"IYC" (space) message & send to 7575

دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں

ملکی تاریخ میں پہلی بار فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالت تک پہنچا‘ عدالت نے گیند پارلیمان کی کورٹ میں پھینک کرخود کو کسی بھی تنازع سے بچالیا۔ مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی کے لیے چھ ماہ دیئے گئے ‘ حکومت نے فیصلے کو اپنی فتح قرار دیا اور تاثر دیا کہ اپوزیشن جماعتیں اس توسیع کے خلاف تھیں اور توسیع کے بارے میں تبصرے کرنے والے غیرملکی ایجنٹ بھی قرار پائے ۔
اب قانون سازی پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں‘ ایک وفاقی وزیر نے ٹی وی پروگرام میں کہا کہ توسیع کے معاملے پر ہم اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن کے پاس کیوں جائیں؟ ہم نے کوئی رشتہ تو نہیں لینا۔ اس طرح کی زبان کے استعمال کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کا موڈ اور عزائم سمجھنا مشکل نہیں رہا۔ گتا ہے‘ حکومت ایک بار پھر تصادم کی راہ پر ہے ۔ قانون سازی کے معاملے پر دباؤ اور بلیک میلنگ عروج پر ہے ۔ اگر کسی کو اس بات سے اتفاق نہیں تو ایک دن کے اخبارات میں چھپی خبروں کی ہلکی سی جھلک دیکھ لے ۔
وزیراعظم عمران خان سے اسلام آباد میں سندھ سے تعلق رکھنے والے اتحادی جماعتوں کے ارکان نے ملاقات کی۔ خبر کے مطابق ملاقات کرنے والوں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے شکایات کے انبار لگا دیئے ‘ ان ملاقاتیوں کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت دیہی و شہری علاقوں کو نظرانداز کررہی ہے‘ صوبائی حکومت کی زیادتیاں ایک طرف سندھ میں وفاقی ادارے بھی تعاون نہیں کرتے ‘ مرادعلی شاہ کے ہوتے وفاقی حکومت کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوسکے گا۔اس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سندھ حکومت کا طرزِحکمرانی خراب ہی نہیں ناکام بھی ہے اور اربوں روپے کی کرپشن کے بڑے ثبوت ملنے پر یہ سب پریشان ہیں‘کرپشن کے خلاف جہاد کرنے آیا ہوں‘ ان سے کوئی ڈیل ہوگی نہ ڈھیل دی جائے گی‘گزشتہ 10سال میں سب سے زیادہ کرپشن سندھ میں ہوئی‘پاکستان میں کرپٹ افراد کی گنجائش نہیں اور سب کی باری آئے گی‘کوئی نہیں بچے گا‘سندھ کے عوام کی ترقی وخوشحالی کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے ۔
دوسری خبر یہ ہے کہ لندن میں بڑے بھائی کے علاج کے لیے موجود سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان کی جائیدادیں سیل کرنے کے بعد ان جائیدادوں کو منجمد کرنے کی درخواست دے دی گئی ہے اور عدالت نے ماڈل ٹاؤن کے گھروں کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے ۔تیسری خبر ہے کہ نیب نے چوہدری شوگر ملز ریفرنس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو لاہور ہائیکورٹ سے ملنے والی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے ۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے 31اکتوبر 2019ء کو مریم نواز کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا‘ تاہم لگتا ہے کہ ریکارڈ کو درست انداز میں نہیں دیکھا گیا‘ مریم نواز 2008ء میں چوہدری شوگر ملز کے 47فیصد حصص کے ساتھ سب سے بڑی شیئر ہولڈر رہی ہیں اور ان کی ضمانت کے فیصلے کے بعد سے اہم قانونی سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔اور آخری خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں نہیں ہے تاہم اگر یہ ضروری ہے تو پی ٹی آئی کو اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ سادہ اکثریت سے قوانین پاس کروانے کے دعوے کرنے والوں کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے کیونکہ اسمبلی کے علاوہ بل سینیٹ میں بھی پیش کیا جائے گا۔
عدالت کی طرف سے قانون سازی کے لیے چھ ماہ دیئے گئے تھے لیکن لگتا ہے کہ حکومت نے اس ڈیڈ لائن کو اپوزیشن کو ملیا میٹ کرنے اور دیوار سے لگانے کی مہلت سمجھ لیا ہے ۔ حکومت کے ایک وزیر باتدبیر کا کہنا ہے کہ ہم اپوزیشن کو مدت ملازمت کے قانون کے لیے قائل کیوں کریں‘ سپہ سالار صرف پی ٹی آئی کا‘ یا میرا نہیں ہے ۔ وزیر موصوف درست کہتے ہیں‘ لیکن جب یہی حکومت فتح کے شادیانے بجا رہی تھی تو اس وقت معاملہ مختلف تھا۔
ایک صفحہ پر ہونے کی دعویدار حکومت شاید اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا کر کے انہیں ناپسندیدہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ‘لیکن کیا تصادم کسی بھی حکومت کو راس آ سکتا ہے ؟ کیا سیاسی کشمکش ملک کے معاشی مفاد میں ہے ؟ رسہ کشی اور طاقت کی نمائش کی خواہش میں مبتلا وزرا کیا وزیراعظم عمران خان سے مخلص ہیں؟
وزیراعظم کاسندھ حکومت کو چارج شیٹ کرنا اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت سندھ فتح کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے گورنر راج یا وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی کسی کیس میں گرفتاری کی افواہیں گردش میں ہیں۔ سندھ میں گورنر راج سیاسی خودکشی کے سوا کچھ نہیں‘ جبکہ ایک وزیراعلیٰ کی گرفتاری بھی صوبے میں سنگین سیاسی اثرات مرتب کرے گی۔ سندھ میں گورنر راج یا وزیراعلیٰ کی گرفتاری کا آپشن پہلی بار سامنے نہیں آیا‘ دسمبر 2018 ء کے آخر میں وفاقی حکومت نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں شامل کیا تھا۔ اس پر اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے وفاقی کابینہ کو فیصلے پر نظر ثانی کے لیے کہا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وفاقی کابینہ نے حقائق تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وفاقی کابینہ وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت ان صوبوں کے وزرا ء اعلیٰ کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کرتی جہاں ان کی اپنی حکومت ہے ۔ سماعت کے دوران جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں مراد علی شاہ کا نام آنے پر صوبہ سندھ میں گورنر راج کا معاملہ بھی آیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے گورنر راج لگایا تو ایک منٹ میں اُڑا دیا جائے گا۔
تحریک انصاف نے عدالتی ریمارکس کے باوجود اپنی خواہش کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کیا تھا اور اُس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ مراد علی شاہ کو استعفیٰ دینا چاہیے اور پیپلز پارٹی کا نیا وزیراعلیٰ آنا چاہیے۔ گورنر راج کا تو جواز نہیں مگر اس بات کا بھی کوئی جواز نہیں کہ وہ وزیراعلیٰ جو اپنی حکومت ایک نجی گروپ کے پیسے بنانے کے لیے استعمال کر رہا تھا (عہدے پر) برقرار رہے ۔
تحریک انصاف کی ان کوششوں پر اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا ردعمل شدید تھا۔ پیپلز پارٹی نے ایسی کسی بھی کوشش کو صوبے کے مینڈیٹ کی توہین قرار دیا تھا اور بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ اگر زرداری اجازت دیں تو وفاقی حکومت دس دن میں گرا دیں گے ۔ سندھ حکومت گرانے کی کوششوں اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر اپوزیشن خاموش نہیں اور شہباز شریف لندن سے پریس کانفرنس کر کے ان ہاؤس تبدیلی کی بات کر چکے ہیں۔ ان ہاؤس تبدیلی ممکن ہے یا نہیں ؟ یہ بحث الگ ہے ‘لیکن ملک ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے ۔ اگر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا تو اس کی ذمہ دار اپوزیشن سے زیادہ حکومت خود ہو گی۔
موجودہ سیاسی صورتحال سے ایک بات واضح ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست دائرے کے سفر میں ہے اور دائروں کے مسافروں کا انجام ایک شاعر نے بیان کیا ہے ۔
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں
بے مراد ہیں پاؤں گردِ رہ سے اَٹ کر بھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں