لئے ایک مُجرّب سیاسی نسخہ بنا ہوا ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے اپنی خُو کے عین مطابق بنگلہ دیشی کارڈ کھیلتے ہوئے کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اے آئی ڈی یو ایف کے ساتھ سازش کرکے ایک ''خفیہ منصوبہ‘‘ بنا رہی ہے تاکہ آسام کو بنگلہ دیش کا ایک صوبہ بنایا جائے۔ دراصل اس کی پشت پر یہ نفسیات کارفرما نظر آتی ہے کہ آسام کے مسلمان سر اٹھا کر جی نہ سکیں۔ ان کے سر پر شہریت کی تلوار لٹکا دی گئی اور تقریباً پانچ لاکھ بنگالیوں کو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا ہے۔جولائی 2012ء میں بوڈو قبائلی کونسل کے زیر انتظام کوکرا جھار اور گوپال پاڑا اضلاع میں بوڈو انتہا پسندوں نے پُرتشدد حملے کئے جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افراد کو عارضی کیمپوں میں جان بچا کر پناہ لینا پڑی تھی۔ مرکز میں جب بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت تھی تو اس نے 2003ء میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض 28 فیصد ہے۔ بوڈو کونسل کے جواز کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں دائر دس پیٹشنز دائر کی گئی ہیں۔
اسی پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے 80ء کی دہائی میں یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘ حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم) اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر 2005ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا: چنانچہ صوبے کی 13 ملی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم رول رہا، لیکن انہوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے: چنانچہ قرعہ فال عُود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا‘ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمائندگی ایک سے بڑھ کر تین ہو گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیت العلماء ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہر چپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔ مولانا اجمل کا تعلق محمود مدنی دھڑے سے ہے۔ معلق اسمبلی کی صورت میں مولانا اجمل سیاست کے افق پر کنگ میکر بن سکتے ہیں۔ اگر آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی قیاس آرائیوں پر پوری اتر کر بھاری کامیابی حاصل کرتی ہے تو یہ مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے والی سیکولر پارٹیوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہو گا ۔ ضلع کریم گنج کے بدر پور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فضل الرحمن لشکرکی رائے یہ ہے کہ یہ انتخابات مسلمانوںکے سیاسی تدبر کا امتحان ہیں، مگر کیا وہ واقعتاً تدبرکا ثبوت دیں گے یا جموں و کشمیر میں جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کی راہ پر چلیں گے جہاں مسلمانوںکے ووٹ تین سیکولر پارٹیوں اور لاتعداد آزاد مسلمان امیدواروں میں بٹ گئے، جس کے نتیجے میں خطے میں بی جے پی نے ہندو ووٹوں کے سہارے سیٹوں کا صفایا کر دیا۔