میں اپنے ایک دوست حافظ امیر علی کے ہمراہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ پہنچا، جہاں ہمارے ایک دوست سلیم رضا نے ہمیں ائیرپورٹ پر لینے کے لئے آنا تھا۔ امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنا اپنا بیگ لئے جب ہم دونوں باہر نکلے تو سلیم رضا صاحب کہیں دکھائی نہ دئیے۔ پریشانی کے عالم میں ابھی ہم خود سے کہیں جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک پاکستانی نوجوان ہمارے پاس آیا اور ہماری شکلیں پہچانتے ہوئے ہمکلام ہوا: کیا آپ عمران یعقوب خان اور حافظ امیر علی اعوان ہیں؟ جی ہم دونوں ہیں مگر آپ کون؟ حافظ صاحب نے پوچھا۔ جی میرا نام عامر رضا ہے اور میں سلیم رضا صاحب کا بھائی ہوں، وہ ہسپتال میں داخل ہیں اس لئے انہوں نے مجھے آپ دونوں کو ائیرپورٹ سے لینے کے لئے بھیجا ہے۔ اللہ خیر کرے ، سلیم بھائی کو کیا ہوا؟ ہم نے پوچھا۔ جی ان کو سائنیسز کا مسئلہ ہے اور کل ان کا آپریشن ہے‘ عامر رضا نے جواب دیا۔ پھر تو ہمیں ائیرپورٹ سے سیدھے ہسپتال جانا چاہیے تاکہ سلیم بھائی کی عیادت کی جا سکے‘ میں نے کہا۔ جی نہیں، یہ پاکستان نہیں، یہاں مقررہ اوقات اور ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر نہ تو ان سے کوئی مل سکتا ہے اور نہ ہی تیمارداری کی غرض سے ان کے پاس رک سکتا ہے ؛ البتہ آپریشن کے ایک روز بعد جب اجازت ملے گی تو میں آپ لوگوں کو لے جائوں گا‘ عامر نے ایک ہی سانس میں اتنی لمبی اور ہم دونوں کے لئے حیران کن بات کردی۔ خیر کچھ ہی دیر میں ہم ہوٹل پہنچ گئے اور عامر رضا ہمیں پھر ملنے کا کہہ کر چلا گیا۔
وعدے کے مطابق تیسرے دن عامر ہمیں سلیم رضا بھائی کی عیادت کے لئے ہسپتال لے گیا۔ ہسپتال کیا تھا، ایسا محسوس ہوا‘ جیسے ہم کسی الگ ہی دنیا میں آگئے ہوں، نہ کوئی رش، نہ کوئی چیخ و پکار اور نہ ہی مریضوں کے لواحقین اور ہسپتال کے عملے میں کوئی تکرار۔ جیسے راوی واقعی میں سب چین ہی چین لکھ رہا ہو۔ سلیم بھائی کے کمرے میں پہنچے تو وہ آرام سے بیڈ پر لیٹے اپنے پاس موجود نرس، (جو کہ ان کا بلڈ پریشر اور ٹمپریچر وغیرہ چیک کررہی تھی) کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ سلام دعا اور خیر خیریت کے بعد میرے استفسار پر انہوں نے بتایاکہ جرمنی میں حکومت اپنے شہریوں کے علاج معالجے کو اپنی ترجیحی ذمہ داری سمجھتی ہے اور اس کے لئے انہوں نے سرکاری سطح پر اور ہیلتھ انشورنس کے ذریعے سے ایک ایسا مربوط اور فعال نظام بنا رکھا ہے کہ مریض کو نہ تو اپنے علاج کے لئے رقم کی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی ہسپتال میں علاج کے دوران باہر سے ادویات، کھانا اور دیگر سامان وغیرہ لانے کے لئے کسی اٹینڈنٹ کی۔
مجھے خیال آیا کہ کیا پاکستان میں بھی کوئی ایسا ہسپتال ہو سکتا ہے جہاں مریض کے ساتھ تیمارداروں کی فوج نہ ہو بلکہ ہسپتال کے ڈاکٹر اور عملہ اس مریض کی تمام ذمہ داری خود اٹھا لیں۔ یقین جانیں سوچ کی تمام حدیں گزر کر بھی کوئی ایسا ہسپتال ذہن میں نہ آ سکا جہاں اس طرح کا علاج اور تیمارداری ممکن ہوسکے؛ البتہ اسی کورونا وبا کے دوران میو ہسپتال میں ایک مریض کی ویڈیو نے دل دھلا دیا تھا۔ رسیوں سے بندھا ایک بزرگ مریض اپنی خرابیٔ طبیعت کی دہائی دیتا رہا لیکن اسے اٹینڈ کیا گیا نہ ہی بروقت دوا علاج کیا گیا۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جانے والے اس بزرگ کو بعد میں ذہنی مریض قرار دے کر جان چھڑا لی گئی۔ اسی ویڈیو کو دیکھ کر ہمارے دوست وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے بھی ایک ٹویٹ کی کہ یہ کیسا صحت کا نظام ہے جہاں اس قدر غفلت اور مریضوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے‘ بلکہ انہوں نے ایک انکوائری کا بھی مطالبہ کیا جو تاحال ممکن نہیں ہو سکی بلکہ یہ کیس پر مٹی ڈال کے بند کر دیا گیا ہے ۔
میری آنکھوں کے سامنے یہ مناظر گھوم رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے حکمرانوں نے کاش کوئی ایسا ہسپتال بنایا ہوتا جہاں علاج کی جدید سہولیات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انسانی قدریں بھی وجود میں آسکتیں ۔لیکن ایسا تب ممکن ہوتا جب ہمارے سیاستدان اپنا علاج اسی ملک میں کراتے ۔ کوئی ایسا ہسپتال بنا دیتے جہاں ان کی بیماریوں کا علاج ممکن ہوتا۔
دنیا بھر میں 120سے زائد ممالک نے صحت کو منصفانہ نظام قانون اور جمہوری سیاسی نظام کی طرح آئین کا حصہ بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف ہمارے نظام صحت کی حالت اتنی کمزور ہے کہ کہیں پر ڈاکٹر نہیں‘ کہیں پر دوائی نہیں، اور کہیں پر ٹیسٹ کی سہولیات نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھی لوگوں کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ اسی لیے لوگ پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتے ہیں اس وقت پاکستان میں صحت پر اٹھنے والے اخراجات کا73 فیصد لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں بقیہ 27 فیصد فلاحی اور پرائیویٹ ادارے ادا کرتے ہیں جبکہ اس پورے عمل میں حکومت کا حصہ بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان، صحت پر اخراجات کے حوالے سے صومالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صحت پر حکومت کا خرچ 6 ڈالر فی کس ہے جبکہ عالمی ادارہ شماریات کے مطابق اس کی شرح فی کس 35 سے 50 ڈالر تک ہونی چاہیے ۔
جہاں یورپ اور امریکہ سمیت باقی دنیا کے جدید نظامِ صحت کورونا کے سامنے ڈھے گئے ہیں وہاں ہمارے جیسے ملک، جہاں صحت پر عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق جی ڈی پی کا 4 فیصد خرچ ہونا چاہیے تھا وہاں اکنامک سروے آف پاکستان کی19- 2018 کی رپورٹ کے مطابق ایک فیصد سے بھی کم یعنی محض 0.53 فیصد خرچ ہو رہا ہے ۔ ہمارے ہاں جہاں ہر 963 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر جبکہ 1608 افراد کے لئے ہسپتال کاایک بستر ہو، اس کا نظام صحت کس کھیت کی مولی ہو گا۔
پڑوس میں بھارت اپنے جی ڈی پی کا 1.28 فیصد صحت پر خرچ کر رہا ہے جبکہ او ای سی ڈی ممالک کے نظام صحت پر دستیاب تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ 16.9کے ساتھ سر فہرست، کینیڈا 10.7، جرمنی 11.2، اٹلی 8.8، فرانس 11.2، اور انگلینڈ میں 9.8 اپنے نظام صحت پر جی ڈی پی کی شرح سے خرچ کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلانیہ مجریہ 1948میں کہا گیا ہے کہ ''ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے آئین میں درج ہے کہ صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے ۔
لیکن 72 برسوں میں ہماری کسی حکومت نے ایسا کوئی ڈکشنری پروگرام نہیں دیاکہ جس سے وہ ہسپتالوں کے اندر موجود سہولیات، عملے کی تربیت اور مریضوں کی دیکھ بھال کا کوئی ایسا نظام وضع کر سکے‘ جہاں سے بات شروع ہوئی تھی یعنی ہسپتالوں کا ایسا خود کار نظام جہاں مریض کو ہسپتال میں آنے کے بعد ہسپتال اپنی ذمہ داری سمجھے جبکہ مریض کے لواحقین مریض کے ہمراہ ہسپتال کے اندر کاریڈورز میں اور باہر لان میں بستر لگا کر موجود نہ ہوں بلکہ اپنی معمول کی زندگی کو جاری و ساری رکھیں اس امید اور اعتماد کے ساتھ کہ ان کا مریض محفوظ ہاتھوں میں ہے بلکہ اس کا خیال لواحقین سے زیادہ رکھا جائے گا‘ اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب سسٹم مسیحائی جیسے مقدس پیشے کا تحفظ عزت اور احترام پیدا کرنے کے لیے وہ اقدامات کرے گا۔
میں بالکل بھی مایوس نہیں ہوں کیونکہ ہمارے معاشرے میں انسانیت کی رمق اب بھی باقی ہے ۔ پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والے لوگوں میں شامل ہیں ۔ ہم لوگ ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھنا ، کسی کی مدد کرنا آج بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ جب بھی ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کا بنیادی مقصد معاشرے کے ہر فرد کی ترقی اور خوشحالی سے جڑ جائے گا اس دن یقینی طور پر ایک ایسا ہسپتال بھی بن جائے گا۔
یاد رکھیے ، معاشرے صرف سرمایہ سے تشکیل نہیں پاتے انہیں مضبوط اور جڑ دار بنانے کے لیے اعلی انسانی قدروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کاش میں اپنے ملک پاکستان میں بھی ایک ایسا ہسپتال بنتا دیکھ سکوں ۔