سابق وزیر اعظم نواز شریف پر عہدے کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، صرف اقامہ اور بیٹے کی کمپنی میں عہدہ چھپانے کے جرم پر وہ جیل میں ہیں۔ نواز شریف کی صحت جیل جانے کے وقت بھی اچھی نہیں تھی۔ ان کے اہل خانہ اور پارٹی ان کی صحت کے متعلق تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ ان کے ذاتی معالج کو ملاقات سے روکنے کی باتیں ہوتی رہیں۔ الزام اور جوابی الزام کی سیاست چلتی رہی لیکن دو دن پہلے اچانک نواز شریف کی صحت زیادہ بگڑی اور انہیں ہنگامی طور پر ہسپتال داخل کرانا پڑا۔
نواز شریف کی صحت کے بارے میں ایک بار پھر حکومتی جماعت نے وہی رویہ اپنایا جو بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے دوران اپنایا گیا تھا۔ کچھ عہدیداروں نے پھکڑ پن کی انتہا کی۔ مسلم لیگ ن اپنے لیڈر کی بیماری کے حوالے سے خدشات کا شکار پہلے ہی تھی لیکن جس طرح ان کی حالت اچانک بگڑی اس پر کئی طرح کے وسوسوں نے جنم لیا۔ سازشی تھیوریز گردش کرنے لگیں۔ نواز شریف کے داماد نے ایسی ہی ایک سازشی تھیوری کی تائید کی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ایک اور بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری بھی قید میں ہیں اور ان کی صحت کے حوالے سے بھی خبریں کچھ اچھی نہیں۔ دو بڑے رہنماؤں کی قید اور بگڑتی صحت پر خدشات موجود ہیں۔ حکومت کی طرف سے انسانی ہمدردی کا معمولی سا بھی اظہار سامنے نہیں آیا بلکہ حکومت مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی وجہ سے اس قدر بد حواس ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کی بیماری پر سیاسی بیانات جاری ہو رہے ہیں۔
ملک میں احتساب کے نام پر نفرت کا ماحول بن چکا ہے۔ حکمران جماعت اپوزیشن رہنماؤں کو کرپشن چھپانے کے لیے ڈرامے کرنے کے طعنے دے رہی ہے۔ اس کے رد عمل میں اپوزیشن کے دلوں میں موجودہ حکمرانوں کے لیے گرہ پڑ چکی ہے۔ سنجیدہ مسائل پر بھی حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ تقسیم اس قدر شدید ہے کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا بھی اب ان لوگوں کو گوارا نہیں رہا۔
جمہوری معاشرہ اختلاف رائے سے ہی پروان چڑھتا ہے، لیکن اختلاف کو نفرت میں نہیں بدلنا چاہئے‘ بالخصوص وہ لوگ جو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں‘ ان کے لہجوں کی سنگینی کسی بھی طرح مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے میل نہیں کھاتی۔ ریاست مدینہ والے تو نظریاتی جنگ میں ذاتی انتقام کا شائبہ تک نہیں آنے دیتے تھے‘ جس کی ایک مثال حضرت علیؓ کی ہے، جو میدان جنگ میں دشمن کے ایک سپاہی سے گتھم گتھا تھے اور اسے گرا کر اس کے سینے پر چڑھے ہوئے تھے۔ اسی اثنا میں دشمن نے حضرت علیؓ پر تھوک دیا تو وہ اسے چھوڑ کر الگ ہو گئے۔ دشمن حیران رہ گیا۔ بعد میں ساتھیوں نے حضرت علیؓ سے وجہ دریافت کی تو آپؓ نے فرمایا: میں اللہ کی راہ میں اس سے لڑ رہا تھا لیکن جب اس نے مجھ پر تھوکا تو میں نے اسے چھوڑ دیا کیونکہ اس حرکت کے بعد ذاتی انتقام بھی شامل ہو جاتا۔
نفرت کی آگ وطن عزیز کو کئی مواقع پر گہرے گھاؤ لگا چکی ہے جو بظاہر مندمل ہو چکے ہیں لیکن ان کے اثرات سیاسی شعور پر اب بھی موجود ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پورا ملک آگ کی لپیٹ میں تھا۔ سندھ تو کسی بھی طرح کنٹرول ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ سندھیوں کو پنجاب سے ایک اور وزیر اعظم کی لاش بھجوائی جا رہی تھی جو ان کے لیے برداشت سے باہر تھا۔ اس موقع پر نواز شریف ہسپتال پہنچے اور پنجاب پر لگنے والے الزامات کے مداوا کی کوشش کی۔ آصف علی زرداری نے ذاتی غم کو بھلا کر سندھیوں کا غصہ ٹھنڈا کیا اور 'پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگایا۔ گھاؤ بھر گیا لیکن سیاسی شعور پر اس کا اثر موجود ہے۔ بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کو جس طرح مشرف حکومت کے دور میں قتل کیا گیا‘ اس کے بعد بلوچستان بد امنی کی آگ میں جلتا رہا۔ اب گھاؤ بھر چکے لیکن اس کے اثرات سیاسی شعور سے مندمل نہیں ہوں گے۔
احتساب ضروری ہے لیکن انتقام کا رتی بھر شائبہ اس عمل کو دھندلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی بیماری پر جس طرح کا رد عمل حکمران جماعت کی طرف سے آ رہا ہے وہ احتساب کے عمل کو دھندلانے کے لیے کافی ہے۔ ملک پر چھائی اس دھند میں کوئی بھی حادثہ کسی نئے سانحہ کو جنم دے گا۔ سیاسی شعور میں پہلے سے موجود گھاؤ پھر ہرے ہو جائیں گے۔
دونوں بڑے اپوزیشن رہنما مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جمہوریت میں منتخب نمائندوں اور اکثریت کے ہاتھوں آئین و قانون کی پامالی روکنا اور افراد کے حقوق یقینی بنانا آزاد عدلیہ کا کام ہے۔ انصاف کو سیاست زدہ ہونے سے بچانے کی بھاری ذمہ داری عدالتوں پر عائد ہوتی ہے۔ عدالتیں آزادانہ کام کریں تو اکثریتی ووٹ لینے والے کبھی بھی اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ نہیں بنا سکتے اور انفرادی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کے بیانات انصاف کے عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر سیاسی بیانات کو نہ صرف سیاسی قیادت روکے بلکہ عدلیہ کو بھی کارروائی کرنا چاہیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کے حوالے سے اپنا فیصلہ عدالت سے کالعدم ہونے پر جج کے بارے میں ریمارکس دیئے کہ یہ اوباما کا نامزد کیا گیا جج تھا جس نے میرے خلاف فیصلہ سنایا، اب ایسا نہیں چلے گا۔ اس پر امریکی چیف جسٹس جان رابرٹس نے عدالتی روایات سے ہٹ کر شدید رد عمل دیا اور کہا کہ ہماری عدالتوں میں کوئی اوباما کا جج ہے نہ ٹرمپ کا، کوئی بش کا جج ہے نہ کوئی کلنٹن کا۔
جمہوریت میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ ملک میں میڈیا بھی دباؤ اور جبر کا شکار ہے۔ تنقید برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھنے والے طبقات میڈیا کو دباؤ میں لاتے ہیں لیکن اس دباؤ اور جبر کے نتیجے میں نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ امریکی صدر ٹرمپ میں بھی نہیں۔ اسی لیے آئے روز میڈیا کے کچھ حصوں کا نام لے کر اسے ملک دشمن، عوام دشمن اور جعلی میڈیا قرار دیتے ہیں۔ یہی حالات وطن عزیز کے ہیں، یہاں بھی جس پر تنقید ہوتی ہے وہ اس کا سامنا کرنے کی بجائے میڈیا کو مطعون کرنا شروع کر دیتا ہے۔ میڈیا کے ادارے ریٹنگ اور اشتہارات کے دباؤ میں سیلف سنسر شپ پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ملک میں سیاسی نفرت کا ماحول الیکشن سے پہلے بننا شروع ہوا۔ الیکشن سے پہلے وفاداریاں تبدیل کرانے کا پراسرار عمل سیاسی تقسیم کو گہرا کرتا رہا۔ پولنگ کے موقع پر ہونے والی بے ضابطگیاں اس تناؤ کو بڑھاتی رہیں۔ ان حالات میں جیت کر آنے والوں نے نفرت اور تقسیم کو کم کرنے کی بجائے مزید گہرا کرنے کا عمل جاری رکھا۔ مخالفین پر ذاتی حملے کئے گئے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری سے پہلے وزرا اعلان کرتے رہے کہ اب کس کی باری ہے۔ احتساب کا ادارہ بھی بالکل اسی پیٹرن پر گرفتاریاں کر کے حکمران جماعت کے دعووں کی تصدیق کرتا رہا۔
جمہوری آزادیوں پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے فریڈم ہاؤس کی اس سال کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جمہوریت پسپا ہو رہی ہے۔ مسلسل تیرہویں برس سے دنیا بھر میں جمہوری آزادیوں پر روک لگانے کا رجحان جاری ہے۔ کولڈ وار کے بعد جمہوریت کو اپنانے والے ملک اینٹی لبرل اور نیشنلسٹ رجحانات اور قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ جیسے مسائل کی وجہ سے جمہوری آزادیوں کو کچل رہے ہیں۔ قومیت پرستی کی سیاست اپوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے۔
تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی جماعتیں ان انتخابات میں اگر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور کی گئی تھیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان جماعتوں کی جڑیں عوام میں باقی نہیں رہیں۔ احتساب کے اس عمل میں انتقام کا شبہ ان جماعتوں کے ووٹروں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ ان رہنماؤں کی میڈیکل رپورٹس چھپانے، ان کی بیماری کا مذاق اڑانے سے حکومت مضبوط نہیں کمزور ہو رہی ہے۔ معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو صرف حکومت ہی نہیں نظام بھی زمین بوس ہو سکتا ہے اور خمیازہ ایک بار پھر سیاست دانوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔