"IAS" (space) message & send to 7575

سارا جھگڑا معاشیات کا ہے

وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ درحقیقت دنیا میں اس وقت معاشی مفادات کی جنگ چل رہی ہے۔ یٰسین ثاقب نے بجا کہا تھا:
کون عاشق خدا کی ذات کا ہے
سارا جھگڑا معاشیات کا ہے
جب ضرورت ہوتی ہے طالبان مجاہد بن جاتے ہیں اور جب کام نکل جائے تو مجاہد دہشت گرد قرار دے دیے جاتے ہیں اور ان کو ختم کرنے کیلئے افغانستان میں بم مار مار کر تورا بورا کے پہاڑوں کا سرمہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ اب حماس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ حماس کو بنانے والوں کی طرف سے حماس پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی تھی۔ ان کو اسرائیل کے خلاف لڑنے کیلئے تیار کیا گیا تاکہ جنگ جاری رہے اور اسلحہ بیچنے والے ممالک عربوں کی ضرورت بنے رہیں۔ اُن کا اسلحہ بکتا رہے اور وہ عربوں سے پیسے بٹورتے رہیں۔ ایک لمبے عرصے سے حماس کے رہنماؤں کو قطر میں شاہی مہمان بنا کر رکھا گیا۔ حماس کی طرف سے کی گئی کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے کارپٹ بمباری کر کے فلسطین کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے‘ لاکھوں معصوم فلسطینی بچے‘ عورتیں اور بزرگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور مظالم کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسرائیل کے ذریعے عرب اور خلیجی ممالک سے چھیڑ چھاڑ جاری ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی ملک پر اسرائیل حملہ کر دیتا ہے۔ اس سال اسرائیل اب تک غزہ (فلسطین) کے علاوہ سات ممالک پر حملہ کر چکا ہے‘ جن میں عراق‘ یمن‘ تیونس‘ لبنان‘ شام‘ ایران اور اب قطر شامل ہیں۔
اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ اب حماس کو بنانے والوں کو حماس کی ضرورت نہیں رہی۔ جس مقصد کیلئے حماس کو بنایا گیا تھا اب وہ پورا ہو گیا ہے۔ حماس کے کئی ایک لیڈر یکے بعد دیگرے اسرائیلی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ قطر پر اسرائیلی حملہ ثالثی کو روکنے کیلئے کیا گیا۔ اس حملے میں اسرائیل کا سرپرست امریکہ بھی پوری طرح ملوث تھا۔ اسرائیل فلسطین جنگ کو رکوانے کے لیے قطر سب سے اہم ثالث ملک سمجھا جاتا تھا جس پر اسرائیل نے اسی طرح بے دھڑک ہو کر حملہ کیا‘ جس طرح لبنان‘ ایران اور شام پر حملے کیے گئے۔ قطر غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کو چھڑوانے اور جنگ بندی کے لیے پچھلے دو برسوں سے اپنی کوششیں اور خدمات جاری رکھے ہوئے ہے۔ مزید یہ کہ قطر نہ صرف امریکہ کا اہم خلیجی اتحادی ہے بلکہ علاقے میں امریکی افواج کا سب سے بڑا میزبان بھی ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب امریکہ کا ملٹری بیس ہے جہاں امریکی سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈ کوارٹراور USAF سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ قطر کے اس ایئر بیس (العدید ایئر بیس) میں تقریباً دس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور یہیں سے افغانستان اور عراق کی جنگوں کو کمانڈ کیا جاتا تھا۔ امریکہ کے اتنے بڑے فوجی اڈے کو مطلع کیے بغیر یہ حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ سب کچھ امریکی منصوبہ بندی سے کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کا یہ حملہ صرف حماس کے مذاکرات کاروں پر نہیں تھا جو غزہ میں جنگ بندی کے لیے مصروف تھے اور اُس روز بھی اسی لیے وہاں جمع تھے بلکہ یہ پورے مذاکراتی عمل پر قاتلانہ حملہ تھا۔ مذاکرات کاروں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ امریکی صدر ٹرمپ کی جنگ بندی کیلئے نئی تجویز پر باہمی مشاورت کے لیے جمع تھے۔ بلاشبہ قطر پر اسرائیلی حملے نے خلیج فارس کے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یورپ سمیت پوری دنیا اسرائیل کے قطر پر حملے کی مذمت کر رہی ہے۔ امریکہ نے ابھی تک اسرائیل کے قطر پر حملے کی مذمت نہیں کی‘ سرزنش تو بعد کی بات ہے۔ بس اتنا کہا کہ اسرائیل اب دوبارہ قطر پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے کیونکہ اسرائیل اب بھی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ وہ دوبارہ بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر قطر سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی معاشی اور دفاعی حکمتِ عملی کو ازسرِنو ترتیب دیں اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے امریکی چنگل سے نکلنے کی سبیل کریں۔ امریکہ خلیجی ممالک سے مختلف مدات میں تقریباً ایک ہزار ارب ڈالرز سالانہ حاصل کرتا ہے۔ اس میں اسلحہ کی فروخت اور سکیورٹی کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔ اگر پاکستان کو صرف دس ارب ڈالرز بھی سالانہ مل جائیں تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے کیونکہ ہم تو آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کیلئے منتیں کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی جائز ناجائز شرائط کو دل وجان سے ماننے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ خلیجی تعاون کونسل میں شامل ممالک سعودی عرب‘ قطر‘ بحرین‘ کویت‘ عمان اور متحدہ عرب امارات کی سالانہ جی ڈی پی چھ ہزار ارب ڈالر ہے اور پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی ساڑھے تین سو سے چار سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے‘ اس سے آپ خلیجی ممالک کی معیشت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
خلیجی ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں اور ان کی معیشت کا انحصار تیل وگیس کی برآمدات پر ہے۔ اسی لیے امریکہ کے عرب سرزمین بحرین‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ اردن اور سعودی عرب سمیت خلیج فارس میں کئی فوجی مراکز ہیں۔ امریکہ دہائیوں سے اپنی فوجی موجودگی‘ دفاعی معاہدوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے عرب بادشاہتوں کی سلامتی کا ضامن رہا ہے۔ خلیجی ریاستوں کے فوجی ساز وسامان کا 70 فیصد سے زائد حصہ براہِ راست امریکی کمپنیوں اور نیٹو ممالک سے حاصل کیا جاتا ہے۔
2017ء میں صدر ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر واشنگٹن کے ساتھ 110 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا گیا‘ جس میں بعد میں مزید اضافہ بھی ہوا۔ یہ معاہدہ سعودی سلامتی کی پالیسی کا بنیادی جزو ہے۔ صرف 2024ء میں سعودی عرب نے 25 ارب ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خریدے جبکہ اس سال مئی میں صدر ٹرمپ کے سعودی دورے کے موقع پر امریکہ اور سعودی عرب نے 142 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے جسے وائٹ ہاؤس نے ''تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ‘‘ قرار دیا ۔ متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی کے قریب واقع الظفرہ ایئر بیس امریکی جنگی حکمتِ عملی کا اہم مرکز ہے۔ حالیہ برسوں میں امارات نے 200 ارب ڈالر سے زائد کے دفاعی اور ٹیکنالوجی معاہدے امریکہ سے کیے ہیں۔ خلیجی ممالک کے حکمران امریکہ میں تقریباً تین ہزار ارب ڈالرز کی خطیر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے امریکہ سے معاہدے اور وعدے بھی کیے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی سلامتی‘ ٹیکنالوجی اور معیشت کا مکمل انحصار امریکہ پر ہے۔ ایسے میں اگر یہ ممالک امریکی اثر سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش شروع کریں تو اس پر عمل درآمد اور اس کے اثرات ظاہر ہونے میں کم از کم پانچ سے دس سال کا وقت لگے گا۔ اور اگر یہ عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے تو مسلم ممالک کی کانفرنسیں بلانے‘ بڑھکیں مارنے اور اعلامیے جاری کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) میں شامل خلیجی ممالک کو چاہیے کہ صرف 300 ڈالرز اپنے ذریعے‘ کسی اور کے ذریعے نہیں‘ پاکستان میں انویسٹ کر دیں۔ 10 ارب ڈالر تو سیلاب کے مارے ہوئے لوگوں پر انویسٹ کریں اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں یونیورسٹیاں بنانے پر 10 ارب ڈالرز لگا دیں۔ اس طرح مختلف کاموں پر 300 ارب ڈالر انویسٹ کر دیں اورمسلم ملکوں کے لوگوں کیلئے اپنے ممالک کو کھول دیں۔ لوگوں کو کام کرنے کی اجازت مل جائے تو آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ خلیجی ممالک آہستہ آہستہ امریکہ کے چنگل سے نکل آئیں گے۔ یہ شاہ فیصل کا منصوبہ تھا‘ اگر خلیجی ممالک شاہ فیصل کے منصوبے پر عمل کر لیں تو امریکہ سے نجات پا سکتے ہیں۔ اگلے کالم میں اس پر تفصیل سے لکھوں گا‘ ان شاء اللہ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں