دنیا بھر کے آزاد ممالک ہر سال شایانِ شان طریقے سے اپنا یومِ آزادی مناتے ہیں۔ ملک عزیز بھی اگست 1947ء میں آزادی کی نعمت سے نوازا گیا اور ہم اپنا جشن آزادی شایان شان طریقے سے مناتے ہیں‘ مگر جب ملک کے حالات دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آزاد مملکت کے عوام آج بھی غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک بنانے والی قیادت کو ملک سنوارنے کے موقع نہ مل سکا اور یہ ایسے طبقات کے ہاتھ میں چلا گیا جنہوں نے اسے نوچ کھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ‘ جس میں نو طبقات؛ سیاستدان‘ سول اور ملٹری بیورو کریسی‘ عدلیہ‘ علما ‘ مشائخ ‘ صنعتکار‘ بزنس مین اور میڈیا شامل ہیں‘ سیاہ وسفید کی مالک بن گئے۔ یہی اشرافیہ آزادی سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہو رہی ہے۔ یہ اشرافیہ مخدوم ہے اور عوام خادم۔ اشرافیہ صرف غریب عوام سے خدمت کرواتی ہے اسے ان غریبوں کے حال کی کوئی خیر خبر نہیں۔ عام آدمی آزادی سے قبل بھی مظلوم ومحکوم تھا آج بھی اس کے حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی انہیں فکرمعاش ستائے رکھتی ہے۔ وہ آزادی کا جشن اسی حال میں مناتے ہیں کہ آزادی کے حقیقی ثمرات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔دوسری جانب مخدوم اشرافیہ ہے کہ جسے ہر آن جشن اور مسرت کا بہانہ مل جاتا ہے۔
امیر اور غریب دنیا کی ہر سوسائٹی اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں‘لیکن وطنِ عزیز کے نظام میں طبقاتی تفریق اور امتیاز بہت ظالمانہ صورت اختیار کر چکاہے۔ ایک طبقہ اتنا امیر ہے کہ ان کے کتوں‘ بلیوں کے ماہانہ اخراجات لاکھوں میں ہیں جبکہ چوبیس گھنٹے ان صاحبان کی خدمت پر مامور غریب ملازم اور خادم کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ تیس‘ چالیس ہزار روپے ہے۔ پچھلے سال میرے ایک دوست مخدوم صاحب اپنے بچوں کے ساتھ نیویارک چلے گئے اور اپنے ملازم کو گھر میں کتوں کی رکھوالی کیلئے چھوڑ گئے۔ ملازم کی بیٹی نے باپ کو فون کرکے پوچھا کہ ابو آپ یوم آزادی پر گھر کیوں نہیں آئے؟ باپ نے جواب دیا: بیٹا میں ڈیوٹی پر ہوں کیونکہ صاحب امریکہ گئے ہوئے ہیں‘ اس لیے میں یوم آزادی پر آپ کے پاس نہیں آ سکا۔ یہ ہے مخدوم اور خادم کا فرق۔
ملکی وسائل لوٹنے وا لوں کے یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور دبئی میں محلات ہیں۔ اور وہ وہاں انہی کو اپنا ملک سمجھ کر وہاں رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اس وقت مخدوموں اور خادموں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک طرف امرت دھارے بہتے ہیں اور دوسری طرف روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ ایک طبقے کو ہر سہولت میسر ہے اور اگر کوئی مشکل ہو تو فوری طور پر قانون سازی ہو جاتی ہے جبکہ دوسرا طبقہ ایک طرف پہلے ہی سہولتوں سے محروم ہے‘ طرفہ تماشا یہ کہ ہر نیا بوجھ اسی کی کمر پر لاد دیا جاتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے قرضے لینا ہے تو بوجھ غریب طبقہ اٹھائے گا‘ اگر بجلی کے گردشی قرضے بڑھ گئے ہیں تو اس کے لیے بھی عوام کے بلوں میں نیا ٹیرف لگایا جائے گا۔ کیا ان قرضوں کے ذمہ دار عوام ہیں؟ نتیجتاً دونوں طبقا ت میں خلیج روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 44 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے‘ اور دوسری طرف ہماری مخدوم اشرافیہ کے نمائندے...! وزیر دفاع خواجہ آصف سوشل میڈیا پر اعتراف کے ساتھ انکشاف کر چکے ہیں کہ ملک کی آدھی سے زیادہ بیورو کریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے‘ اور شہریت لینے کی تیاری کر رہی ہے اور یہ نامی گرامی بیورو کریٹس ہیں۔ مگرمچھ اربوں روپے کھا کے آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔بقول اُن کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب بزدار کا ایک قریب ترین بیورو کریٹ چار ارب بیٹیوں کی شادی پر صرف سلامی وصول کر چکا ہے اور آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہے۔ کچھ طبقات ان انکشافات کے بعد‘ جو دراصل ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں‘ خواجہ آصف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ یہ خبریں چلوائی جا رہی ہیں کہ بیورو کریسی وزیر دفاع کے بیان پر برہم ہے اور اسے حقیقت کے منافی سمجھتی ہے۔ ایسی باتیں آج تک الزامات سے آگے بڑھ کر ثابت نہیں ہو سکیں مگر اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ایسی متعدد لیکس سامنے آ چکی ہیں جو ان الزامات کی تائید کرتی ہیں۔ 2016ء کی پاناما لیکس تو خیر کافی بدنام ہو چکیں مگر 2022ء کی دبئی لیکس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان میں بھی اشرافیہ کے طبقات کا ذکر موجود تھا ‘لہٰذا خواجہ آصف کو چاہیے کہ بیوروکریٹس کے ساتھ بلاجھجک سیاستدانوں اور دیگر طبقوں کو بھی بے نقاب کریں‘ جودونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ کر اندرونِ ملک‘ یورپ اور شمالی امریکہ میں جائیدادیں خرید رہے ہیں۔
ملک عزیز کی اشرافیہ نے عوام کی حالت اتنی پتلی کر دی ہے کہ عوام کو صرف زندہ رکھا ہوا ہے تاکہ ان پر حکومت کی جا سکے۔ اس لیے جب تک عام آدمی اشرافیہ کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوتا اس وقت تک آزاد ملک کا شہری ہونے کے باوجود حقیقی آزادی کے ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ عوام تو بے چارے اشرافیہ کے عتاب سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان کو اپنا معمولی روزگار چھن جانے سے تنگدستی کا خوف دامن گیر رہتا ہے‘ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشانی ہوتی ہے۔ان بے چاروں کو آج تک فکرِ معاش سے آزادی نہیں مل سکی۔ فیض احمد فیض نے عوام کے انہی طبقات کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا:
یہ داغ داغ اجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
تقریباً آٹھ دہائیوں سے اس ملک میں صرف طبقۂ اشرافیہ ہی پروان چڑھ رہا ہے۔ اور اس طبقے کو دولت اور طاقت کے نشے نے اتنا دھت کر دیا کہ یہ بھول گیا کہ اس کی اولین ذمہ داریاں عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا اور اس خطۂ ارض کو تحفظ اور ترقی فراہم کرنا ہے۔ لیکن انہیں اپنے اور اپنی سات پشتوں کے مفادات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر انہیں اپنی ذمہ داری کا ذرا بھی پاس ہوتا تو ملک میں فرقہ واریت‘ صوبائیت‘ لسانیت اور انتہا پسندی کو ہوا دینے کے بجائے یہ ملک اور قوم کی خدمت کیلئے کچھ مثبت کام کرتے۔ لیکن ان کو توفیق نہیں ہوئی جبکہ ملک کے عوام ہر روز ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ملک کی ترقی اور خوشحالی کی خواہش میں افتاں و خیزاں رہتے ہیں۔ کبھی کسی سیاسی لیڈر اور کبھی کسی مذہبی رہنما کے ساتھ اپنی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خلوص اور اعتماد نچھاور کرتے ہوئے ان کے پیچھے بھاگتے ہیں‘ لیکن عوام کو اس کے بدلے میں کیا ملا؟ ناانصافی‘ غربت‘ بھوک‘ افلاس‘ بدامنی‘ سیاسی انتشار‘ تعلیم اور روزگار سے محرومی ؟ وطنِ عزیز میں خاندانی سیاست‘ وڈیرہ شاہی‘ بدعنوانی اور طاقت کا ناجائز استعمال کرنے والوں کی عاقبت نااندیشی اس ملک اور قوم کو جس پستی کی طرف لے جا رہی ہے وہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ اور اس کیلئے دعا ہی کی جا سکتی ہے‘ بقول احمد ندیم قاسمی:
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کیلئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو