فلسطین میں اسرائیل کے حالیہ قتلِ عام اور تاریخی تباہی کیلئے کچھ لوگ حماس کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ سات اکتوبر 2023ء کے واقعات نے اسرائیل کو ان ظالمانہ کارروائیوں کا موقع فراہم کیا جن کے نتیجے میں دو سال سے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری ہیں‘ شہری ڈھانچہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور 65 ہزار سے زائد افراد جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل پر حملوں کے بعد جنگجو خود تو زیر زمین بنکرز اور سرنگوں میں چلے جاتے ہیں مگر اسرائیلی بمباری کا نشانہ مظلوم فلسطینی بچے‘ خواتین اوربزرگ بنتے ہیں۔
دوسال سے عرب اور مسلم ممالک اسرائیل اور امریکہ سے جنگ بندی کیلئے کوششیں کر رہے تھے‘ اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ اب کہیں جا کر امریکہ اور اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہوئے ہیں اور وہ بھی اپنی شرائط پر۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور غزہ میں جنگ بندی کیلئے بیس نکاتی مجوزہ منصوبہ پیش کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی مجوزہ منصوبے کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس کے سوا کوئی اور حل دکھائی نہیں دیتا۔ اس منصوبے پر عمل کر کے مسئلہ فلسطین کا کوئی ممکنہ حل نکالا جا سکتا ہے کیونکہ مسلم ممالک خاص طور پر عربوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے مذہبی رہنماؤں نے نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دی لیکن اپنے بچوں کو اس طرف نہیں لے کر آئے۔ بقول اقبال:
دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ ملا فی سبیلِ اللہ فساد
مسلم ممالک کی مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما جہاد کا نعرہ مستانہ تو لگاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے عملی طور پر جہاد کیلئے اپنے 'گھوڑے‘ تیار نہیں کیے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ''اور تیار رکھو ان کے (مقابلے کے) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے (تا کہ) تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو اور کچھ دوسروں کو (بھی) جو ان کے علاوہ ہیں‘ تم انہیں نہیں جانتے‘ اللہ انہیں جانتا ہے اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب پورا پورا تمہیں دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی‘‘۔ کل کے گھوڑے آج کی جدید جنگی ٹیکنالوجی ہے‘ اپنے رب کے حکم کو پس پشت ڈالنے کے باعث مسلمان خاص طور پر اہل عرب بہت پیچھے ہیں اور اگر انہوں نے امریکہ یا دیگر ممالک سے کوئی ٹیکنالوجی یا ہتھیارخریدے ہیں تو وہ ان کو چلانے سے نابلد ہیں کیونکہ ان کی چابیاں ان کے پاس نہیں ہیں۔ اب تو اس جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہی ہے۔
اب کوئی مسلم ملک کچھ کر سکے گا نہ ہی یہ حماس کے بس کی بات ہے۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں کے ہاتھوں فلسطین کا بہت نقصان ہوا ہے اور دوسال سے اس پر مسلسل تباہی وبربادی اتر رہی ہے۔ نام نہاد دانشوروں نے اہلِ غزہ کو مروا دیا ہے اور اب یہ لوگ بتا رہے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا اور کیا کرنا چاہیے۔ یہ لوگ اب ایسے ہی چاچا خواہ مخواہ بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو اپنے ملک میں کوئی ظلم نظر نہیں آ رہا۔ ان لوگوں کو پاکستان کے مسائل سے زیادہ باہر کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ فلسطین کے نام پر چندہ اکٹھا کیا جا رہا ہے لیکن اسرائیلی محاصرے کے باعث وہاں تک کچھ بھی نہیں پہنچ پا رہا۔ کاش آج ہم مسلمانوں نے اپنے گھوڑے تیار کیے ہوتے‘ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا کیونکہ ہمارے رہنماؤں کے قول وفعل میں تضاد تھا‘ بلکہ کھلا تضاد تھا‘ جس کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے رہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلم ممالک کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے ایک بار پھر غزہ کے شہریوں کو علاقے سے انخلا کی وارننگ دی ہے کہ وہ اس شہر سے نکل کر جنوبی غزہ کی طرف چلے جائیں۔ گزشتہ ماہ بڑے فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے قحط زدہ غزہ شہر سے اب تک تقریباً چار لاکھ فلسطینی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ وہ گھروں سے ننگے پاؤں نکلے اور بچا کھچا سامان بھی نہیں اٹھا سکے تھے۔ نقل مکانی کے دوران راستے میں بھی صہیونی فوج کی اندھا دھند بمباری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ادھر حماس بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہ ڈالنے پر بضد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی کسی بھی مزاحمتی تحریک نے آزادی سے قبل اپنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ جنوبی افریقہ‘ افغانستان‘ ویتنام‘ الجزائر اور آئرلینڈ میں کبھی بھی مزاحمتی تحریکوں سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ آزادی سے پہلے نہیں کیا گیا۔ حماس نے ماضی میں مذاکرات کے دوران مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ صرف اس صورت میں منصوبے کو قبول کرے گی جب اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل انخلا کرے‘ مستقل جنگ بندی پر اتفاق ہو اور بے گھر فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی ضمانت دی جائے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے برملا کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نے ان کا امن معاہدہ تسلیم کر لیا ہے‘ ایران سے متعلق بھی نیتن یاہو کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے‘ فلسطین میں نئی حکومت فلسطینیوں اور دنیا بھر کے ماہرین پر مشتمل ہو گی‘ غزہ جنگ کا خاتمہ مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے بڑے ویژن کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ منصوبے کے مطابق اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے بعد بتدریج غزہ سے نکلے گا۔ یہ منصوبہ جنگ کے خاتمے سے متعلق اسرائیل کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے‘ اس معاہدے کے تحت حماس کے جنگجو مکمل طور پر غیر مسلح ہوں گے اور انہیں مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا‘ البتہ جو ارکان پُرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے انہیں عام معافی دی جائے گی۔ ابھی امریکی صدر کے اس مجوزہ امن منصوبے یا معاہدے کی سیاسی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نے ایک وڈیو بیان میں کہہ دیاکہ اسرائیلی فوج غزہ کے بیشتر حصوں میں رہے گی اور واشنگٹن میں مذاکرات کے دوران انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق نہیں کیا۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے امریکہ کی خوب خوشامد کے ساتھ منت سماجت بھی کی۔ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں پاکستان سمیت آٹھ مسلم ممالک کے سربراہان نے صدر ٹرمپ سے غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل کی اور فلسطینیوں کی امداد کی درخواست کی۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے منصوبے کا خیر مقدم کیا گیا کیونکہ خطے میں دیرپا امن یقینی بنانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ امن منصوبے پر عمل درآمد ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ اصل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے آٹھ مسلم ملکوں کی ملاقات کا صرف ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ کسی طریقے سے غزہ میں فوری جنگ بندی کی کوشش کی جائے‘ جنگ بندی کے فوری بعد غزہ کی تعمیر نو کی جائے۔ منصوبے کے تحت غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس تعینات کی جائے گی۔ انڈونیشیا نے اپنے 20 ہزار فوجی فلسطین بھیجنے کی پیشکش کی تھی۔ ممکن ہے پاکستان بھی فورس فلسطین بھیجنے کا فیصلہ کرے۔ میری رائے میں عالمی فورسز کے تحت حکومت میں فلسطینی عوام خوشی محسوس کریں گے‘ کیونکہ اتنے لوگ شاید اسرائیل کی بمباری سے نہیں شہید ہوئے جتنے آپس کی لڑائیوں میں مارے گئے۔