کچھ عرصہ قبل بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے خاصی جرأت مندی کا مظاہرہ کرکے اپنے دفتر میں کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔ مقررین میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت نے کشمیر کی صورت حال اور اس کے حل کے سلسلے میں بھارتی مسلم راہنمائوں کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کالم نگار نے مسئلہ کشمیر اور متعلقہ مسائل کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے نومبر1947ء میں جموں میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر چھیڑا تو سامعین میں موجود زعماء بھی حیران ہوگئے اور مجھ سے اس کے حوالے اور ذرائع پوچھنے لگے۔ راقم نے دی ٹائمز آف لندن کی 10اگست 1948ء کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں دو لاکھ37 ہزار افراد کے قتل کاذکر ہے تو سبھی کا یہی سوال تھا کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام معلومات سے کیسے یکسر غائب ہے۔ پچھلے سال کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ایئر اور معروف صحافی سعید نقوی نے جب اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو بھارت کے کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پا رہا۔ اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1947ء میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 32 لاکھ اور ہندوئوں کی آٹھ لاکھ تھی۔ وادی کشمیر میں 93 فیصد جبکہ جموں میں 69 فیصد مسلم آبادی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثریتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق اس خطے میں مسلم آباد ی کا تناسب 33.45 فیصد ہے۔
جموں کشمیر کی جدید صحافت، انگریزی اخبار کشمیر ٹائمزکے بانی اور مورخ آنجہانی وید بھسین 1947ء کے واقعات اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دیدگواہ تھے۔ ان کے ساتھ چند لمحوں کی گفتگو میں ہی ایسے دریچے کھل جاتے تھے جو کتابوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ بقول ان کے ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اس علاقے میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروںکی مشق کرائی جاتی
تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں 19سالہ وید بھسین پرنس آف ویلزکالج جموں کے طالب علم تھے۔ وہ کہتے تھے: '' دوسرے ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہوگیا۔ اس کو روکنے کے لئے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ میں مہاراجہ کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناتے ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔ بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔ راقم نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر ایڈمنسٹریشن کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، انہوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخرکیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا: '' فرقہ وارانہ فسادات 15 اگست سے پہلے ہی شروع ہو چکے تھے‘ مگر منظم قتل عام اور بسو ں اور ٹرکوں سے لوگوں کو اتار اتار کر مارنے کا سلسلہ نومبر میں شروع ہوا، جب زمام اقتدار پوری طرح شیخ صاحب کے ہاتھوں میں تھی۔ ہم نے کئی بار ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا‘ مگر وہ سنی ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھیڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے‘‘۔ ان واقعات کی ورق گردانی کرتے ہوئے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے وید جی کی آنکھوں میں تیرتی
ہوئی نمی واضح نظر آتی تھی۔ تقریباً نصف صدی بعد بھارت کے ایک مشہور کالم نگار خشونت سنگھ نے 'ہندوستان ٹائمز‘ میں مہاجن کی متعصب ذہنیت کے بارے میں کئی اور انکشافات بھی کیے۔ مہاجن بعد میں بھارت کے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہو گئے تھے۔ خشونت سنگھ کے مطابق مہاجن نہ صرف مسلم مخالف تھے بلکہ سکھوں سے بھی اس کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ خالد بشیر کا کہنا ہے کہ مسلم کش فسادات کے سلسلے کا آغاز تقسیم سے پہلے ہی ہوگیا تھا اور کشمیر میں قبائلیوں کے داخل ہونے سے قبل ہی مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا گیا تھا۔ اس لئے مورخین کا یہ کہنا کہ وادی میں
قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے‘ درست نہیں ہے کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں۔کشمیر کے اس معروف بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردارادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیلدار اودھے سنگھ اور مہاراجہ کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیر فقیر سنگھ خود اس قتل عام کی نگرانی کر رہے تھے۔
شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات 'آتش چنار‘ میں لکھا ہے کہ جب کشمیر ی مسلمان اس دورِ پر آشوب میں پنڈتوں کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا رہے تھے، مہاراجہ ہر ی سنگھ جموں میں آگ بھڑکا رہا تھا۔ سرینگر سے بھاگ کر جب سفر کی تکان اتارنے کے لئے شاہراہ کے کنارے وہ رام بن کے قریب ایک ریسٹ ہائوس میں پہنچا، تو شومئی قسمت، چائے پیش کرنے والا بیرا مسلمان تھا اور اس کے سر پر رومی ٹوپی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی مہاراجہ کے منہ کا مزہ بگڑ گیا اور اس نے چائے پینے سے انکار کردیا۔ جموں میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے بعد مہاراجہ اور مہارانی تارا دیوی کی نظریں وادی چناب پر لگی ہوئی تھیں، مگر کرنل عدالت خان اور اس کی ملیشیا نے بہادری اور دانشمندی سے وہاں آگ کے شعلے بجھا دیے۔ بقول شیخ عبداللہ، مہارانی تارا دیوی ایک پر اسرار کردار راج گرو سوامی ست دیوکے زیر اثر تھی۔ بعض ست دیوکوکشمیر کا راسپوتین کہتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت راج محل کی خواتین سے گھرا رہتا تھا۔ اسی کے مشورہ سے مہاراجہ نے پنجاب سول سروسزکے ایک ریٹائرڈ اور متعصب افسر رام لال بترہ کو نائب وزیر اعظم مقرر کیا، جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اس وقت تک جواہر لال نہرو کی ایما پر شیخ عبداللہ کو انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا جا چکا تھا، مگر اس کی رٹ کشمیر وادی تک ہی محدود تھی۔ اس نے مہاراجہ کے اعزہ و اقارب اور چند سکھ خاندان جو سرینگر میں رہ گئے تھے کو جموں پہنچانے کے لئے جنوبی کشمیر کے بائیس ٹانگہ بانوں کو آمادہ کیا، مگر یہ نیکی ان کے لئے وبال جان بن گئی۔ واپسی پر نگروٹہ کے مقام پرہندو انتہاپسند ٹولی نے ان کے ٹانگے چھین لیے اور پھر انہیں بے دردی سے قتل کر ڈالا۔
جموں خطہ کے موجودہ حالات وکوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نومبر1947ء کا واقعہ پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ کابینہ کے رکن چودھری لال سنگھ نے ایک مسلم وفد کو 47ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس خطہ کے دو مسلم اکثریتی علاقہ چناب ویلی، جس میں ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑکے اضلاع شامل ہیں اور پیر پنچال جو پونچھ اور راجوری اضلاع پر مشتمل ہیں، ہندو فرقہ پرستوںکی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک منصوبہ بند طریقے سے راجوڑی‘ کشتواڑ‘ بھدر واہ کے د یہاتی علاقوں میں فرقہ جاتی منافرت کا ماحول پیدا کرایا جا رہا ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے مقتدر رہنما اندریش کمار تو تقریباً اس
خطے میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں‘ جن سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ بھی ہوچکی ہے۔ ڈوڈہ میں حال ہی میں اس وقت بڑی ہڑبونگ مچی کہ جب سنگھ کے کارکنوںنے اپنی روایتی خاکی نیکر، سفید قمیص اور سیاہ ٹوپی، جسے ''گنویش‘‘ کہا جاتا ہے میں ملبوس ہوکر مارچ کیا۔ اس موقع پر اسلحہ اور تلواروں کا کھلے عام مظاہرہ کیے جانے کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے والی نعرہ بازی بھی کی گئی۔ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے نام پر ایک دہائی قبل اس ایریا میں ہندو دیہاتیوں کو ویلج ڈیفینس کمیٹی کا نام دیکر مسلح کیا گیا تھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب آئے دن دیہاتوں میں مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے تاکہ آئندہ کسی وقت 47ء کو دہرا کر اس آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جاسکے اور جموں خطے کو پوری طرح مسلمانوں سے پاک و صاف کرایا جائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت جو مہاتما گاندھی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا بھر میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگرکرنے کی کوشش کرتی ہے کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ''ہندوستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ ہندوستان مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔ اگر ہندوستان کشمیرکے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا تو ساری دنیا میں اسکی شبیہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ بقول شیخ عبداللہ،گاندھی کہتے تھے کہ کشمیرکی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سارا برصغیر اس کی آگ کے شعلوںکی لپیٹ میں آ جائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔