امریکا میں الیکشن کا سال ہے اور کورونا وائرس کی قیامت اس سپر پاور پر نازل ہو چکی ہے۔ الیکشن کے برسوں میں عموماً ان مہینوں میں امریکی سیاست عروج پر ہوتی تھی لیکن اس سال کے الیکشن کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کو امیدوار کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ابتدائی مرحلے کی ووٹنگ کئی ریاستوں میں ملتوی کرنا پڑی ہے۔ اس ابتدائی مرحلے میں پارٹی اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ داروں کے نمائندہ تصور ہونے والے امریکا کے سابق نائب صدر جو بائیڈن اور سوشلسٹ نظریات رکھنے والے برنی سینڈرز میں مقابلہ تھا لیکن برنی سینڈرز اب اس دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں اور جو بائیڈن ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار بن چکے ہیں۔
ہر ایک شہری کے لیے صحت کی مفت سہولیات، تعلیمی نظام میں ہر ایک کے لیے یکساں مواقع اور امریکی شہریوں کی اجرت میں اضافے کا منشور رکھنے والے برنی سینڈرز نے الیکشن کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں امریکیوں کی قابل ذکر تعداد ان کے ہم خیال ہونے کے باوجود ان کے منتخب ہونے کے امکانات جو بائیڈن کی نسبت کم تھے۔
پاکستان میں آٹا، چینی سکینڈل، قرضہ کمیشن کی رپورٹ اور حکمران جماعت کے اندرونی اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کی خبروں کے باوجود آج میں امریکی الیکشن پر کیوں بات کرنا چاہتا ہوں اور اپنے قارئین کو ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر کچھ بتانے کی بجائے ایک سپر پاور کا دکھڑا لے کر کیوں بیٹھا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی سیاست کو ہمارے ہاں ایک مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ملک میں اعلیٰ سیاسی کرداروں کی مثال کے لیے ہماری نظریں ترقی یافتہ دنیا کی طرف اٹھتی ہیں۔ ہمیں ترقی یافتہ دنیا میں چند ایک مثالیں مل جاتی ہیں جن کو استعمال کر کے ہم اپنے سیاست دانوں کو نیچا دکھانے کی غرض سے خوب تشہیر کرتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ہمارے ہاں اس جملے یا کہاوت کو بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ماننے یا بتانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا کہ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست بھی اتنی ہی بے رحم ہے۔
کورونا وائرس امریکا اور ترقی یافتہ یورپی ملکوں پر اس طرح قیامت ڈھا رہا ہے کہ اب انہیں بچنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ معاشی بحران سر اٹھا چکا ہے۔ بے روزگاری کا سیلاب بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ حکومتیں جو کبھی کہا کرتی تھیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے ان کے پاس رقم نہیں، اب اربوں ڈالر کے پیکیجز کے اعلانات کر رہی ہیں۔ مارکیٹ اکانومی کو سہارا دینے کے لیے سرمایہ گردش میں لانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ جو پہلے کہتے تھے‘ غریبوں کی مدد کے لیے بجٹ نہیں‘ اب وہ کروڑوں بے روزگاروں کو الاؤنسز دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جو سرمایہ داری نظام کے رکھوالے ہیں ان کی سوچ اور پالیسیاں اب سوشلسٹ سوچ رکھنے والوں جیسی بنتی دکھائی دے رہی ہیں ۔
ڈیموکریٹ پارٹی میں سوشلسٹ سوچ رکھنے والا سینیٹر برنی سینڈرز بھی اصرار کرتا تھا کہ حکومتوں کے پاس غریبوں کی مدد کے وسائل موجود ہیں اور وہ صدارت کے عہدے کے لیے جدوجہد بھی اسی لیے کر رہا تھا کہ وہ غریب عوام پر خرچ کر سکے ۔ برنی سینڈرز امریکا کے سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلی چاہتا تھا تاکہ سرمایہ داری نظام میں پستے ہوئے عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ریاست کے کردار کو متحرک کر سکے۔
کورونا وائرس نے جو قیامت ڈھائی ہے‘ اس کے بعد صدارت کی دوڑ سے باہر ہونے والے برنی سینڈرز کا خواب جزوی طور پر پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے ٹھیکے دار‘ جو عوام پر رقوم خرچ کرنے کو پاگل پن سمجھتے تھے‘ اب تجوریاں کھولنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ برنی سینڈرز‘ جو 2016ء اور اب 2020ء کے الیکشن میں پارٹی امیدوار نامزد نہیں ہو پایا اور اس کی راہ میں حائل ہونے والے سرمایہ داری نظام کے ٹھیکے دار اب اس کے فلسفے کو اپنانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کورونا وائرس کے طویل مدتی اثرات میں اس کی سوچ اور پالیسیاں ہی اب سرمایہ داری نظام والے ملکوں کے لیے اکسیر کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔ برنی سینڈرز کو غصیلا اور ضدی بوڑھا کہنے والے دانشور بھی اب اس کی سوچ اپنا رہے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ان کی انا برنی سینڈرز کی تعریف اور اس کے فلسفے کی براہ راست تائید میں اب بھی آڑے آ رہی ہے۔
2016ء میں برنی سینڈرز کے مقابلے میں ہلیری کلنٹن سرمایہ دارانہ نظام کی پسندیدہ امیدوار تھی، برنی سینڈرز مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوا لیکن عدم مساوات کے شکار عوام نے سرمایہ داروں کی نمائندہ ہلیری کلنٹن کو بھی ووٹ دینے سے گریز کیا اور ٹرمپ ان پر مسلط ہو گیا۔ برنی سینڈرز امیدوار نہ بن سکا لیکن اس نے ہلیری کلنٹن کی حمایت کے اعلان سے بھی گریز کیا۔ اس طرح برنی سینڈرز کا ہم خیال ووٹ ہلیری کلنٹن کے حصے میں نہ آیا اور وہ شکست کھا گئی۔
عوام کے لیے صحت کی سہولیات پر زور دینے والا برنی سینڈرز آج پارٹی میں امیدوار بننے کی دوڑ سے باہر ہو چکا‘ لیکن امریکا میں کورونا وائرس کے متاثرین اور اموات کے اعداد و شمار آج اسے درست ثابت کر رہے ہیں، امریکا میں کورونا وائرس کے متاثریں میں سب سے زیادہ شرح سیاہ فام امریکیوں کی ہے جو صحت سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم بڑا طبقہ ہے۔ برنی سینڈرز نے خبردار کیا تھا کہ جو سیاسی اور معاشی نظام عام آدمی کی قیمت پر امیروں کو مزید امیر بنا رہا ہے، اب چلنے کے قابل نہیں رہا اور کسی وقت بھی اس کا بھٹہ بیٹھ سکتا ہے۔ آج امریکا میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار برنی سینڈرز کو درست ثابت کر رہے ہیں۔
برنی سینڈرز نے برسوں جدوجہد کی کہ ترقی کے ثمرات تمام امریکیوں تک پہنچنے چاہئیں اور یہ ثمرات قومی دولت پر قابض ایک فیصد طبقے کے ہاتھوں تک محدود نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ امکانات موجود ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے قابل ہونے تک ہزاروں امریکی جانیں گنوا بیٹھیں جس کی وجہ صرف اور صرف بے رحمانہ نظام ہو گا۔
پاکستان میں بھی بار بار کے آٹا، چینی بحران، اربوں روپے کی کرپشن کے سکینڈل اور ملزموں کا ہر بار بچ جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ نظام فرسودہ ہو چکا اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے اس نظام کی سرجری ضروری ہے۔ ہمیں بھی برنی سینڈرز جیسے سیاست دان چاہئیں جو نظام سے ٹکر لے سکیں اور بار بار کی وقتی ناکامیاں انہیں مایوس نہ کر پائیں۔ اکثر یوں لگتا ہے کہ دیواروں سے سر پھوڑ رہے ہیں اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آنے والا، لیکن جدوجہد جاری رکھی جائے تو پھل مل ہی جاتا ہے‘ جیسے سیاہ فام امریکیوں نے اپنے حقوق کے لیے لمبی جدوجہد کی اور 2008ء میں ایک سیاہ فام سیاست دان بارک اوباما امریکا کا صدر بن گیا جس کا کبھی تصور بھی ممکن نہیں تھا۔
کورونا وائرس نے ریاستوں اور حکمرانوں کو یہ سبق بھی دیا ہے کہ صرف سرمایہ داروں پر انحصار قوموں کے لیے کس قدر المناک نتائج لا سکتا ہے۔ آج جب کورونا وائرس کی وبا ہر کسی کو بلا امتیاز لپیٹ میں لے رہی ہے تو سرمایہ دار اپنے محفوظ محلات میں پناہ لے چکے ہیں‘ اور ملکوں اور نظام کے لیے سہارا ان کے ڈاکٹرز، نرسز، ہیلتھ ورکرز، ایمرجنسی اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار، دکانوں پر کام کرنے والے گروسری کلرک اور ان جیسے کروڑوں عام آدمی ہی ہیں، ان کے بغیر سماج نہیں چل سکتا۔ سماج افراد سے مل کر بنتا ہے اور سماج کا ہر فرد اس کے لیے اہم ہونا چاہئے، مارکیٹ اکانومی نے سماج میں جو عدم مساوات پیدا کی ہے، کورونا کی اس وبا کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس عدم مساوات کے خاتمے پر بھی توجہ دینا ہو گی ۔