"IGC" (space) message & send to 7575

امان اللہ خان کی دنیا سے رخصتی

سقوط مشرقی پاکستان کے بعد مایوسیوں نے اکثر مخلص اور سنجیدہ کشمیری راہنمائوں کو بھی قائل کرادیاتھا، کہ تشخص کی حفاظت کرتے ہوئے ،اب انہیںبھارت کے زیر نگرانی ہی اپنا مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔شیخ محمد عبداللہ کے سحر میں تو عوام بھی آزادی اور حق خود ارادیت کے نعروں کو بھول گئے تھے۔شاذ و نادر اسمبلی کے فلور پر یا سوپور چوک میں جماعت اسلامی، خصوصاً سید علی گیلانی کی وساطت سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی یاد دہانی ہوتی تھی۔مگر شاید ہی 1975 ء کے اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے بعد ریاست گیر سطح پر کسی میں عوام کو آزادی کا خوا ب دکھانے کی ہمت تھی۔ اس دور پر آشوب میں کشمیر میں موہوم آوازوں کے علاوہ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کو زندہ اور جاوید رکھنے کا سہرا یقیناً امان اللہ خان کے سر ہے۔گو کہ امان االلہ خان اور انکے مرشد محمد مقبول بٹ عوامی لیڈران نہیں تھے، اور نہ ہی کشمیری عوام کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست ربط تھا، مگر نوجوانوں کیلئے وہ دونوں طلسماتی شخصیات تھیں۔463سال قبل جب سے مغل شہنشاہ اکبر نے پے در پے ہزیمتوں کے بعد کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو دھوکے سے لاہور بلاکر پہلے قید اور بعد میں پٹنہ جلاوطن کیا، کشمیری ایک ایسے لیڈر کی تاک میں ہیں، جو اس شعر ''کسی کے سامنے نہ جھکی میری گردن اور کہیں میری گردن خم نہ ہوئی‘‘ کی عملی تفسیر ہو۔ شیخ عبداللہ ڈوگرہ راج کے خلاف اور 1953 کے بعد حق خود ارادیت کی تحریک کی کمان سنبھالتے ہوئے لحن داودی میں یہ شعر پڑھ کر جلسے لوٹ لیتے تھے۔مگر 1975میں اس شیر نے اندراگاندھی کے سامنے گردن ہی نذر کرکے اپنی اور خاندان کی دنیا سنوار دی۔یہی شاید ایک وجہ ہے،کہ عوامی لیڈر نہ ہوتے ہوئے بھی امان اللہ خان کو کشمیر میں عزت اور وقار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے، کہ یوسف شاہ چک کی طرح، خان صاحب کا تعلق بھی گلگت سے تھا۔
مجھے دو بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ فروری 2000ء میںان کے ایک رفیق غلام مصطفیٰ علوی کے ہمراہ راولپنڈی میں ان کے دفتر میں اور 2015ء میں کشمیر ی صحافیوں کے ہمراہ، جو پاکستان کے دورے پر تھا۔مظفر آباد سے واپسی پر صحافیوں کے دورہ کے منتظمین نے اعلان کیا، کہ چونکہ وقت کم ہے، اور کئی ملاقاتیں ابھی باقی ہیں۔ ان میں آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب ، امان اللہ خان اور کئی اور مقتدر شخصیات شامل تھیں۔ اسلئے وفد کو الگ الگ گروپوں میں بانٹا جائے گا۔مگر سرینگر سے آئے اس وفد میں سبھی خان صاحب سے ملاقات پر بضد تھے۔ بڑی مشکل سے منتظمین نے چند افراد کو صدر آزاد کشمیر اور دیگر پروگراموں میں جانے پر راضی کرایا۔خان صاحب کو بتایا گیا تھا، کہ وفد کے پاس وقت کی کمی ہے اور ان کو فوراً لاہور روانہ ہونا ہے۔ ان کی شرافت کی انتہا،کہ ضعیفی اور علالت کے باوجود، جب ہم ہوٹل پہنچے، تو دیکھا وہ لابی میں ہمارا انتظار کررہے تھے۔ وفد کے ممبران اس لیے بھی ان سے ملنے کیلئے پر جوش تھے، کیونکہ چند جوشیلے ان سے ان کے فرزند نسبتی سجاد غنی لون اور ان کی صاحبزادی اسماء کے بارے میں استفسار کرنا چاہتے تھے۔ سجاد اس وقت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کوٹہ سے پی ڈی پی ‘بی جے پی مخلوط حکومت میں وزیر ہیں۔مگر ان کی مہمان نوازی اور رواداری نے سارا جوش ٹھنڈا کر دیا۔ کسی نے سوال پوچھا بھی، تو انہوں نے بغیر لاگ و لپٹ کے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا۔کہ وہ مانتے ہیں، کہ سجاد کے ساتھ خاصابرا ہوا۔ ان کا اشارہ ان کے والد اور حریت راہنما عبد الغنی لون کی ہلاکت کی طرف تھا۔'' مگر جو راستہ سجاد اور اسماء نے اختیار کیا ہے، وہ اس کے حق میں نہیں ہیں۔‘‘ معلوم ہوا کہ وہ گزشتہ کئی برس سے دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے علاوہ پھیپھڑوں کے مرض سے بھی دوچار تھے۔ تاہم ان کی بیماری کبھی بھی ان کے سیاسی جدوجہدمیں رکاوٹ نہ بنی اور زندگی کی آخری سانس تک وہ کشمیر کی
تحریک سے جڑے رہے۔بھارت کی وفاقی تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن (سی بی آئی) کی ویب سایٹ پر وہ آج بھی مطلوب ملزموں کی لسٹ میں ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کپوارہ سے لے کر سرینگر میں گزارے اور ابتدائی تعلیم بھی کشمیر میں ہی حاصل کی۔انہوں نے مقبول بٹ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ منقسم جموں وکشمیر کی وحدت اور خود مختار کشمیر کے نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ان کے نظریہ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے جس طرح پوری عمر کشمیر کاز کی آبیاری کے لئے صرف کی،وہ اپنی مثال آپ ہے اور جس طرح انہوں نے کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کیلئے برطانیہ اور بلجیم میں کئی برس جیلوں میں گزارے تاہم اس کے باوجود مزاحمتی تحریک سے عملی طور جڑے رہے، اُن پرخودمختار کشمیر کا پرچار کرنے کے لئے بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر پاکستانی حکومت نے بھی گرفتار کرلیا اور کئی برس گلگت جیل میں مقید رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف شکایت نہیں کی۔ 2005ء صحافیوں کی ایک تنظیم سافما نے جب بھارتی صحافیوں کے ایک گروپ کو پاکستان مدعو کیا تھا۔ ان میں سے ایک صحافی نے واپسی پر مجھے بتایا، چونکہ خان صاحب کشمیرمیں عسکری تحریک کے بانیوں میں ہیں، اس لئے اس نے ان سے پاکستانی اداروں اور حکومت کے خلاف بلوانے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ اس کی رپورٹ کو نئی دہلی میں اسکے آفس میں پزیرائی ملے، مگر وہ ہر بار پاکستان سٹیٹ کے خلاف کوئی بیان دینے سے انکارکر تے تھے۔
1982ء میں شیخ عبداللہ کی وفات کے بعد ہی کشمیر میں سیاسی بے چینی کے دور کا آغاز ہوچکا تھا۔ہمسایہ ریاست پنجاب میں سکھوں کی مسلح جدوجہد شروع ہوچکی تھی، اس کا اثر کشمیر کی نفسیات پر پڑنا لازمی تھا۔ 1984ء میں فاروق عبداللہ کی حکومت کی تحلیل نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا، اس وقت فاروق نئی دہلی کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے، اور وہ آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے والد کے ساتھ کئے گئے وعدے یاد دلارہے تھے۔مگر 1986ء میں انہوں نے بھی اپنی گردن نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے پاس گروی رکھ کر وزارت اعلیٰ کی کرسی حاصل کی۔مگر اس بار نوجوانوں کی پود سحر اور طلسم کے حصار سے باہر آچکی تھی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کو سبق سکھانے کیلئے نوجوانوں نے 1987ء کے انتخابات میں بھر پور شرکت کر کے پر امن ذرائع استعمال کرکے مسئلہ کشمیر کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔مگر ریکارڈ توڑ دھاندلیوں نے ثابت کیا، کہ پر امن دروازے بند ہوچکے ہیں۔1960ء سے مقبول بٹ اور امان اللہ خان جس عسکری تحریک کے خاکے بن رہے تھے ۔و ہ اب تیار ہورہے تھے۔چونکہ مسلح جدوجہد کیلئے ایک اپر گرائونڈ نیٹ ورک لازمی جز ہے، اسلئے بتایا جاتا ہے، کہ جماعت اسلامی کو اپروچ کیا گیا۔ جماعت نے تو بڑی مشکل سے 1971ء میں سیاسی میدا ن میں قدم رکھا تھا، اور اپنے ہدف کے سلسلے میں بھی تذبذب کی کیفیت میں تھی، اس نے اس نئے میدان میں ہاتھ آزمانے سے انکار کیا۔ ان کی دلیل تھی ، کہ نئے میدانوں میں قسمت
آزمائی سے ان کا دعوت کا بنیادی کام متاثر ہوتا ہے۔ظاہر سی بات ہے،کہ قرعہ فال جے کے ایل ایف کے نام نکلنے والا تھا، جو کئی دہائیوں سے ایسی تحریک کیلئے کوشاں تھی۔کشمیر اور افغانستان کی تحریکوں کا موازنہ کسی بھی صورت میں نہیں کیا جاسکتاتھا۔ یہ بات طے تھی، کہ بنگلہ دیش کی طرز پر کشمیر میں لااینڈ آرڈر کو مسمار کرکے، بھارتی فو ج کی ناکہ بندی کرکے سفارتی نیز ملٹری عوامل کو بروئے کار لاکر بھارت کیلئے کشمیر میں ڈھاکہ کی دسمبر 1971ء کی پوزیشن پیدا کر دی جائے۔جب جے کے ایل ایف نے سری نگر میں اپنی آمد کا اعلان کیا،تو بھارت ، پاکستان اور نہ ہی تنظیم کے لیڈروں کے وہم و گمان میں تھا، کہ ان کو ایسا بے مثال عوامی تعاون حاصل ہوگا۔مگر اسی دورران خلیجی جنگ اور خارجی عوامل کی عدم دستیابی کے وجہ سے اب یہ جدو جہدایک طویل مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔عوامی خمار بھی اب اتر سکتا تھا۔ اسلئے تحریک کو برقرار رکھنے کیلئے اب کسی کیڈر پر مبنی سیاسی پارٹی کی پشت پناہی لازمی تھی۔یہ کام تو صرف نیشنل کانفرنس یا جماعت اسلامی ہی کرسکتی تھی۔1965ء میں نیشنل کانفرنس (اس وقت اسکا نام محاذ رائے شماری تھا) نے جو رول ادا کیاتھا،اس لئے اس پر بھروسہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ چونکہ 1975کے بعد جماعت قدرتی طور پر آزادی یا حق خود ارادیت کی نحیف و ناتواں آوازوں کی مدد بھی کرتی تھی۔ اس لئے اس کا اب میدان میں آنا ضرورت بھی تھی۔ مگر بجائے ایک مربیانہ رول اختیار کرنے اور سبھی گروپوں کو اپنانے کے، اس نے حزب المجاہدین کو اپنا عسکری بازو بنانے کا اعلان کیا، جس کی بعد میں سیکورٹی فورسز کی یلغار کے نتیجے میں جماعت کئی بار تردید کر چکی ہے۔مگر اسی کے ساتھ ہی کشمیر میں اندونی خلفشار نے جنم لیا۔ سیکورٹی فورسز سے لوہا لینے کے بجائے حزب المجاہدین ، جے کے ایل ایف اور دیگر تنظیموں کے درمیان الحاق پاکستان اور خود مختاری کے نام پر خون کے دریا بہائے گئے۔جس کا بھر پور فائدہ بھارتی ایجنسیوں نے اٹھایا۔ (باقی صفحہ نمبر13)
کشمیر کی عسکری تاریخ کا ایک سبق ہے، کہ بندوق ایک طاقت ہوتی ہے اور طاقت کو لگام میں رکھنے کیلئے احتساب اور ہدف لازمی ہوتا ہے، ورنہ یہ انارکی کی شکل اختیار کرتا ہے۔نہ صرف عسکری بلکہ ان گنت دانشور معروف معالج ڈاکٹر عبدالاحد گورو، کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ عبدالاحد وانی، معروف وکیل پیر حسام الدین، محمد رفیق شاہین، جیسے لوگ اس خلفشار کی بھینٹ چڑھ گئے۔حتی ٰ کہ صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے ایک بار سید علی گیلانی کو بھی بہ حالت علالت اغوا کیا گیا۔جماعت کے تقریباً 500اراکین کوخون میں نہلایا گیا۔
ڈاکٹر گورو کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے، کشمیر میں تعینات ایک سابق سینیر افسر وجاہت حبیب اللہ رقم طرازہیں، کہ حزب المجاہدین کے ایک رکن ذوالقرنین کو سیکورٹی فورسزنے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ دوران تفتیش اسے آفر دی گئی، کہ اگر وہ ڈاکٹر گورو کا قتل کرتا ہے، تواسے رہائی مل سکتی ہے۔ ورنہ اس کے نصیب میں صرف موت ہے۔ وجاہت جو اس وقت 1993ء میں کشمیر کے ڈویژنل کمشنر تھے، کہتے ہیں کہ صبح سویرے ذوالقرنین کو رہا کیا گیا۔ ڈاکٹر گورو کو ہلاک کرنے کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا، کہ ذوالقرنین کی پہچان ہوسکے ، تاکہ دونوں گروپوں کے درمیان مسلح تصادم کی راہ بھی ہموار ہو۔مگر ڈاکٹر صاحب کو ہلاک کرنے کے محض 24 گھنٹوں کے اندر ہی رات کے اندھیرے میں ذوالقرنین کی کمیں گاہ پر سیکورٹی دستوں نے دھاوا بول کر اس پورے آپریشن کو مخفی رکھنے کی خاطر اُسے بھی موت کی نیند سلا دیا۔ اسی طرح برطانوی مصنفوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ نے جنوبی کشمیر میں حرکت جہاد اسلامی (جس کے مولانا مسعود اظہر سیکرٹری جنرل تھے)اور حزب المجاہدین کے درمیان گروہی تصادموں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، کہ اس خطے میں 1994ء میں حرکت اور بھارتی فوجی دستوں راشٹریہ رائفلز کے درمیان مشترکہ طور پر حزب المجاہدین کا قلع قمع کرنے کیلئے ایک خاموش معاہدہ طے ہوگیا تھا۔ ویسے اس طرح کے معاہدے بھارتی ایجنسیوں نے کئی اور جگہوں پر بھی کئے تھے۔
زندگی کے آخری ایام میںامان اللہ خان آزادی پسند قیادت کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر پاکستانی اد ارے اور کئی افراد ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔شاید ان کو معلوم نہیں ، کہ کشمیریوں کیلئے پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے اور اس کے بغیر ان کیلئے آزادی کا سبق بے معنی ہے۔ مجھے یاد ہے، کہ ایک بار میں نے دہلی کے کانگریس صدر دفتر میں مرحوم غلام رسول کارکو‘ جو پا رٹی کی ریاستی اکائی کے صدر بھی رہ چکے ہیں، پارٹی کے قومی جنرل سیکرٹری موہن پرکاش پر گرجتے دیکھا۔ کیونکہ پارٹی ترجمان نے پاکستان کے خلاف کوئی بیان دیا تھا۔ کار صاحب اونچی آواز میں موہن پرکاش کو سمجھا رہے تھے کہ کشمیریوںکی پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے، چاہے وہ کانگریسی ہو یا نیشنلی یاکسی اور پارٹی کا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو مرکزی لیڈروںکو جا ن لینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ''میں بھارت نواز لیڈر سہی مگر پاکستان میں ہوئی کسی بھی ہلاکت پر میں خون کے آنسو روتا ہوں۔ یہ محض میرا نہیں بلکہ یہ پورے کشمیرکا المیہ ہے‘‘ - ابھی حا ل ہی میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے ، جو اقتدار میں رہتے ہوئے پاکستان پر بم گرانے کی باتیں کرتے تھے، بیان دیا، ''کہ اگر بھارتی حکمران اپنے سبھی خزانوں کا رخ بھی کشمیر کی طرف کریں گے، پھر بھی کشمیریوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت ختم نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘ اس لیے پاکستانی ارباب حل و عقد سے گذارش ہے، کہ کشمیر کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہونے کے بجائے مثبت رویہ اختیار ادا کرکے اتحاد کی راہیں ڈھونڈنے میں کردار ادا کریں۔بھارت کے برعکس پاکستان کی پوزیشن اسلئے بھی کشمیر میں مستحکم ہے، کہ وہ براہ راست سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ میں ہے، جبکہ بھارت کو ان روابط کیلئے ٹریک ٹو یامصالحت کاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔قصہ مختصر اما ن اللہ خان جیسے لیڈران کسی بھی قوم کیلئے سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہوںنے اپنی ساری جائیداد تحریکی سرگرمیوں کیلئے وقف کر دی تھی اورراولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ لبریشن فرنٹ کے دفتر میں تبدیل کی گئی تھی جہاں صرف ایک کمرہ ان کے آرام کیلئے وقف رکھاگیا اور وہ اسی ایک کمرے میں پوری زندگی گزار کر دائمی سفر پر رخصت ہوگئے لیکن جاتے جاتے ایک پیغام بھی چھوڑ کر چلے گئے کہ مزاحمت کی راہ میں تھکے، اور گردن جھکائے بغیر سفر جاری رکھنا ممکن ہے اور اصل کامیابی بھی ہے۔
کشمیر کی عسکری تاریخ کا ایک سبق ہے، کہ بندوق ایک طاقت ہوتی ہے اور طاقت کو لگام میں رکھنے کیلئے احتساب اور ہدف لازمی ہوتا ہے، ورنہ یہ انارکی کی شکل اختیار کرتا ہے۔نہ صرف عسکری بلکہ ان گنت دانشور معروف معالج ڈاکٹر عبدالاحد گورو، کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ عبدالاحد وانی، معروف وکیل پیر حسام الدین، محمد رفیق شاہین، جیسے لوگ اس خلفشار کی بھینٹ چڑھ گئے۔حتی ٰ کہ صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے ایک بار سید علی گیلانی کو بھی بہ حالت علالت اغوا کیا گیا۔جماعت کے تقریباً 500اراکین کوخون میں نہلایا گیا۔
ڈاکٹر گورو کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے، کشمیر میں تعینات ایک سابق سینیر افسر وجاہت حبیب اللہ رقم طرازہیں، کہ حزب المجاہدین کے ایک رکن ذوالقرنین کو سیکورٹی فورسزنے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ دوران تفتیش اسے آفر دی گئی، کہ اگر وہ ڈاکٹر گورو کا قتل کرتا ہے، تواسے رہائی مل سکتی ہے۔ ورنہ اس کے نصیب میں صرف موت ہے۔ وجاہت جو اس وقت 1993ء میں کشمیر کے ڈویژنل کمشنر تھے، کہتے ہیں کہ صبح سویرے ذوالقرنین کو رہا کیا گیا۔ ڈاکٹر گورو کو ہلاک کرنے کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا، کہ ذوالقرنین کی پہچان ہوسکے ، تاکہ دونوں گروپوں کے درمیان مسلح تصادم کی راہ بھی ہموار ہو۔مگر ڈاکٹر صاحب کو ہلاک کرنے کے محض 24 گھنٹوں کے اندر ہی رات کے اندھیرے میں ذوالقرنین کی کمیں گاہ پر سیکورٹی دستوں نے دھاوا بول کر اس پورے آپریشن کو مخفی رکھنے کی خاطر اُسے بھی موت کی نیند سلا دیا۔ اسی طرح برطانوی مصنفوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ نے جنوبی کشمیر میں حرکت جہاد اسلامی (جس کے مولانا مسعود اظہر سیکرٹری جنرل تھے)اور حزب المجاہدین کے درمیان گروہی تصادموں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، کہ اس خطے میں 1994ء میں حرکت اور بھارتی فوجی دستوں راشٹریہ رائفلز کے درمیان مشترکہ طور پر حزب المجاہدین کا قلع قمع کرنے کیلئے ایک خاموش معاہدہ طے ہوگیا تھا۔ ویسے اس طرح کے معاہدے بھارتی ایجنسیوں نے کئی اور جگہوں پر بھی کئے تھے۔
زندگی کے آخری ایام میںامان اللہ خان آزادی پسند قیادت کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر پاکستانی اد ارے اور کئی افراد ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔شاید ان کو معلوم نہیں ، کہ کشمیریوں کیلئے پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے اور اس کے بغیر ان کیلئے آزادی کا سبق بے معنی ہے۔ مجھے یاد ہے، کہ ایک بار میں نے دہلی کے کانگریس صدر دفتر میں مرحوم غلام رسول کارکو‘ جو پا رٹی کی ریاستی اکائی کے صدر بھی رہ چکے ہیں، پارٹی کے قومی جنرل سیکرٹری موہن پرکاش پر گرجتے دیکھا۔ کیونکہ پارٹی ترجمان نے پاکستان کے خلاف کوئی بیان دیا تھا۔ کار صاحب اونچی آواز میں موہن پرکاش کو سمجھا رہے تھے کہ کشمیریوںکی پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے، چاہے وہ کانگریسی ہو یا نیشنلی یاکسی اور پارٹی کا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو مرکزی لیڈروںکو جا ن لینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ''میں بھارت نواز لیڈر سہی مگر پاکستان میں ہوئی کسی بھی ہلاکت پر میں خون کے آنسو روتا ہوں۔ یہ محض میرا نہیں بلکہ یہ پورے کشمیرکا المیہ ہے‘‘ - ابھی حا ل ہی میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے ، جو اقتدار میں رہتے ہوئے پاکستان پر بم گرانے کی باتیں کرتے تھے، بیان دیا، ''کہ اگر بھارتی حکمران اپنے سبھی خزانوں کا رخ بھی کشمیر کی طرف کریں گے، پھر بھی کشمیریوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت ختم نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘ اس لیے پاکستانی ارباب حل و عقد سے گذارش ہے، کہ کشمیر کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہونے کے بجائے مثبت رویہ اختیار ادا کرکے اتحاد کی راہیں ڈھونڈنے میں کردار ادا کریں۔بھارت کے برعکس پاکستان کی پوزیشن اسلئے بھی کشمیر میں مستحکم ہے، کہ وہ براہ راست سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ میں ہے، جبکہ بھارت کو ان روابط کیلئے ٹریک ٹو یامصالحت کاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔قصہ مختصر اما ن اللہ خان جیسے لیڈران کسی بھی قوم کیلئے سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہوںنے اپنی ساری جائیداد تحریکی سرگرمیوں کیلئے وقف کر دی تھی اورراولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ لبریشن فرنٹ کے دفتر میں تبدیل کی گئی تھی جہاں صرف ایک کمرہ ان کے آرام کیلئے وقف رکھاگیا اور وہ اسی ایک کمرے میں پوری زندگی گزار کر دائمی سفر پر رخصت ہوگئے لیکن جاتے جاتے ایک پیغام بھی چھوڑ کر چلے گئے کہ مزاحمت کی راہ میں تھکے، اور گردن جھکائے بغیر سفر جاری رکھنا ممکن ہے اور اصل کامیابی بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں