26 ستمبر کو جنوبی صوبہ کیرالہ میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح پاکستانی عوام سے مخاطب ہوکر غریبی اور بے روزگاری کے خلاف جنگ میں معاونت کی اپیل کی، لگتا تھا کہ شاید اب دونوں ملکوں کے سیاسی مسائل کے حل کی طرف کوئی پیش قدمی ہوگی اور اس خطے کے اصل اور بنیادی مسائل۔۔۔۔ غربت،جہالت، اقتصادی بدحالی، صحت عامہ اور کرپشن کے خاتمے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے گی۔ مگر 29 ستمبر کی رات مبینہ سرجیکل اسٹرائکس کے بعد جنگی جنون نے یہ تمام امیدیں معدوم کر دیں۔ شاید حکمرانوں کو یہی راس آتا ہے کہ جنگی جنون اور مصنوعی مسائل میں عوام کو اس قدر الجھا کر رکھا جائے کہ وہ اپنے حقوق سے ہی بے پروا ہو جائیں۔ آج کا کارپوریٹ میڈیا بھی زمینی حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے بجائے بڑی حد تک سورس سے حاصل کردہ معلومات پر انحصار کرتا ہے۔ ایسے میں اصل صورت حال کا ادراک کیسے ہو؟ بھارت کے دیہی علاقوں میں جانے، عوام سے ملنے اور زمینی حقائق جاننے کا واحد موقع انتخابات کی کوریج کے دوران ملتا ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب اخبارات کی انتظامیہ زر کثیر صرف کر کے رپورٹروںکو دور دراز علاقوں میں بھیجتی ہے تاکہ عوام کے خیالات معلوم کیے جا سکیں۔ دوسرے لفظوں میں شہروں کی چکا چوند میں رہنے والا انڈیا دیہات میں رہنے والے بھارت کو دریافت کرنے نکل پڑتا ہے۔
2014ء کے عام انتخابات کے دوران جب میرے دفتر میں کوریج کا خاکہ بن رہا تھا تو مجھے بھارت کے اہم سیاسی صوبہ بہارکی رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ تقریباً 20 دن اس صوبے کے طول و عرض کی خاک چھاننے اور 2500 کلومیٹرکا سفر طے کرنے کے بعد ادراک ہوا کہ جمہوریت کی دیوی کے ظہورکے بعد بھی عام آدمی کا کیسے استحصال ہوتا ہے۔ دارالحکومت پٹنہ سے متصل ضلع سمستی پور میں مجھے غربت اور ذات پات کی چکی میں پسے موساہاری طبقے کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ سب سے نچلے درجے کے دلت ہیں۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کھیتوں اورگھروں میں چوہے پکڑ کر اور انہیں بھون
کر کھاتے ہیں۔ پٹنہ سے تقریباً 150کلومیٹر دورجب میں دربھنگہ ضلع میں بی جے پی کے امیدوار اور سابق کرکٹرکرتی آزاد کے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ضلعے کے ایک دور افتادہ علاقے پالی میں اپنی انتخابی مہم پر ہیں اور آئندہ تین دن وہیں رہیں گے۔ میں نے شہر میں قیام کرنے کے بجائے اسی علاقے کی طرف کوچ کیا۔گرد و غبار سے اٹی سڑکوں پر جونہی کسی آبادی کے آثار نمودار ہوتے، دیہاتی بچے اورکتے شور مچاتے گاڑی کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ۔ایک موقعے پر ان سے پیچھا چھڑانے والے تھے کہ ایک ہجوم نے گھیر لیا۔ یہ معلوم ہونے پرکہ دہلی سے ایک صحافی ان کی خیر خبر لینے آیا ہے تو انہوں نے اپنے گائوں کا واحد مسئلہ بجلی کا خراب ٹرانسفارمر بتایا اور اصرار کیا کہ میں اسے ٹھیک کروانے میں ان کی مدد کروں۔ جب اس جلوس کے ہمراہ مجھے ٹرانسفارمر کے پاس لے جا یا گیا تو یہ کسی بھی صورت میں بجلی کا ٹرانسفارمر نہیں لگ رہا تھا ۔ یہ افتاد زمانہ کی شکار لوہے کی کوئی زنگ آلود شیٹ جیسی کوئی چیز تھی۔ پہلے میں نے ان سے بحث کی کہ یہ ٹرانسفارمر نہیں ہے، بعد میں جب میں نے پوچھا کہ یہ کب سے خراب ہے تو پہلے وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، پھر ایک خاتون نے مسئلہ حل کرتے ہوئے کہا، گڈوکی پیدائش کے دوسرے دن ٹرانسفارمر جل گیا تھا۔ اب مجھے گڈوکو دیکھنے کا اشتیاق ہوا کہ یہ قسمت والا بچہ کون ہے جس کے آنے سے گائوںکی بتیاں گل ہوگئیں۔ مجھے توقع تھی کہ یہ کوئی شیر خوار بچہ ہوگا مگر جب ایک ہٹا کٹا نوجوان جو میٹرک میں کئی بار فیل ہونے کے بعد کھیتی باڑی کر رہا تھا، میرے سامنے آکر کھڑا ہوا تو میں حیرت میں ڈوب گیا۔ ٹرانسفارمرکا معمہ اور پیچیدہ ہورہا تھا۔ آخرکریدتے کریدتے معلوم ہوا کہ بارمبورہ کے اس گائوںکی بجلی پچھلے 24 سالوں سے بند ہے۔ ٹرانسفارمر کی مرمت کے لئے انہوں نے ہر دروازے پر دستک دی مگر بے حس عملہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔گائوںکا سرپنچ رام چودھری لوگوںکو لبھا رہا تھا کہ بی جے پی کو ووٹ دے کر نریندر مودی کو وزیر اعظم بنایا جائے تو ٹرانسفارمر ٹھیک ہو جائے گا۔ دیہاتی دہلی سے آئے صحافی سے متواتر تصدیق چاہ رہے تھے کہ کیا واقعی مودی اتنا طاقتور اور با اثر ہے کہ ان کے گھروں کی بتی دوبارہ روشن کرا دے ۔
اس مقام سے 10کلومیٹر دور ایک اور گائوں تومول میں بجلی تو تھی مگر عملے نے کھمبوں کی خریداری کے لئے ملنے والی رقم اپنی جیبوں میں رکھ لی اوربجلی کی تار بانس کے ڈنڈوں سے باندھ دیے ۔ یہ ڈنڈے بھی دیہاتیوں سے ہی وصول کئے گئے تھے۔کئی جگہوں پر یہ برقی تار اتنی پست تھے کہ پچھلے تین برسوں میں متعدد انسانوں اور جانوروں کی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ایک اور گائوں دائودی بجلی کے سب اسٹیشن کے بالکل سامنے ہونے کے باوجود بجلی سے محروم تھا۔ میں نے جب اسٹیشن میں موجود انجینئر سے اس کی وجہ جاننی چاہی تو اس نے بتایا کہ 10سال قبل اس کے پیش رو نے 500 میٹر تار خریدنے کی خاطر فنڈزکے لئے فائل حکام کو روانہ کی تھی مگر ابھی تک اس پر کارروائی نہیں ہوئی۔ پڑوسی ضلع بیگو سرائے کے صاحب پور میں 1984ء میں بجلی آئی تھی مگر اسی سال سیلاب کھمبوں اور تاروں کو بہا کر لے گیا اور30 سال بعد بھی کسی کو یہ کھمبے دوبارہ نصب کرنے اور بجلی بحال کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ سمستی پور میں سماجیات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر دھرمیندرکمار نے جو مختلف یونیورسٹیوںکی خاک چھاننے کے بعد اب اپنے آبائی گائوں واپس آکرکھیتوں کی نگرانی کر رہے تھے، بتایا کہ ایک دن اخبار میں انہوں نے پڑھا کہ ان کے کھیت کے پاس ایک ناکارہ اور زنگ آلود ٹیوب ویل کی مرمت کے لئے حکومت نے رقم خرچ کی ہے۔ جب انہوں نے حق اطلاعات قانون کا استعمال کرکے تفصیلات جاننی چاہی تو معلوم ہوا کہ پچھلے آٹھ برسوں کے دوران متواتر سرکاری فائلوں میں اس ٹیوب ویل کی مرمت پر رقوم خرچ ہوتی رہی ہیں۔
بھارت کے ایک ایوارڈ یافتہ تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی حالیہ تصنیف A Feast of Vultures-The Hidden Business of Democracy in India میں کرپشن اور حکومتی بے حسی کا ایسا نقشہ کھنچا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مصنف وہی شخصیت ہے جس نے پچھلے دس سالوں میں مقتدر اخباروں ڈی این اے، ٹائمز آف انڈیا اور دی ہندو سے منسلک ہوتے ہوئے کئی سکینڈلوںکو طشت از بام کیا، جن میں کوئلہ،کامن ویلتھ گیم، ممبئی میں فوجیوں کے نام پربنائی گئی ہائوسنگ سوسائٹی وغیرہ جیسے سکینڈل قابل ذکر ہیں۔ اس صحافی کی تفتیش کا اپوزیشن نے پچھلے عام انتخابات میں بھر پور استعمال کرکے کانگریس کو بد ترین شکست سے دوچار کیا۔کتاب میں کئی واقعات کے حوالے سے بتایا گیا کہ کس طرح جمہوریت اب ایک سراب میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس کی آڑ میں کاروباری گھرانوں نے حکومت کو لونڈی بنا کر رکھا ہوا ہے۔کتاب سیاستدانوں، قومی میڈیا اور دفاعی تجزیہ کاروں پر ایک کاری وار ہے جو قوم کو مباحثوں میں الجھا کر ان کو اصل مسائل کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتے۔ بھارت کے ساڑھے چھ لاکھ دیہات میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو محصور سمجھتے ہیں۔ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی وہاںگورننس چھوکر بھی نہیں گزری۔ حکومتی ادارے عوام کے مسائل کا مداوا کرنے کے بجائے کرپشن اور بے حسی کی علامتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ جوزف کے مطابق بھارت کی عدالتوں میں اتنے کیسز زیر التوا ہیںکہ موجودہ عدالتی ڈھانچے کو ان کے فیصلے کرنے کے لئے 320 سال درکار ہیں۔ کتاب میں تفصیل کے ساتھ واقعات درج ہیں کہ کس طرح بزنس گھرانوں نے کامگریس اور بی جے پی کی حکومتوںکو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ سیاست اور صحافت کے طالب علموں کے لئے یہ کتاب کسی نعمت سے کم نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نظام چرمرا رہا ہے۔ انگریزوں کے دیے ہوئے ویسٹ منسٹر سسٹم نے ذات پات، فرقہ بندیوںکو اور بھی شہ دی ہے۔ جب پارلیمنٹ میں حکومت سازی کے لئے سیاسی پارٹی کو51 فیصد منتخب ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے تو اس رکن کے لئے بھی51 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہونا چاہیے۔
بھارت میں حکمران بی جے پی نے گزشتہ عام انتخابات میں31 فیصد ووٹ حاصل کرکے اکثریت حاصل کی جبکہ 69 فیصد ووٹ ان کے خلاف پڑے۔ آخر یہ کیسا نمائندہ کردارہے؟ اس صورت میں جبکہ پارلیمان اور اسمبلی کے لئے قسمت آزمائی کرنے والے امیدوار کو معلوم ہے کہ اس کو جیتنے کے لئے صرف 20 تا 30 فیصد ووٹ درکار ہیں تو وہ صرف چند ذاتوں اور فرقوں کو لبھاتا ہے، بلکہ ان کو دیگر فرقوں کے خلاف اکسا کر ووٹ حاصل کر لیتا ہے۔ بھارت میں گائے، مسلمان اور پاکستان کا ایشو اٹھا کر ووٹ حاصل کرنا ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔ ووٹنگ کے دوسرے دور یا 51 فیصد بیلٹ حاصل کرنے کی صورت میں ان کو مہم کا دائرہ وسیع کرکے دیگر طبقوںکی مراعات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ امید تھی کی21 ویں صدی میں سپر پاور بننے کی دوڑ میں شامل بھارتی حکمران شاید روایتی روش چھوڑکر خطے کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی طرف سنجیدہ کوشش کریں گے تاکہ ایک پر امن ماحول میں خطے کے حقیقی ایشوزکی طرف توجہ مرکوزکرکے عوام کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں لیکن تا حال اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔ آخر اس خطے کے عوام کا لائف اسٹائل یورپ اور دیگر مغربی ممالک کے ہم پلہ کیوں نہ ہو؟ اس مقصد کے لیے مخلص اور مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے والی جرأت مند اور سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے،مگر یہ شاید صرف ایک دیوانے کا خواب ہے۔ آخری اطلاعات ملنے تک بہارکے بارمبورہ کے باسی اب بھی کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے باوجود بجلی کا خراب ٹرانسفارمر ان کا منہ چڑا رہا ہے۔