کشمیر میں حالات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی سیاسی پیغام کے ذریعے حالات کو کسی قدر نارمل کرنے کے بجائے نریندر مودی حکومت طاقت کے بے دریغ استعمال، مسلسل کرفیو اور سکیورٹی فورسز کے ذریعے عوام کو تھکا کر، احساس ہزیمت میں مبتلا اور مایوسی کا شکار کر کے صورت حال کو پٹڑی پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ شاید اس کو نہیں معلوم کہ یہ قدم کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ جس طرح کی خبریں کشمیر سے موصول ہو رہی ہیں، لگتا ہے پوری آبادی تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق خالی ہاتھ سکیورٹی فورسز سے ٹکر لینے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ ہے۔ نوعمر نوجوانوں، حتیٰ کہ خواتین نے کئی علاقوں میں فوجی کیمپوں پر حملے کیے۔ بانڈی پورہ میں بارڈر فورس کی ایک چوکی کو تہس نہس کر دیا۔ دور دراز کپواڑہ کے کنج علاقہ میں فوج کی طرف سے لگائے گئے کیمپ پر بھی لوگوں نے غصہ نکالا۔ اس نوعیت کی متعدد خبریں موصول ہو رہی ہیں جو سرینگر میں اپنے گھروں میں نظر بند حریت لیڈروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔ لگتا ہے برہان وانی کی ہلاکت صرف ایک چنگاری تھی، بارود پہلے سے بچھا ہوا تھا جسے صرف ایک تیلی دکھانے کی ضرورت تھی۔ اس بار ہڑتال، جلوسوں اور جھڑپوں کی خبریں کرگل اور گریز جیسے علاقوں سے بھی آ رہی ہیں، جہاں آبادیاں مکمل طور پر فوجی حصار میں ہیں۔
پاکستان کی طرح بھارت کے ارباب حل و عقد بھی حالات کے اس رخ پر حیرت زدہ ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آخر کشمیریوں نے کس بل بوتے پر یہ تحریک شروع کی ہے؟ بھارتی پارلیمان کے سنٹرل ہال میں ایک سینئر وزیر کو میں نے یہ کہتے سنا کہ بھارت کے لیے ایک سنہری موقع ہے، کشمیریوں کو پیغام دیا جائے کہ وہ کچھ بھی کریں، ان کا مطالبہ ناقابل حصول ہے۔ ان کو اس کا ادراک ہونے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔ اس وزیر کا کہنا تھا کہ دہلی کی پچھلی حکومتوں نے کشمیریوں اور بقول اس کے علیحدگی پسندوں کو سر پر چڑھا رکھا تھا۔ 1990ء میں سیاسی عمل کی ناکامی نے کشمیر میں بندوق کو راہ دکھائی تھی، مگر 2008ء کے بعد یہ ادراک ہونا شروع ہو گیا تھا کہ شاید پتھر گولی سے زیادہ وزن دار ہوتا ہے؛ چنانچہ اب ایک بار پھر سیاسی قیادت کو بے وزن کرنے کی کاوشیں ہو رہی ہیں، انتشار کا ماحول پیدا کرایا جارہا ہے، نوجوانوں کو احساس ہزیمت اور مایوسی کی دلدل میں دھکیل کر ایک بار پھر ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا جارہا ہے تاکہ ان سے نمٹنا آسان ہوجائے۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ سڑکوں پر عوام کے اژدھام کے بجائے ایک طرح سے کنٹرولڈ ملیٹنسی (عسکریت) بھارت کے لئے سود مند ثابت ہوتی ہے اور اس کو عالمی رائے عامہ میں دہشت گردی سے جوڑ کر ہمدردی بھی بٹوری جاسکتی ہے۔
موجودہ تحریکِ مزاحمت اور عوامی غیظ و غضب نے یہاں حکومت کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ 12جولائی کوافریقی دورے سے واپسی کے فوراً بعد نریندر مودی کو سیکرٹری خارجہ جے شنکر بتا رہے تھے کہ کشمیر کے حالات بھارت کی سفارتی کاوشوں کے لئے شدید خطرہ ہیں۔ میٹنگ میں یہ بھی طے ہوا کہ کشمیر پر پاکستان کے بیانات کا کوئی نوٹس نہ لیا جائے کیونکہ بیان بازی عالمی برادری کو متوجہ کر سکتی ہے۔ مگر بھلا ہو پاکستان کے طرف سے یوم سیاہ کے روز حافظ محمد سعید اور دیگر حضرات کا، جنہوں نے مارچ کا اہتمام اور قیادت کر کے بھارت کے لئے سفارتی دروازے کھول دیے۔ فوراً ہی بھارت نے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کشمیر پر پاکستان میں احتجاج اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد دہشت گرد کر رہے ہیں۔ ایک اور ہتھیار حافظ صاحب نے یہ بھی فراہم کیا، جب انہوں نے انکشاف کیا کہ حز ب کے کمانڈر برہان وانی نے شہادت سے چند روز قبل ان سے فو ن پر بات چیت کی تھی۔ وانی اور حافظ صاحب کا فون، ظاہر ہے، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے راڈار پر رہا ہوگا۔ آخر وانی کی ہلاکت کا جواز پیدا کرنے اور اس کو ایک پوسٹر بوائے سے دہشت گرد ڈیکلیر کروانے کے لئے اس نکتے کو بھارت کی کسی ایجنسی نے افشا کیوں نہیں کیا؟ فون ٹیپنگ کا جو سسٹم بھارت نے کشمیر میں بچھا رکھا ہے، ایسا شاید ہی کسی اور خطے میں ہو۔ اسی طرح کلکتہ سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ٹیلیگراف میں پاکستان میں مقیم حزب کے سپریم کمانڈر محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین نے انٹرویو میں انتہائی سیاسی بچگانہ پن کا مظاہر ہ کرکے یہ دھمکی دی کہ وہ کبھی اور کہیں بھی عسکری کارروائی کرسکتے ہیں، جس سے یہاں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ حزب اب کشمیر کے علاوہ بھارت کے اندر بھی کارروائی کرسکتی ہے۔ ان کی تنظیم کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے یا نہیں، اس کا تو مجھے علم نہیں ہے، مگر کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے نام پر کوئی اور اس طرح کا کارنامہ انجام دے کر شاہ صاحب کو کٹہرے میں کھڑا کردے اور بھارت کے لیے ان کی حوالگی کا جواز پیدا کرکے پاکستان کے لئے مزید سفارتی مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنے؟ شاہ صاحب تو پہلے ہی بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی مطلوبہ فہرست پر ہیں۔ چند سال قبل ایک مقتدر کشمیر ی صحافی نے بھارت کے ایک قومی روزنامہ کے لیے جب اسلام آباد میں انکا انٹرویولیا، تو این آئی اے نے ان کا جینا دوبھر کردیا تھا، مگرابھی تک ٹیلیگراف کی اس خاتون صحافی سے کسی نے پوچھ تاچھ نہیں کی۔کہیں یہ انٹرویو اور یہ بیان ان سے جان بوجھ کر تو نہیں دلایا گیا؟
سیاسی عمل کی ناکامی نے کشمیر کو دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ بھارتی وزرائے اعظم کے بیانات کو پرکھا جائے تو جہاں نرسہما رائو کا یہ جملہ کہ 'آزادی سے کم آسمان کی حد تک مانگو جو مانگناہے‘ بھی ایک سراب ثابت ہوا۔ واجپائی کا یہ کہنا کہ 'کشمیر کا حل انسانیت کے دائرے میں کیا جاسکتا ہے‘ اور ڈاکٹرمنموہن سنگھ کا یہ جملہ کہ 'ہم دوست تو بدل سکتے ہیں ہمسایے نہیں‘ بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ پائے۔ کشمیر کے حل کے ضمن میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا کہ موجودہ حالات کو جوںکا توں رہنے دیا جائے اور صرف خط متارکہ کے آر پار عام لوگوں کو سفر اور تجارت کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ سفر اور تجارت کی یہ سہولتیں
بھی کڑی نگرانی میں رکھی گئیں کہ ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ ایک دَہائی گزرنے کے بعد بھی طرفین میں تجارت کے بارے میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ کشمیر میں جب بھی حالات کا رخ عارضی امن کی جانب بڑھا تو بھارت اور پاکستان کی لیڈرشپ کو دفعتاً لگتا ہے کہ حالات اعتدال پر آ چکے ہیں اور جب 2008 ء اور 2010 ء یا موجودہ صورت حال ایک چیلنج بن کے اْبھر آتی ہے تو وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں، لیکن وقتی طور پرکچھ ہڑ بڑانے کے بعد پھر سو جاتے ہیں۔2007ء میں منموہن سنگھ کے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے میں ان کی کانگریس پارٹی کا کلیدی رول رہا، اس لیے کہ من موہن کا سورج غروب ہو رہا تھا اور گاندھی خاندان کے جانشین راہول گاندھی کی تاج پوشی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ کانگریس کسی بھی صورت میں یہ پیغام نہیں دینا چاہتی تھی کہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کوئی سودا راہول گاندھی کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو۔ اتر پردیش اور دیگر صوبائی انتخابات میں وہ کسی بھی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوئی ہتھیار نہیں دینا چاہتے تھے۔ یہی صورت حال کم و بیش اس وقت مودی کے ساتھ بھی ہے۔ اگرچہ مودی کا پہلے ہی ایک سخت گیر تاثر ہے، مگر کانگریس اس پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ صوبائی اور قومی انتخابات، مقامی معاشی اور سیاسی مسائل کے بجائے کشمیر اور پاکستان پر لڑے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی اور اس کے میڈیا سے وابستہ مقتدر شخصیات کی بے باکی اور بہادری پر ہم یہاں ہمیشہ فخر محسوس کرتے آئے ہیں۔ بھارت میں بھی عاصمہ جہانگیر، آئی آے رحمان اور دیگر حضرات کوخاصی پذیرائی حاصل ہے۔ میڈیا کے ایک حلقہ میں سافما اور اس کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم بھی ایک معروف نام ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستانی سول سوسائٹی کے چنیدہ حضرات بشمول ارکان پارلیمنٹ دہلی وارد ہوکر بھارت کی دونوں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور میڈیا سے وابستہ افراد سے مل کر ان کو باور کراتے کہ کشمیر کی آگ سے خدا را سیاسی روٹی سینکنے کا سلسلہ بند کردو تاکہ کوئی نتیجہ خیز سیاسی عمل شروع کیا جاسکے۔کشمیر کی بھارت نواز حکمران پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس بھی بھارتی لیڈروں سے یہی مطالبہ کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی کی خاموشی سے حالات کی لگام ایک بار پھر انہی عناصر کے ہاتھوں میں آ جائے گی جو کشمیر میں ظلم و بربریت کے لئے بھارت کو جواز فراہم کریںگے۔ دوسری طرف احساس ہزیمت،انتشار اور مایوسی کا دور پورے خطے کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے، جس کی لپیٹ میں ہم سب آ سکتے ہیں۔
مخدوش صورت حال اور بھارتی میڈیا کے منفی رویہ کے باوجود کشمیر میں عوام نے ابھی تک صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ کئی کوششیں کی گئیں کہ امرناتھ یاترا پر جانے والے ہندو ئوں پر حملے ہوں تاکہ بھارت کے دیگر علاقوں میں نفرت کا ایک ماحول تیار کرا کے انتخابات جیتنے کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ پچھلے ہفتے جب گجرات کے یاتریوں نے دودن تک نگین کلب سری نگر میں بحالت مجبوری پناہ لی تو مقامی لوگوں نے انہیں پلکوں پہ بٹھایا۔ ساٹھ سے زائد پیر وجوان، مستورات اور بچے جب دہلی پہنچے تو انہوں نے کشمیریوں کی دل کھول کر تعریفیںکیں۔ اسی طرح جنوبی کشمیر میں سنگم بجبہاڑہ میں حادثے سے دوچار یاتریوں کو جس انسانی جذبے کے ساتھ مقامی آبادی نے کرفیو توڑ کر مدد کی اگر ان میں روشن ضمیری بچی ہوگی تووہ لازماً متعصب میڈیا پر اور اس کے سیاسی سر پرستوں پر انگشت بدنداں ہوںگے، جو زمین آسمان کے قلابے ملا کر کشمیری قوم کی کردار کشی میں تمام اخلاقی حدود پار کرتے جا رہے ہیں۔ نگین کلب میں رْکے پڑے یاتریوںکے لئے مقامی محلہ والوں اور کلب کے سٹاف نے بلا معاوضہ کھانے پینے کا انتظام ہی نہیں کیا بلکہ اْن کے آرام و آسائش کا بھر پور خیال رکھا۔ ان درماندہ یاتریوں نے چلّاچلاّ کر کہا کہ ہم نے فوج، پولیس اور محکمہ سیاحت سے مدد طلب کی مگر بے سود اور اگرہماری مدد کے لئے کوئی سامنے آیا تو وہ یہی مقامی کشمیری مسلمان ہی تھے۔ حادثہ سے دوچار ایک یاتری نے سرکاری ٹی وی چینل پر کہا کہ دنیا میں اگر انسانیت دیکھنی ہو تو کشمیر میں آکر دیکھو۔ اس انسانیت کو تحفط دینا ہم سب پر لازم ہے۔