بھارت نے اپنی غلط فہمی کی بنیاد پر ساری زندگی اپنے ہمسایوں سے جنگیں لڑیں اور اکثر مارکھائی۔ کسی بھی جنگ میں وہ ٹھہر نہیں سکا۔ بھارت کی 1962ء میں علاقائی سرحدی تنازع پر چین کے ساتھ جنگ ہوئی۔ چین نے یہ جنگ جیتی اور اقصائے چن سمیت 32ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا۔ انڈین بریگیڈ کمانڈر کو گرفتار کرکے چینی فوج آندھی اور طوفان کی طرح بھارتی علاقوں میں گھس گئی۔ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اس جنگ میں یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کیا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کے ذریعے پاکستان سے سیز فائر کی بھیک مانگی۔ یہ امر مودی کی سیاسی موت کے مترادف ہے۔ نامور اینگلو انڈین صحافی اور قلمکار فرینک موریس نے اپنی کتاب ''Witness to an Era‘‘ میں 1962ء کی چین بھارت جنگ کے اثرات ونتائج پر بلیغ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ''27 مئی 1964ء کو جب بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا دہلی میں انتقال ہوا تو بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے مجھے بتایا کہ نہرو حقیقت میں دو سال پہلے مر گئے تھے۔ ان کی موت اسی روز ہو گئی تھی جب چین نے ہماری سرحد پار کی تھی‘‘۔
بھارت ہر تین ‘چار سال بعد چین سے جوتے کھاتا ہے لیکن شرارت کرنے سے باز نہیں آتا۔ قریب پانچ برس قبل لداخ میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد قیام امن کیلئے ہونے والے مذاکرات میں چین کا اصرار تھا کہ مذاکرات اس کی شرائط پر ہوں گے اور وہ زیر قبضہ علاقوں سے دستبردار نہیں ہو گا۔چین کی موجودہ تزویراتی سوچ اور 1962ء جنگ کے محرکات میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے چین‘ بھارت سرحدی تنازعات کی تاریخ اور پس منظر جاننا ضروری ہے۔
دنیا میں ایک خطرناک بات یہ ہے کہ جب کوئی بندہ مشہور ہو جاتا ہے‘ جیسے نریندرمودی تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں‘ تو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں جب بھی جنگ ہوتی ہے تو عموماً انہی وجوہات پر ہوتی ہے۔ دنیا میں اس وقت تین آدمی اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں؛ نریندر مودی‘ ولادیمر پوتن اور شی جن پنگ۔ پوتن نے یوکرین میں آگ لگائی۔ البتہ صدر شی جن پنگ بہت سمجھدار لیڈر ہیں۔ چین کی تائیوان کے ساتھ جنگ کا خطرہ تھا مگر چین نے یہ معاملہ کسی مناسب وقت پر چھوڑ رکھا ہے۔
بھارت دراصل ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک ہے‘ جس کی اتنی زیادہ ریاستیں ہیں‘ اتنی زیادہ زبانیں اور اتنی زیادہ آبادی کہ ڈر ہے کہ یہ پھٹ نہ پڑے۔ اگر یہ پھٹتا ہے تو یہ کس کے اوپر پھٹے گا؟ چین کے اوپر؟ نہیں! مدہوشی یا بے ہوشی میں بھی کوئی تگڑے کو ہاتھ نہیں لگاتا بلکہ اپنے سے کمزور پر چڑھ دوڑتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ پاکستان کمزور نہیں ہے‘ ہم اپنی حماقتوں کی وجہ سے خود کمزور ہو گئے ہوں تو الگ بات۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے خود کہہ دیا تھا کہ ہم لڑنے کے قابل نہیں اور بھارت نے اپنی خوش فہمی میں اسے درست بھی مان لیا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے معاشی میدان میں بہت ترقی کی ہے‘ وہ سترہ ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر کے چاند پر پہنچ گیا‘640 ارب ڈالر اس کے خزانے میں پڑے ہیں۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ قوم کو اپنے لیڈر کے اوپر اعتماد ہونا چاہیے‘ بھارت کے لوگوں کو مودی پر بہت زیادہ اعتماد تھا اور وہ اپنے آپ کو بہت برترسمجھ رہا تھا۔ وہ جو ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
برتری کے ثبوت کی خاطر؍ خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو ؍ گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
وزیراعظم مودی تو ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا تھا کہ ہم چین اور پاکستان کے ساتھ اکٹھے بھی لڑ سکتے ہیں لیکن جیسے میں نے پچھلے کالم میں لکھا کہ یہ بھارت کی غلط فہمی تھی‘ جو بڑی حد تک دور ہوگئی ہے اور اب خطے میں طاقت کا جو عدم توازن تھا‘ وہ بڑی حد تک ٹھیک ہو گیا ہے۔ نریندر مودی سمیت بھارت کے دیگر رہنمائوں کی حالت اس وقت اُس زخمی سانپ کی سی ہے جو اپنے زخم بھی چاٹ رہا ہے اور پھنکار بھی رہا ہے۔ بھارتی حکومت اور سیاستدانوں کیلئے اپنے عوام‘ خاص طور پر آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کا سامناکرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان پر بہت زیادہ سیاسی اور سماجی دبائو ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف دوبارہ جنگ کے بیانات مسلسل داغ رہے ہیں‘ ہرزہ سرائی کر رہے اور گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ جنگ کے تجربے سے لگتا ہے کہ وہ پاکستان پر دوبارہ حملے کی حماقت نہیں کریں گے‘ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اب جنگ نہیں ہو گی کیونکہ خدا نخواستہ دوبارہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو پھر یہ ایک انتہائی تباہ کن اور بہت خطرناک جنگ ہو گی۔ بھارت کو ایک بات ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ خدا نخواستہ پاک بھارت ایٹمی جنگ ہوئی تو ہر دو صورت میں دونوں ملک دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں گے۔لیکن پاکستان کے علاوہ بھی پچاس سے زائد مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں ‘ مگر شاید ہندوازم کا نام لینے والا صفحہ ہستی پر کوئی نہیں رہے گا۔
اس لیے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں؍ شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
اگست 1945ء میں جونہی جاپان کے شہر ہیرو شیما میں ایٹم بم پھٹا تو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں شہر کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا۔ یہ درجہ حرارت رہا تو چند لمحوں کے لیے تھا لیکن پورا ہیروشیما شہر اور مضافات میں تمام جاندار جل کر خاکستر ہو گئے‘ حتیٰ کہ عمارتیں تک پگھل گئیں۔ ایٹم بم پھٹنے کے بعد چند سیکنڈوں میں تقریباً ایک لاکھ انسان بھاپ اور دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ہیروشیما میں بسنے والے تمام جاندار صفحہ ہستی سے مٹ گئے‘ جو افراد بچے تھے وہ مرنے کی خواہش کر رہے تھے۔ جو ایٹم بم ہیروشیما پر پھینکا گیا اُس سے درجہ حرارت 4000 ڈگری پر پہنچا تھا لیکن اسوقت پاکستان اور بھارت کے پاس جو نیوکلیئر بم موجود ہیں وہ 25 ہزار سے 40 ہزار ڈگری کی گرمی پیدا کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ گیم محض چند سیکنڈز کی ہوگی اور کرۂ ارض کے میدانوں میں‘ صحرائوں میں‘ جنگلوں میں‘ پہاڑوں میں‘ سمندروں اور دریائوں میں کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گا۔ کسی کی فتح دکھانے کیلئے کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہو گی۔ نہ تو کوئی دکھانے والا ہو گا اور نہ ہی دیکھنے والا۔ ساحر لدھیانوی نے ٹھیک کہا تھا:
خون اپنا ہو یا پرایا ہو؍ نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں؍ امنِ عالم کا خون ہے آخر
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگ خود ہی ایک سنگین مسئلہ ہے اور بہت سے جرائم اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی مگر اس کے باوجود جنگیں ہوتی رہی ہیں‘ جنگوں سے مسئلوں کا حل تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ پاک بھار ت متنازع معاملات مذاکرات کی میز پر حل نہیں ہو سکتے اور اس کے لیے جنگ ضروری ہے مگر مذاکرات پر جنگ کو ترجیح دینا باعثِ حیرت ہی نہیں‘ المناک بھی ہے۔ جنگ میں انسانی جانوں کا ضیاع انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس ضیاع کو روکا جانا چاہیے مگر حد تو یہ ہے کہ جنگ کے بعد بھی دنیا کی طرف سے اسے روکنے کی زیادہ سنجیدہ کوششیں نہیں ہو رہیں۔ جنگ کی آگ پھیلتی ہے تو پھر پھیلتی ہی چلی جاتی ہے‘ اس کا نظارہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں دنیا دیکھ چکی ہے۔ چنانچہ جنگ کا ماحول جتنی جلدی ختم ہو‘ اتنا ہی انسانوں اور معیشت کے مفاد میں ہے۔ ورنہ آگ‘ خون‘ بھوک اور محتاجی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔