سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد ملک کی ترقی وخوشحالی اورعوام کی خدمت ہوتا ہے۔ فلاحی ریاستیں عوام کی عزت اور جان ومال کی حفاظت کرتی ہیں۔ عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً روزگار‘ صحت اور تعلیم کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے‘ لیکن اگر اس امر کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔ عوام کو روٹی‘ کپڑا ‘ مکان اور روزگار دینے کے عوامی نعرے اور لارے تو ضرور لگائے گئے لیکن آج تک ان نعروں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا‘ بلکہ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے ذریعے غربت کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے ملک کی حالت کیا بدلنا تھی یہ عوام کی حالت بھی نہیں بدل سکے۔ البتہ ان کی اپنی حالت ضرور بدل گئی۔ ایک عوامی لیڈر نے تو عام آدمی کی حالت بدلنے کے چکر میں ملک کی ترقی پذیر اور پھلتی پھولتی صنعتوں کو برباد کرکے رکھ دیا‘ جو پھر کبھی سنبھل نہیں سکیں۔ بیکو‘ پیکو اور اتفاق فاؤنڈری جیسے کامیاب ادارے ختم ہو کر رہ گئے۔ کاروباری خاندان سیاست میں آ گئے اور سیاست کو کاروبار بنا لیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ملک اور عوام کی یہ حالت نہ ہوتی۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں ملک ترقی کر رہے ہیں اور عوام خوشحال ہیں تو اس کا کریڈٹ وہاں کی سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے۔ ملکی استحکام کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پاکستان اگر آج تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا اور اس ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام نہیں آ سکا تو اس کی ذمہ دارہماری نام نہاد سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے و الی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی قیادت کے پاس کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا‘ یہاں تک کہ اس کے پاس یہ روڈ میپ بھی نہیں تھا کہ ملک میں کون سا نظام حکومت ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی ملک اور عوام کیلئے کام نہیں کر رہی بلکہ اُس کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ اب یہ بات ہر پاکستانی پر عیاں ہو چکی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا بنیادی اور اولین مقصد عوامی خدمت کی بجائے اقتدار حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہیں‘ چاہے اس کیلئے انہیں کوئی بھی طریقہ اختیارکرنا پڑے۔ یہ جماعتیں اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو عام لوگوں کی فلاح و بہبود پر ترجیح دیتی ہیں۔ وہ ایسے فیصلے کرتی ہیں جو ان کے ذاتی فائدے میں ہوں‘ چاہے اس سے ملک وقوم کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے حامیوں کو نوازتیں اور ان کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں۔ اور اکثر سچائی اور شفافیت سے گریز کرتی ہیں۔ وہ حقائق کو چھپاتی ہیں اور عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔ پاکستان میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ملک اور عوام کے مسائل سے بے نیاز ہیں۔ اس لیے وہ عام لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں لگی ہوئی ہیں۔ کسی نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ میرے دیس کے کوچے کوچے میں مفاد آوارہ پھرتا ہے۔
اصل میں اب نظریاتی سیاست پر ذاتی مفاداتی سیاست حاوی ہو چکی ہے اور ایسے لوگوں کا نظریہ صرف اور صرف سیاسی اور ذاتی مفاد بن چکا ہے۔ اپنے مفاد کیلئے قاتل لیگ قرار دی جانے والی پارٹی کو بھی شریک اقتدار کیا جا سکتا ہے‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قومی رہنما بھی نظریاتی نہیں بلکہ ذاتی اور مفاد پرستی کی سیاست کر رہے ہیں۔ مرحوم شورش کاشمیری نے ٹھیک کہا تھا:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
بلاشبہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں مفاد پرست گروہوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی آدمی اپنی جماعت کے سربراہ سے اختلاف کی جرأت نہیں کرتا بلکہ اس کی ہاں میں ہاں ملانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہوتا ہے۔ آج تک کسی سیاستدان کو توفیق نہیں ہوئی کہ عوامی اور ملکی مفاد کے خلاف اپنے لیڈر کے کسی بڑے فیصلے پر تنقید کر سکے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ کسی طرح بھی ملکی اور عوامی مفاد میں نہیں تھا لیکن کسی سیاسی رہنما نے اپنے لیڈرکے سامنے زبان تک نہیں کھولی۔ ساہیوال کول پروجیکٹ پنجاب کیلئے سفید ہاتھی ثابت ہوا ہے‘ لیکن جب یہ مہنگا ترین منصوبہ بنایا جا رہا تھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا اور کوئی عوامی یا ملکی مفاد میں اپنے لیڈر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کو تیار نہیں تھا۔ اسی طرح آئی پی پیز کے ساتھ ملک اور عوام دشمن معاہدے کرتے ہوئے کسی سیاسی لیڈر سے اختلاف کرنا مناسب خیال نہیں کیا گیا اور اس بلنڈر بلکہ گناہ میں ملک کی دونوں بڑی جماعتیں برابر کی شریک ہیں‘ جس کا خمیازہ آج غریب عوام مہنگی بجلی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ جب عمران خان نے پنجاب جیسے اہم اور بڑے صوبے کو بزدار جیسے ناتجربہ کار شخص کے حوالے کیا تو کسی سیاسی رہنما میں اپنے لیڈر سے اختلاف کر نے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ سب کو اپنا اپنا مفاد عزیز تھا ۔ ہر کسی نے اپنا حصہ وصول کرنا تھا اور کیا بھی۔
ہماری نام نہاد سیاسی جماعتیں مافیاز کی آماجگاہیں اور سرپرست ہیں۔ کرپشن کا کوئی بھی سکینڈل آتا ہے تو حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے نام سب سے نمایاں ہوتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کا حقیقت میں سیاست سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کا واحد مقصد بہرطور اقتدار کا حصول ہی دکھائی دیتا ہے ۔ کوئی بھی جماعت کسی قسم کی نظریاتی اساس‘ اہلیت یا پھر کسی طے شدہ بیانیے کے ساتھ اپنی مکمل وابستگی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ یہی نہیں‘ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہ تو کوئی معاشی منشور ہے اور نہ ہی سماجی اور معاشرتی تبدیلی کا کوئی واضح پروگرام ہے۔ دراصل سیاسی جماعتوں ہی نے ہماری سیاست کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ آج کے دور میں تو سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا‘ سیاسی پارٹیاں اقتدار اور مفادات کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔
آج کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک کمزور معیشت ہے جس کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہی اور ادارہ جاتی قوت کی توجہ اس پر نہیں اور ہر شخص اور گروہ محض اپنے اقتدار اور وسائل میں پہلے سے زیادہ حصے کیلئے سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی یا ادارہ جاتی قوت کو ان معاشی مسائل کا بالکل ادراک نہیں جن کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں اور اگر ہے بھی تو وہ ان کا حل نکالنے کیلئے تیار نہیں۔ اب تو یہی کہا جا سکتا ہے۔
سیاست گر بچانی ہے‘ سیاست چھین لو ان سے
وگرنہ اس ریاست کو سیاست مار ڈالے گی
برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت انہوں نے کہا تھا کہ اگر انڈیا کو آزادی مل گئی تو اقتدار بدمعاشوں اور مفت خوروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ہندوستانی لیڈر کم صلاحیت والے اور بھوسے کے آدمی ثابت ہوں گے۔ ان کی زبانیں میٹھی اور دل لالچی ہوں گے۔ وہ اقتدار کیلئے آپس میں لڑیں گے اور بھارت سیاسی جھگڑوں میں گم ہو جائے گا۔ ایک دن آئے گا جب بھارت میں ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگے گا۔اگرچہ چرچل کے ان فقروں کی تصدیق اُن کے ریکارڈ سے نہیں ہو سکی‘ تاہم بھارتیوں کے بجائے پاکستانی لیڈر اس تاثر کو درست ثابت کر رہے ہیں اور آج پاکستان وہیں کھڑا ہے جہاں قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہوئی تھی یا اس کا پٹرول ختم ہوا تھا۔