"IGC" (space) message & send to 7575

بھارتی مسلمان اور کشمیر

پچھلے دنوں خبر آئی کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کے دیوان زین العابدین اور خادم پیر نسیم میاں اپنے مریدوں اور حامیوں کی فوج سرینگر لے جا کر ایک ہزار بھارتی پرچم لہرائیںگے۔ چونکہ اس ماہ کے آغاز میں سرینگر کے انجینئرنگ کالج میں کشمیری اور بھارت کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے درمیان پرچم کے معاملے پر ہی کشیدگی پھیل گئی تھی، اس لئے پیر صاحبان کا اصرار ہے کہ وہ کشمیریوں کو بھارتی نیشنلزم کا پاٹھ پڑھوا کر ہی لوٹیں گے۔ 
دوسری طرف بھارت میں متعین پاکستانی سفیر عبدالباسط پچھلے ہفتے بھارتی مسلم تنظیموںکے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے دفتر پہنچے۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ وہ مشاورت کے نومنتخب صدر نوید حامد کو خود مبارکباد دینے آئے تھے مگر کسی پاکستانی سفیر کا پہلی بار کسی بھارتی مسلم تنظیم کے دفتر جانا خالی از علت نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی سفیر کے ساتھ 75منٹ کی گفتگو میں جہاں سبھی مسلم رہنمائوں نے خواہش ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں، وہیں نئے صدر نوید حامد کا اصرار تھا کہ پاکستانی حکمرانوں کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی امن کاوشوں کی قدرکرنی چاہئے۔ پاکستان مودی کی کاوشوں کا کس طرح جواب دے، اس بارے میں تفصیل سے رہنمائوں نے کچھ کہنے سے گریز کیا مگر بین السطور عندیہ یہی دیا کہ پاکستان کشمیر سے دستبردار ہو جائے۔
بھارت میں مسلمانوںکی سیاسی‘ سماجی‘ تعلیمی اور اقتصادی حالت خواہ بہتر نہ ہو اورآزادی کے بعد سے اب تک کی تمام حکومتوں نے انہیں نظر انداز کیا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات کے دوران انہیں نظراندازکرنا کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 14.5فیصد یعنی تقریباً 160 ملین ہے۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 102 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹ قابل لحاظ تعداد میں ہیں۔ ان میں سے60 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد20 فیصد اور 26 ایسی ہیں جہاں مسلمان 30 فیصد ہیں جبکہ 14 نشستیں وہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کو بھی اس مسلم ووٹ کو بے وزن کروانے میں دانتوں میں پسینہ آ جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم انتخابات میں اپنی قوت‘ پسندیدگی یا ناراضگی کا مظاہرہ بھی کرتے رہے ہیں۔ 
شمالی بھارت میں سیاسی لحاظ سے کانگریس کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی ناراضگی ہے۔ 1989ء کے بھاگلپور فسادات کے بعد بہار میں اور 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں جو مسلم ووٹر کانگریس سے ناراض ہوگئے تھے، ان کی مار سے وہ ابھی تک دوبارہ ابھر نہیں پائی ہے۔ اسی طرح 2002 ء کے گجرات فسادات کے بعد 2004ء کے عام انتخابات میں کانگریس کی قیادت والی سیکولر مخلوط حکومت مسلمانوں کے سہارے ہی اقتدار تک پہنچی۔ مگر حیرت ہے کہ جہاں بھارتی مسلمان سیکولر اتحاد کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، فسادات میں ملوث افراد کو انتخابی میدان میں سزا دلوانے اور ان کو سیاسی طور پر بے وزن کروانے میں رول ادا کرتے ہیں، گجرات میں 2000 مسلمانوں کے قاتلوں کی نیندیں حرام کرواتے ہیں، وہ آخر کشمیر کے ایک لاکھ مسلمانوں کے قتل سے کیوں چشم پوشی کرتے ہیں۔ پچھلے سال کشمیر اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید اور کچھ صحافیوں کے ہمراہ راقم الحروف کو ایک مدت کے بعد مولانا وحید الدین خان صاحب کا شرف نیاز حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔ انجینئر صاحب رکن اسمبلی ہونے کے ناطے چونکہ کشمیر میں ایک طرح سے بھارتی جمہوریت کا چہرہ ہیں، وہ بضد تھے کہ مولانا صاحب سے جموں و کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات کے لئے رہنمائی حاصل کریں۔ خیر نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد مولانا نے انجینئر صاحب کے ساتھ کافی گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورت حال خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرا کے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے مولانا کا نقطہ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ کشمیری ''امن‘‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی گزشتہ کئی دہائیوں کی جد و جہد غلط تھی۔ رشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے تو مولانا نے فرمایا کہ انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنے والے لوگوں کی یہ ذہنی اختراع ہے۔ ان کے بقول کشمیرکا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ جموں وکشمیر کے تنازع کو تو خود بھارتی لیڈر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کا مطالبہ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے گئے۔ اس سے قبل میز پر ان کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ دیکھا جس میں انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہدایت دی تھی کہ اپنے کردار اور تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں اور ان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ بند کر دیں۔ 
بہرحال کوئی بھی فردکسی حساس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے آزاد ہے اور کسی دوسرے پر اپنی رائے تھوپنا نہ تو ممکن ہے اور نہ اخلاقی اقدارکے کسی زاویہ نگاہ سے درست ہے، لیکن مولانا نے کشمیرکے حوالے سے جو بھی باتیں کیں وہ مولانا صاحب کی ہی ذاتی رائے نہیں بلکہ بھارت میں رہنے والے اکثر لوگوں خاص طور سے مسلمانوں کے اندر پنپنے والی سوچ کی عکاس ہے۔ بھارتی مسلمانوںکوکشمیرکے مسئلے کے حل کے حوالے سے کئی تحفظات اور خدشات لاحق ہیں۔ ان کو سب سے پہلے یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر کشمیر کسی بھی طرح سے الگ ہوا تو اس سے ان کے لئے ملکی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ ملک کی اکثریتی آبادی کے بقول اس صورت میں پورے ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن، فرقہ پرست اورعلیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھا جائے گا۔ انہیں لگ رہا ہے کہ اگرکشمیر بھارت سے الگ ہوا تو وہ (بھارتی مسلمان) غیر محفوظ ہوکے رہ جائیںگے۔ غرض مسلمانوںکی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل اورانصاف سے زیادہ اپنے اوپر اس کے پڑنے والے اثرات کے نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اس مخصوص سوچ سے باہر نہ سوچنے کے لئے تیار نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی شاید ان لوگوں کی طرف سے ابھی تک بھارتی مسلمانوں کے خدشات دورکرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ حتّی کہ کسی وقت تو یہ خدشہ بھی لاحق ہونے لگتا ہے کہ اگر کہیں واقعتاً مسئلہ کشمیرکے حل کی شکل نظر آنے لگی تو ہندو انتہا پسندوں سے زیادہ کشمیریوں کو کہیں بھارتی مسلمانوں کی قیادت سے شدید ترین مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بہرحال یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ لیکن کوئی بھارت کے مسلم دانشور اور حساس طبقے سے یہ پوچھے کہ اگر آپ ایک طرف خود کوکشمیری مسلمانوں سے کسی بھی قیمت پر جدا نہیں کرنا چاہتے تو پھر کم از کم جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنے لبوں کو معمولی سی جنبش دینے کی بھی زحمت کیوں گوارا نہیں کرتے؟ آپ جموں وکشمیر میں روز ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صرف اس لئے آواز اٹھانے سے گھبرا رہے ہیں کہ کہیں آپ پر ملک دشمنی کا لیبل نہ لگ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کشمیریوں کا بھارت کے ساتھ ''نکا ح نامہ‘‘ برقرار رکھنے کی بھی خواہش کریں اور بے گناہ کشمیریوں پر ہونے والی زیادتیوںکے خلاف ایک لفظ بھی صرف اس لئے نہ بولیںکہ ہندو انتہا پسند آپ سے ناراض ہو جائیں گے؟ 
ابھی حال ہی میں دہلی کے جنتر منتر چوراہے پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے شمالی کشمیر کے ہندواڑہ قصبے میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کیا تھا، مگر کسی مسلم تنظیم نے وہاں جانا گوارا نہ کیا۔ کشمیر نے گجرات سے کچھ کم ظلم نہیں دیکھا۔ پچھلے 26 برسوں کے دوران کشمیر میں سکیورٹی ایجنسیوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں معصوم بچیو ں‘ نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کی عصمتیں پامال کی گئیں۔ اس جانب ہلکا سا اشارہ اینڈرن لیوی اور کیتھی اسکاٹ نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف The Meadows میں کیا ہے۔ ان برطانوی مصنفین نے لکھا ہے کہ کس طرح ایک سرکاری بندوق بردار نے ایک ماں کی گود سے اس کے شیر خوار بچے کو چھین کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تڑپا تڑپا کر مار ڈالا۔(باقی صفحہ نمبر13پر)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں