سیاسی پنڈتوں کے اندازوں کے برعکس مولانا فضل الرحمن اب تک اسلام آباد میں دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ جے یو آئی نے دھرنے کے جو مقاصد اور اہداف بیان کئے تھے ان پر حکومت کی طرف سے بات کرنے سے انکار کے بعد مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا لیکن یہ عمل کسی نتیجے پر پہنچتا دکھائی نہیں دیتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے مذاکراتی کمیٹی بھی بنا رکھی ہے اور اپوزیشن کے خلاف سخت بیانات دے کر ماحول کو گرم رکھنے کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کو شکست دینے پر تلے ہیں اور سیاست کو جنگ بنا دیا گیا ہے۔ سیاست کے تمام فریق ایک دوسرے کو ڈس کریڈٹ کرنے پر تلے ہیں۔
کیا سیاسی لیڈر کہلانے والے نہیں جانتے کہ ایک دوسرے کی ساکھ تباہ کرنے، ایک دوسرے کو کرپٹ اور نا اہل ثابت کرنے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا پاکستان کی سیاسی قیادت دنیا میں بدلتے سیاسی اور عوامی رجحانات سے لا تعلق رہ کر زندہ ہے؟ تیز رفتار مواصلاتی رابطوں کے دور میں کیا آج بھی ستر کے عشرے کی سیاست چل سکتی ہے؟ لیڈر کہلانے والوں کو شاید علم نہیں کہ اب دنیا میں بغیر لیڈر سیاسی تحریکوں اور نظام سے بغاوت کا رجحان ابھر رہا ہے۔
فرانس میں پیلی جیکٹ تحریک، جس میں ہر طبقے کے لوگ عدم مساوات کے خلاف سڑکوں پر آئے، عرب دنیا میں چند سال پہلے ایک سیاسی بھونچال نے سب کچھ تلپٹ کر دیا، خواتین کے حقوق کی مہم ''می ٹو‘‘ نے کئی سیاست دانوں اور سماجی لیڈروں کے کیریئر ختم کر دیئے۔ امریکا میں ایک رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والا‘ سیاست سے نا بلد ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گیا۔ فرانس میں ایک بینکر عمانویل ماکروں اچانک سیاست میں آیا اور سیدھا صدارتی محل جا پہنچا۔
دنیا بھر میں بغیر قیادت والی تحریکیں نہ صرف ابھر رہی ہیں بلکہ کئی ملکوں میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ تحریکیں کہاں سے آئیں؟ تیونس میں ایک بیروزگار نوجوان نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔ نوجوان کی خود سوزی اور ہلاکت کے بعد تیونس میں اٹھنے والی عوامی بغاوت نے پوری عرب دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ جدید مواصلاتی رابطوں اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا آج ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، ایک چھوٹا سا واقعہ پورے خطے یا پوری دنیا پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ معمولی سے واقعہ سے جنم لینے والی کوئی تحریک کس وقت کیا رخ اختیار کرے کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔
بغیر لیڈر تحریکیں روایتی سیاست سے بیزاری کے پیدا ہونے پر جنم لیتی ہیں۔ سڑکوں سے شروع ہونے والی تحریک کی وجہ سب کے سامنے ہوتی ہے لیکن اس تحریک کا انجام یا اختتام کہاں ہو گا‘ یہ کسی کو علم نہیں ہوتا۔ عرب ملکوں میں تیونس سے شروع ہونے والی بغاوتیں آمروں کے خلاف تھیں‘ لیکن آمریت کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا، کس طرح کا نظام حکومت ہو گا، لیڈر کون ہو گا؟ کسی کو معلوم نہیں تھا۔
مصر کے تحریر سکوائر پر احتجاج کرنے والے مظاہرین نے حسنی مبارک کی حکومت تو گرا دی لیکن وہ ایک سیاسی جماعت بنانے میں ناکام رہے جو الیکشن جیت سکے، اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اخوان المسلمین آگے آئی جو ایک پرانی اور منظم جماعت تھی۔ اخوان المسلمین نے سیاسی خلا پُر کر کے حکومت تو بنا لی لیکن احتجاج کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو وہ گھروں میں نہ بیٹھے اور اسے بھی گرا کر دم لیا‘ جس کے نتیجے میں فوج ایک بار پھر اقتدار میں آ گئی اور اس بار اقتدار میں آنے والے جنرل عبدالفتاح السیسی اپنے پیش رو حسنی مبارک سے بھی زیادہ بڑے آمر ثابت ہوئے۔
ایک چھوٹا سا واقعہ سیاست میں کیسے تبدیلی اور بھونچال لا سکتا ہے، اس کی مثال برطانیہ کے ڈپٹی پرائم منسٹر ڈیمین گرین کا می ٹو مہم کے نتیجے میں استعفیٰ ہے۔ بھارت میں نامور صحافی اور سیاست دان ایم جے اکبر کی وزارت کو بھی می ٹو مہم لے ڈوبی۔ یہی می ٹو مہم صدر ٹرمپ کو کوئی بڑا سیاسی نقصان نہیں پہنچا سکی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر واقعے کا اثر ہر جگہ ایک جیسا بھی نہیں ہوتا۔
امریکا میں دو ہزار گیارہ میں عدم مساوات کے خلاف ایک تحریک اٹھی۔ یہ تحریک وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک کہلائی۔ اس تحریک نے عوام میں معاشی عدم مساوات اور سماجی نا ہمواری پر شعور بیدار کیا۔ بظاہر یہ مہم ناکام رہی لیکن عدم مساوات اور سماجی نا ہمواری‘ جو کبھی بھی سیاست کے موضوع نہیں رہے‘ جیسے مسئلے پر ہر سیاست دان اور جماعت کو توجہ دینا پڑی۔ وال سٹریٹ پر قبضہ تحریک اس لیے بھی ٹھوس نتائج حاصل نہ کر سکی کہ اس کے پاس متبادل سیاسی پروگرام نہیں تھا۔
دنیا بھر میں اب پارٹی پالیٹکس کی جگہ سیاسی تحریکیں لے رہی ہیں، اور پارٹی لیڈروں کی جگہ تحریکوں کے لیڈر لے رہے ہیں، کیوں؟ اس کا جواب مشکل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے‘ لیکن ایک بات واضح ہے، سیاست بھی اب ذات پات کے نظام جیسی ہو گئی ہے، سیاسی اشرافیہ غریبوں کے مسائل سے بے خبر اور لا تعلق ہے، مسائل میں گھرے عوام اب اشرافیہ کو متوجہ کرنے سے زیادہ انتقام کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور نقش کہن کو مٹانے پر تلے ہیں۔
سیاسی جماعتیں میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتی رہی ہیں لیکن اب روایتی میڈیا کا کردار سکڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا عوام تک رسائی کا تیز ترین ذریعہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے سیاسی تحریکیں اب سرحدوں کے اندر تک محدود نہیں اور ان کے اثرات دور تک محسوس کئے جاتے ہیں۔ روایتی سیاست دانوں، اشرافیہ، اداروں اور دانشوروں پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سیاسیات پروفیسر ایریکا چینووتھ کا کہنا ہے کہ عدم تشدد پر مبنی تحریکوں کی کامیابی کا امکان پُر تشدد تحریکوں کی نسبت دو گنا ہوتا ہے، کسی بھی مہم کی حرکیات مختلف ہو سکتی ہیں‘ لیکن پروفیسر ایریکا چینووتھ کے مطابق اگر معاشرے کے صرف ساڑھے تین فیصد افراد کسی بھی تحریک اور مظاہروں میں سرگرم کردار ادا کریں تو سیاسی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ پروفیسر ایریکا چینووتھ نے عدم تشدد تحریکوں کی کامیابی پر ایک طویل ریسرچ کی۔ انہوں نے 1900ء سے 2006ء تک دو سو متشدد تحریکوں اور عدم تشدد پر مبنی سو تحریکوں کا جائزہ لیا اور نتیجہ اخذ کیا۔ اس ریسرچ کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ تشدد پر مبنی تحریکوں میں کامیابی کا تناسب چھبیس فیصد تھا جبکہ عدم تشدد پر مبنی تحریکوں کی کامیابی کا تناسب 53 فیصد تھا۔
پروفیسر ایریکا کی ریسرچ کے مطابق عدم تشدد پر مبنی جن تحریکوں میں بھی پوری آبادی کے صرف ساڑھے تین فیصد نے حصہ لیا وہ کامیاب رہیں اور پُر تشدد تحریکیں ساڑھے تین فیصد شراکت کی حد تک نہیں پہنچ پائیں۔ عدم تشدد پر مبنی تحریکوں پر ریسرچ کے اس کام پر پروفیسر ایریکا کو فارن پالیسی میگزین نے دو ہزار تیرہ میں چوٹی کے سو دانشوروں کی فہرست میں شمار کیا۔
پاکستان میں دھرنوں کی سیاست کرنے والے ہر سیاست دان نے سونامی اور ملین مارچ کے دعوے کئے۔ اگر پروفیسر ایریکا کی ریسرچ کے پیمانے پر ان تحریکوں کو پرکھا جائے تو کوئی ایک تحریک بھی اس پر پورا اترنے میں ناکام رہی۔ ساڑھے تین فیصد کی سرگرم شراکت اور مکمل تحریک چلانے میں ہر کوئی ناکام رہا خواہ وہ نئے پاکستان کے دعوے دار تھے یا 'سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کا نعرہ لگانے والے۔ مولانا فضل الرحمن بھی ملکی آبادی کے ساڑھے تین فیصد کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بھی سیاسی اشرافیہ پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ اگر سیاست دان یونہی لا تعلق رہے تو بغیر لیڈر تحریکیں جنم لیں گی اور ضروری نہیں کہ یہ تحریکیں کامیاب رہیں، یہ تحریکیں شاید حکومتیں گرانے میں تو کامیاب رہیں لیکن کوئی متبادل پروگرام نہ ہونے کی صورت میں پاکستان بھی مصر بن سکتا ہے۔
سیاست دانوں کا کام ریاست اور سیاست دونوں کو بچانا ہے۔ اگر ایک دوسرے کو ڈس کریڈٹ کرنے، ایک دوسرے کی ساکھ بگاڑنے اور ایک دوسرے کی ناک زمین سے رگڑنے کا مقابلہ جاری رہا تو سیاست دان آؤٹ ہو جائیں گے۔