میڈیا اور دیگر اداروں نے پاکستان کے انگریزی اخبار کے صحافی سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا نوٹس لے کر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ جو اظہار یکجہتی کیا وہ قابل ستائش ہے۔ جمہوری نظام میں طاقت کے نشے میں چور ایگزیکٹو کے بے لگام اور سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے اور اس کی لگام تھامنے کے لئے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کا ذمہ دار اور آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔ فوج اور سویلین انتظامیہ کے درمیان مبینہ چپقلش کی خبرکی بنا پر المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنا غیر ضروری تھا۔کوئی بھی ایجنسی اس خبر کے محرک کی تفتیش اس کے بغیر بھی کرسکتی تھی۔ دنیا بھرکے میڈیا اداروں، امریکی حکومت، آزادی اظہار اور جمہوریت کے علمبرداروں نے اس اقدام پر حکومت پر سخت نکتہ چینی کی۔ بھارت میں دانشوروں، ادیبوں، مقتدر صحافیوں اور ٹی وی اینکرز نے اس ایشو کی آڑ میں پاکستان کی فوج اور سویلین حکمرانوں کے درمیان مبینہ تلخیوںکو خوب اچھالا۔
ہمیں اس پر یہ شکوہ ہے کہ جب اس طرح کے واقعات بھارت اورکشمیر میں وقوع پذیر ہوتے ہیں تو یہ نام نہاد دانشور‘ ادیب‘ مصنفین اور ٹی وی اینکر چپ کیوں سادھ لیتے ہیں۔ شاید انہیں یاد ہی نہیںکہ 30 ستمبر سے کشمیر کے ایک مقتدر انگریزی اخبار''کشمیر ریڈر‘‘ کی اشاعت پر پابندی عائد ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے وقتاً فوقتاً سرینگر کے اخبارات کو ترسیل پر پابندی کی وجہ سے اپنی اشاعت موقوف کرنا پڑی۔ اظہار رائے کی آزادی کے یہ ''مجاہد‘‘ اس وقت بھی خاموش رہے جب 2010 ء میں امریکی مصنف اور دانشور پروفیسر Richard Shapiro کو حکومت ہند نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 2010ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر David Barasmian اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انہیں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے سے ہی واپس بھیج دیا۔2011ء میں حقوق انسانی کے مشہور کارکن گوتم نولکھا کا واقعہ شاید لوگ ابھی نہیں بھول پائے ہوںگے۔ گوتم اپنی اہلیہ کے ہمراہ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے کہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر انہیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے پر مجبورکر دیاگیا۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ حقوق انسانی کے کارکن خرم پرویزکو اندرا گاندھی ایئرپورٹ سے نہ صرف واپس بھیجا گیا بلکہ اگلے روز سرینگر جا کر ان کو بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ ایسے واقعات اس کثرت سے پیش آتے ہیں کہ ان کی گنتی کرنا مشکل ہے۔
میں خودای سی ایل کا شکار رہا ہوں۔ 2004ء میں ایک ٹریک ٹو کانفرنس میں شرکت کے لئے میں بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ آنجہانی ایس کے سنگھ کے ہمراہ کٹھمنڈوجا رہا تھا کہ ای سی ایل میں شامل ہونے کے باعث دہلی ایئر پورٹ سے مجھے واپس لوٹا دیا گیا۔ ایس کے سنگھ نے جو چند ماہ بعد صوبہ اروناچل پردیش کے گورنر مقرر ہوئے،امیگریش افسروںکی منت سماجت کی، فون پر وزارت خارجہ اور داخلہ سے بھی رابطہ کیا مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ آج بھی جب مجھے ملک سے باہر جانا ہوتا ہے تو امیگریشن کے کائونٹر پر سوالات کی ایک بوچھاڑ میری منتظر ہوتی ہے۔ کئی بار پاسپورٹ اور ویزے کی جانچ ہوتی ہے۔ ہر صفحے کی فوٹو کاپیاں لی جاتی ہیں۔ اہلکار اپنے سینئرافسروں سے فون پر رابطہ کرتے ہیں اور صبر آزما لمحات کے بعد امیگریش کا دریا پارکرنے کی اجازت ملتی ہے۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل 2008ء تا 2010ء اور پھر 2013ء میں افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے کے دنوں میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی فورسز‘ عسکری تنظیموں اور حکومت نواز تائب جنگجوئوںکے درمیان انہیں چکی کے پاٹوںکی طرح پسنا پڑتا ہے کیونکہ صحافی ہی سب سے آسان شکار ہوتے ہیں۔ حکام کی طرف سے صحافیوںکو کرفیو پاس جاری نہ کرنے اور فورسزکے ذریعے انہیں ہراساں کرنے کی وجہ سے سرینگر سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات کو شورش کے دوران کئی کئی دن اپنی اشاعت بند رکھنی پڑی، لیکن بھارت میں صحافیوں اور اخبارات کی بڑی تنظیموں مثلاً پریس کونسل آف انڈیا‘ ایڈیٹرزگلڈ اوردیگر تنظیموںکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ 1990ء میں عسکری جدوجہد کے آغازسے اب تک تقریباً ایک درجن صحافی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کشمیر میں صحافت کی روح کو زندہ و تابندہ رکھنے والے ان صحافیوںکو ایک آدھ واقعات کے سوا قومی اور بین الاقوامی صحافتی برادری کی طرف سے بھی نظر اندازکیا جاتا رہا۔ پولیس اور سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں فرضی انکائونٹرز میں بے گناہ شہریوں کے قتل کے متعدد واقعات ان دنوں سامنے آرہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جبراً لاپتہ کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو1989ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمد صادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ''تکبیر‘‘ میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ان کی بیوی اور بچے آج بھی ان کے منتظر ہیں اور بد حال زندگی بسر کرنے کی زندہ تصویر ہیں۔ عسکری تنظیموں کی طرف سے میڈیا کو دھمکیاں دینے‘ صحافیوںکو اغوا کرنے اور اخبارات کی اشاعت بند کرانے کے بے شمار واقعات ہیں۔ حکومت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی۔ 1990ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ معروف صحافی شجاعت بخاری کو کئی بار نامعلوم بندوق برداروں نے اغوا کیا۔ 2010ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے ان کے اخبار رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموںگریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمزکے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔ وزارت داخلہ کشمیر ٹائمزکے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑی اوراس کی مالی حالت اس قدر خستہ کر دی گئی کہ انہیں سرینگر کا پریس بیچ کر سرکولیشن کم کرنا پڑی۔ فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور ہیں) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر قید میں رہنے کے بعد جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل سے رہا ئی پاسکے۔ حکومت نے انہیں رہا کرنے کے لئے جموں و کشمیر ہائیکورٹ اور قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواستوں پر بھی کان دھرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔کھوکھرکو 2004ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم سافما کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائیکورٹ نے حکومت سے دو مرتبہ کہا کہ کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لئے جائیں، لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
یہ سوال قابل غور ہے کہ انسانی حقوق کی اتنی صریح خلاف ورزی کے باوجود دہلی یا ملک کے دوسرے حصوں میں صحافی برادری میں ہمدردی کی معمولی سی لہر بھی آخر کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ جن معاملات میں عسکریت پسند ملوث رہے ہیں، ان میں صحافیوںکی ہلاکت کی تفتیش میں بھی پولیس نے کبھی دلچسپی نہیں لی۔1991ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ 1989ء میں صادق شلوری کو سی آر پی ایف نے اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ انہیں لاپتہ قرار دے دیا گیا۔ 1992ء میں ایک دوسرے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہائشگاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سر عام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ صحافیوں کو سر عام بے عزت کرنا ‘ سکیورٹی فورسز اور جنگجوگروپوں کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنا معمول ہے۔ ایک اہم سیاسی پارٹی کے رہنما نے ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹر کو صرف اس لئے بھرے بازار میں ننگے پائوں گھومنے پر مجبورکیا کہ اس کے اخبار نے ایک ایسی رپورٹ شائع کردی تھی جس سے پارٹی کے مفادات پر آنچ آتی تھی۔ اسی طرح کی بنیاد پر دو سیاسی جماعتوں نے موقر ہفت روزہ ''چٹان‘‘ کے دفتر پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا تھا۔ تقریباً بیس برس قبل جمو ں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں پھوٹ پڑگئی تھی۔ متحارب دھڑوں نے اخبارات کو مخالف گروپ کی خبریں شائع کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی جس کے بعد کشمیر کے اخبارات گیارہ دنوں تک شائع نہیں ہوئے تھے۔ اسی گروپ کے ایک دھڑے نے حضرت بل کمپلیکس میں صحافیوں کی اس لئے دھنائی کردی تھی کہ وہ پریس کانفرنس میں آدھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچے تھے۔ یہ صحافی اس بات کی دہائی دیتے رہے کہ وہ اپنے ایک ساتھی صحافی کے عزیز کی تدفین کے بعد سیدھے یہاں آرہے ہیں۔کشمیر لائف کے ایڈیٹر مسعود حسین کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ انہیںبھارت نواز تائب جنگجوئوں اور عسکری تنظیموں کی ناراضگی کا شکار ہونا پڑا۔ ایک دہائی قبل حزب المجاہدین نے ان کے خلاف موت کا وارنٹ جاری کیا تھا۔ اس کے دو برس بعد تائب جنگجوئوں کے لیڈر ککا پرے نے بھی ان کا ایسا ہی موت کا وارنٹ جاری کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسعود حسین اب تک حیات ہیں‘ لیکن معلوم نہیں کب تک!
کشمیر میں ہر صحافی کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔ بی بی سی اور رائٹرزکے لئے کام کرنے والے مشہور سینئر صحافی یوسف جمیل کو کئی بار نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ جس پارسل بم سے مشتاق کی موت ہوئی تھی وہ دراصل یوسف جمیل کے لئے ہی بھیجا گیا تھا۔2003ء میں ایک اور معروف صحافی احمد علی فیاض کو بی ایس ایف کے سینئرافسر کی طرف سے دھمکی آمیز فون موصول ہوا تھا۔ افسر نے اپنی شناخت ڈپٹی انسپکٹر جنرل دیس راج بتائی تھی اور فیاض کوگولی سے اڑا دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس سلسلے کی آخری کڑی پرویز سلطان تھے جوایک مقامی نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر تھے۔ عسکری تنظیموں کے دو دھڑوں کے درمیان چپقلش کی خبریں دینے کی پاداش میں انہیںگولیوں سے بھون دیا گیا۔
کشمیر میں پریس کودرپیش سنگین حالات غماز ہیںکہ اگر آج ہمارے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو کل آپ بھی انہی حالات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ آزادی اظہار کے حق کے لئے تعصب، منافرت اور دْہرے معیارکی عینک نہیں لگائی جا سکتی۔ جس طرح سیرل المیڈا کے ایشو پر دنیا کے جمہوری اداروں نے آواز بلند کی، اس کا عشرعشیر بھی کبھی کشمیری صحافیوں کے حصہ میں نہیں آیا۔ آخر یہ جانبداری کب تک؟