کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اس طرح لپیٹ میں لیا ہے کہ شہری اور مذہبی آزادیاں تک چھن گئی ہیں اور شہری حقوق کے بین الاقوامی ادارے ان آزادیوں کے چھن جانے پر واویلا بھی نہیں کر رہے۔ اگر آواز اٹھائی بھی جا رہی ہے تو صرف اس حد تک کہ کورونا وائرس کے مریضوں کا ریکارڈ رکھنے والی موبائل فون ایپلی کیشنز اور نگرانی کے دیگر طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا لیک ہونے اور اس تک ہر کسی کی رسائی پر اعتراض کیا جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتوں کو شہریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور ان کی آزادی محدود کرنے کا لائسنس مل گیا ہے اور شہری و انسانی حقوق کے چیمپئن ادارے بھی اس پر معترض نہیں ۔
ہمارے ہمسایہ اور دشمنی کی حد تک حریف ملک بھارت میں کورونا وائرس کے تدارک کے لیے کئے جانے والے حکومتی اقدامات کی آڑ میں شہری و مذہبی آزادیوں کی پامالی کا نیا ریکارڈ بن رہا ہے۔ بھارت میں کسی بھی بڑے سے بڑے واقعہ پر ہمیشہ خاموش رہنے والے اور مذہبی منافرت اور ہندوتوا کو فروغ دینے والے نریندر مودی کو بھی اپیل کرنا پڑی ہے کہ کورونا وائرس مذہب، عقائد، رنگ یا نسل کی بنیاد پر لوگوں میں فرق نہیں کرتا۔
مودی کو یہ اپیل کرنا پڑی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک تصویر بھارت کی معروف مصنفہ اور انسانی حقوق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرنے والی اروندھتی رائے نے جرمن نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں پیش کی۔ اروندھتی رائے نے خبردار کیا کہ اس وبا کی آڑ میں بھارت میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں کورونا کے خلاف جدوجہد کا مذہبی پہلو بھی ہے، اس کی مثال میرٹھ کی ہے جہاں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر ''کورونا جہاد‘‘ میں مصروف تھے ۔ اروندھتی رائے کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کووڈ 19 کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے۔
اروندھتی رائے نے کہا کہ جس طرح ہندوستان میں کووڈ 19 مرض کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اروندھتی رائے نے ہندوستان کے عوام اور دنیا بھر کے لوگوں سے کہا کہ وہ اس صورت حال کو ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔
اروندھتی رائے نے خوفناک منظر کشی کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اس وبا کے ساتھ منسلک کئے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سامنے آ گئی ہیں، آپ ہر جگہ ان کی باز گشت سن سکتے ہیں، اس بات کے ساتھ تشدد اور خونریزی کا خطرہ جڑا ہوا ہے، اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی نہیں کر سکتی۔
اروندھتی رائے نے کس طرف اشارہ کیا اس کی چند ایک مثالیں بھارت کے اپنے میڈیا سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اتر پردیش کے ایک کینسر ہسپتال نے اخبار دینک جاگرن میں اشتہار دیا کہ وہ کسی نئے مسلمان مریض کو قبول نہیں کریں گے اور پہلے سے داخل مسلمان مریضوں کو اس وقت تک ہسپتال آنے کی اجازت نہیں ہو گی جب تک وہ کورونا کی نیگیٹو رپورٹ نہیں لاتے۔ اس اشتہار میں کہا گیا کہ یہ پالیسی کورونا وبا کے خاتمے تک مؤثر رہے گی۔ کسی ہسپتال کا ایک مذہبی طبقے کے افراد کو داخل نہ کرنے کا اشتہار کیا ہے اور کس کی شہ پر ایسا ہو رہا ہے‘ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ جموں کی مسلم گجر برادری کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان گوالوں سے دودھ نہ لیا جائے‘ یہ کورونا پھیلاتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا پر منظم مہم کے بعد امیر جماعت مولانا سعد دھلوی اور چار قریبی ساتھیوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور قتل خطا کا مقدمہ درج کرنا کیا ظاہر کرتا ہے، اس کے لیے لمبی چوڑی جانچ کی ضرورت نہیں رہتی۔ اتر پردیش اور دہلی سمیت کئی علاقوں میں مسلم خوانچہ فروشوں سے شناخت طلب کرنے کے بعد انہیں گھیر کر مارنے پیٹنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر عام ہیں جبکہ ہندو خوانچہ فروش زعفرانی جھنڈے لہراتے کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
بھارت میں مودی کے ترقی کے ماڈل گجرات کے شہر احمد آباد میں مذہب کی بنیاد پر کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے وارڈز بنائے گئے ہیں۔ سول ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر وارڈز ریاستی حکومت کے حکم پر بنائے گئے ہیں۔
بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس سوال کا جواب معروف بھارتی ماہر معیشت امرتیہ سین نے ایک مضمون میں دیا ہے۔ امرتیہ سین نے لکھا کہ کوئی بھی سرکار لافانی نہیں ہوتی، بھلے ہی حکمران طبقے کو یہ مغالطہ رہتا ہو، موجودہ وقت میں سرکار بھلے ہی تسلیم شدہ معیاروں کی دھجیاں اڑانے میں کامیاب ہو جائے‘ لیکن آنے والے وقت میں اس کو اسی طرح سے نہیں دیکھا جائے گا۔ اس کے کچھ اور معنی بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق کے خلاف لکھی گئی فیض احمد فیض کی مشہور نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ نے مستقبل کے اس وقت کی طرف اشارہ کیا تھا جب آج کی کار گزاریوں کو الگ طرح سے دیکھا جائے گا۔ اس وقت ضیاء الحق بے حد طاقت ور تھے، لیکن انہیں آج کیسے دیکھا جاتا ہے؟ اور لاطینی امریکا کے کل کے سیاسی طور پر ناقابل تسخیر تانا شاہ حکمرانوں کو آج کس طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا ہندوستان کے حکمران تاریخ کے ذریعے کئے جانے والے فیصلوں سے پوری طرح انجان ہیں؟ کیا انہیں نہیں پتہ کہ وقتی طور پر وہ جو کچھ کر لیں‘ جب کچھ وقت گزرے گا اور تاریخ ان کو اپنی کسوٹی پر آنکے گی تو یقیناً اس کا نتیجہ وہ نہیں ہو گا‘ جو اس وقت ان کی سوچ ہے۔ نتائج اس سے بہت مختلف اخذ کئے جائیں گے۔
امرتیہ سین نے لکھا کہ دوسری بات کا تعلق ہماری قومی تاریخ سے ہے۔ ہندوستان نے آزادی کی جدوجہد کے دوران جمہوری حقوق کے لیے لمبی لڑائی لڑی، کئی لوگوں نے ہمارے ملک میں آزاد جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں اور کئی لوگوں نے شدید تکلیف اٹھائی، کئی الگ الگ مذاہب، عقائد اور پنتھ کو ماننے والے لوگوں نے شاندار ڈھنگ سے کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد کسی مغرور نظام کے ہاتھوں من مانی حکمرانی کے لیے نہیں تھی۔ اپنے نو آبادیاتی ماضی میں ہم برٹش راج کے شہری ہونے کے ناتے اپنی کمتر حیثیت کو سمجھ سکتے تھے لیکن کیا اپنی جمہوریت میں بھی ہم اسی طرح کی محکومی کو قبول کر سکتے ہیں؟
نریندر مودی کورونا وائرس کے حوالے سے مذہبی تفریق کو اپنی اپیل میں مان چکے ہیں۔ کیا اب دنیا کو کسی اور ثبوت کی ضرورت ہے؟ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور اسلامی ملکوں کی تنظیم کو اس صورت حال کا سنجیدگی اور سختی سے نوٹس لینا ہو گا‘ قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے اور بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ دراز ہو جائے۔ بھارت کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقات کی طرف سے اس معاملے پر آواز اٹھانا بھی قابل تحسین ہے اور مذہبی تعصب کو چھوڑ کر اقلیتوں کے لیے آواز بلند کرنے والے بھی انسانیت کا فخر ہیں۔
نریندر مودی کورونا وائرس کے حوالے سے مذہبی تفریق کو اپنی اپیل میں مان چکے ہیں۔ کیا اب دنیا کو کسی اور ثبوت کی ضرورت ہے؟ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور اسلامی ملکوں کی تنظیم کو اس صورت حال کا سنجیدگی اور سختی سے نوٹس لینا ہو گا‘ قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔