حکومت نے ایک گھر میں دوسرا بجلی میٹر لگوانے کیلئے نئے نیپرا رولز جاری کر دیے ہیں جن کے مطابق ایک گھر میں دوسرا سنگل فیز میٹر لگوانے کیلئے الگ پورشن‘ الگ داخلی راستہ اور الگ کچن ہونا ضروری ہے۔ جب اس طرح کے فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس سے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو اس ملک کی 80 فیصد آبادی‘ جو غریب اور لوئر مڈل کلاس طبقے پر مشتمل ہے‘ کے مسائل معلوم ہی نہیں۔ حکومت کرنے والے اور پارلیمنٹ میں بیٹھے نوے فیصد لوگ خاندانی سیاستدان اور جدی پشتی امیر ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ہمارے وطنِ عزیز میں عوام کی بہت بڑی آبادی مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی گزار تی ہے۔ ایک غریب‘ درویش اور ملنگ ساغر صدیقی اسی بات کا رونا عمر بھر روتے رہے:
کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو
خزاں کے پتوں کی جھانجھنوں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے
مجھے یہ بتانے میں کوئی عار نہیں بلکہ فخر ہے کہ میں بنیادی طور پر ایک دیہاتی ہوں اور بطور چیئرمین یونین کونسل بلدیاتی سسٹم کا حصہ رہا ہوں۔ اپنے علاقے کے لوگوں کے گھریلو جھگڑوں میں بطور ثالث کردار ادا کرتا رہا ہوں‘ اس لیے گاؤں کے مشترکہ خاندانی نظام کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ کوئی خاندانی روایات یا محبت وغیرہ نہیں بلکہ مالی حالات ہیں کیونکہ الگ الگ گھر بنا نہیں سکتے۔ باپ کی وراثت میں ایک گھر ملتا ہے‘ اسی میں سب بھائی رہتے ہیں‘ فیملی بڑھتی جاتی ہے‘ گھر چھوٹا پڑتا جاتا ہے مگر کوئی بھی نکلنے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ برداشت نہیں ہوتا۔ مگر اس ایک گھر میں جس کا ایک مرکزی دروازہ ہوتا ہے‘ سب کا کھانا پینا الگ الگ ہوتا ہے۔ گھر اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ الگ الگ دروازے رکھے جائیں یا الگ الگ کچن بنائے جائیں۔ ایک بھائی کی فیملی نے کمرے میں چولہا رکھا ہوتا ہے‘ دوسرے نے صحن میں اورکوئی برآمدے میں کچن بنا کر گزارہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک یا دو واش روم ہوتے ہیں جو گھر کے سبھی افراد استعمال کرتے ہیں۔ ایک ایک کمرہ سب ذیلی کنبوں کو ملا ہوتا ہے اور کسی کو اوپر چوبارے میں ایک کمرہ دیا ہوتا ہے۔ غرض وہ ان گھروں میں ایسے ہی ایڈجسٹ ہوئے ہوتے ہیں جیسے فارمی مرغیاں ایک چھوٹے سے ڈربے میں ٹھسی ہوتی ہیں۔
پہلے جب بجلی کسی حد تک سستی تھی اور بجلی کے بلوں کا اتنا مسئلہ نہیں تھا تو بجلی کا ایک میٹر ہوتا تھا اور بل کو سب بھائیوں پر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ پھر بجلی کے ریٹ ایسے بڑھے جیسے بجلی زندگی کی قیمت ہے تو ان گھروں میں بجلی کے بل پر لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔ ہر کوئی دوسرے کو کہتا کہ تمہارا بجلی کا استعمال زیادہ ہے‘ تم استری زیادہ چلاتے‘ تم پانی کا پمپ زیادہ چلاتے‘ تمہارا پنکھا بہت چلتا ہے‘ ایئر کنڈیشنر اور روم کولر تو خیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا‘ یہ طبقہ اس قابل ہی نہیں ہوتا۔ لڑائی جھگڑے اتنے بڑھے کہ بھائی نے بھائی کا گریبان پکڑ لیا۔ خواتین میں ہر وقت نوک جھونک رہنے لگی۔ پھر یہ طے ہوا کہ بجلی کے میٹر الگ کیے جائیں‘ گھر تو الگ کر نہیں سکتے تھے‘ جیسے تیسے ان غریبوں نے الگ میٹر لگوا لیے۔ الگ گھر کس طرح بناتے ان پر معیشت اس قدر تنگ ہے کہ دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنا ان کیلئے ناممکن ہے۔ اوپر سے ہمارے حکمران غریب عوام کے زخموں پر ریلیف کا مرہم رکھنے کے بجائے مہنگائی کا نمک چھڑکتے رہتے ہیں۔
اب ہماری حکمران کلاس نے فیصلہ کیا ہے کہ رہائشی جگہ پر دوسرا بجلی کا میٹر صرف مروجہ قوانین کے تحت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ترجمان پاور ڈویژن کے مطابق ایسی رہائشی جگہ جو علیحدہ پورشن‘ سرکٹ‘ داخلی راستہ‘ علیحدہ کچن پر مشتمل ہو وہاں علیحدہ میٹر کی تنصیب کی اجازت ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بجلی کے ناجائز استعمال‘ سبسڈی کے غلط فائدے کو روکنے کیلئے قانون پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی مکمل طور پر نافذ العمل ہے۔ اب یہ بتائیں کہ ایک میٹر پر تو 200 یونٹ سے 201 ہو تو بجلی کا بل سیدھا دو ہزار سے آٹھ ہزار پر چلا جاتا ہے۔ اس طرح تو مہنگائی کے ہاتھوں یہ غریب مارے جائیں گے۔ میں کوئی شاعر تو نہیں لیکن جب غریب آدمی پر ظلم ہوتا دیکھتا ہوں تو جذبات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا‘ اسی عالم میں یہ اشعار ہو گئے:
کیسے کیسے‘ بے سہارے لوگ مارے جائیں گے
مہنگائی کے ہاتھوں ہمارے لوگ مارے جائیں گے
سردیوں میں تو بچ گئے ہیں اب گرمیوں میں دیکھنا
بجلی کے بلوں سے بیچارے لوگ مارے جائیں گے
دوسری طرف اگر کوئی بھائی اکیلا رہ رہا ہے تو اس نے اپنی گزر بسر کیلئے مکان کا کچھ حصہ یا بیٹھک وغیرہ کوکرایے پر دے رکھا ہے اور کرایہ دار کا مطالبہ ہے کہ اسے الگ میٹر لگوا کر دیا جائے۔ اس مجبوری کے باعث غریب عوام نے دو دو میٹر لگوا رکھے ہیں۔ اب اگر حکمران چاہتے ہیں کہ کوئی غریب آدمی اس برائے نام سبسڈی سے بھی جائز فائدہ نہ اٹھا سکے تو ان کی مرضی‘ جو چاہے ان کا ''حکم‘‘ کرشمہ ساز کرے۔ اگر یہ ڈبل میٹر پالیسی حکومت نے امیر طبقے کیلئے نافذ کی ہے تو جناب وہ تو کب سے سولر پر چلے گئے‘ کچھ جو رہ گئے وہ اب چلے جائیں گے۔ مرے گا کون؟ غریب اور لوئر مڈل کلاس۔ آپ کی اس طبقے سے دشمنی کیا ہے؟ کیا ان کو جانوروں والی زندگی گزارنے کا بھی حق نہیں؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ مانا آپ ان میں سے نہیں ہیں مگر آپ ان کی نمائندگی کا دعویٰ تو کرتے ہیں‘ کچھ اسی کا بھرم رکھ لیں ورنہ ڈکلیئر کریں کہ یہ سرمایہ دارانہ ریاست صرف امرا اور حکمران طبقے کیلئے ہے‘ یہ کوئی اسلامی جمہوری تو کیا فلاحی ریاست بھی نہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ایک فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے‘ اس کا یقینا ہمارے حکمرانوں کو علم تک نہیں ہوگا کیونکہ جب وہ کینیڈا اور نیوزی لینڈ جیسی کسی فلاحی ریاست کا دورہ کرتے ہیں تو وہ ان کے فلاحی سسٹم کو دیکھنے کے بجائے قومی خزانے کی خطیر رقم خرچ کر کے صرف سیر سپاٹے کرکے واپس آ جاتے ہیں۔ اس طرح قوم کی امیدوں‘ امنگوں‘ آرزوؤں کو خاک میں ملا کر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
وفاقی حکومت نے حالیہ بجٹ سے قبل ہی چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ پانچ‘ چھ سو فیصد تک بڑھا دی ہے۔ وزرا اور اراکینِ پارلیمنٹ و سینیٹ کی تنخواہیں چند ماہ پہلے ہی بڑھائی جا چکیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے مزدور کی کم از کم تنخواہ 37 ہزار سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے کرنے کا مطالبہ کیا گیا‘ لیکن پچاس ہزار روپے میں بھی ایک غریب گھر کا بجٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر حکمرانوں اور ججوں کی تنخواہوں میں بیک جنبش قلم لاکھوں روپے اضافہ ہو سکتا ہے تو مزدور کی کم از کم تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ کم از کم ایک تولہ سونے کے برابر ہونی چاہیے اور یہ فارمولا مستقل طور پر اپنانا چاہیے۔ اس طرح ایک مزدور بھی عزت کے ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکے گا۔
بجٹ میں پنشنرز کی پنشن اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی سات سے دس فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے لیکن ایک مزدورکی کم از کم اجرت میں ایک ٹکے کا اضافہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اس کی کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ہی برقرار رکھی گئی ہے۔ الحمدللہ میرے دفتر میں کام کرنے والے خاکروب کی تنخواہ بھی 37 ہزارکے بجائے 40 ہزار روپے ہے۔ خاکسار نے تو شکوہِ ظلمتِ شب کے بجائے اپنے حصے کی شمع جلا دی ہے۔ اللہ پاک ہمارے حکمرانوں کے دل میں رحم ڈالے اور وہ اپنی تنخواہیں لاکھوں روپے بڑھانے کے ساتھ غریب مزدور کی اجرت میں بھی لاکھ نہ سہی‘ چند ہزارکا اضافہ ہی کر دیں۔ یا پھر ہم یہ معاملہ اس قادر وعادل پر ہی چھوڑ دیں؟ حضرت علامہ اقبال نے بھی یہی شکوہ کیا تھا:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات