سیاسی و حکومتی اختیارات کے لیے ہونے والی جدوجہد کو پاور پالیٹکس کہا جاتا ہے۔ پاور پالیٹکس کو اردو میں صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو دراصل یہ اختیارات کی جنگ ہے جس سے عوام کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ پاور پالیٹکس میں اصل بات ایجنڈا سیٹنگ ہے۔ ایجنڈا طے کرتے ہوئے ایشوز اور نان ایشوز کا تعین کیا جاتا ہے۔ ایشوز اور نان ایشوز طے کرنے والوں کے اپنے پوشیدہ مفادات ہوتے ہیں، بااختیار اور محکوم طبقات کے لیے ایشوز اور نان ایشوز مختلف ہوتے ہیں۔ حقیقی عوامی ایشوز یعنی محکوم طبقات کے مسائل کے حوالے سے اشرافیہ کئی طرح کے رویے اپناتی ہے۔ کبھی تو کسی مسئلہ کو مخالفین کی افواہ قراردے کر نظرانداز کیا جاتا ہے، کبھی اس مسئلہ کے وجود کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور عوام کوایسے مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مسائل پر توجہ چھوڑ کر صاحبان اختیار کے پیداکردہ مسائل کو اصل ایشو سمجھ بیٹھتے ہیں۔ صاحبان اختیار جو ایجنڈا طے کرتے ہیں اسے آگے بڑھانے کیلئے معاشرے کے کئی طبقات ان کا ساتھ دیتے ہیں، جیسے بیوروکریسی، جبکہ میڈیا بھی کردار ادا کرتا ہے۔
آج خبروں پر نظر ڈالی تو اندازہ ہواکہ صاحبان اختیار نے جو ایجنڈا طے کیا ہے اسے آگے بڑھانے میں پوری طرح مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ ہیڈ لائنز کراچی کے ایک گینگسٹر عزیر بلوچ کے گناہوں کی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ پر سندھ اور وفاق کے اختلافات پر مبنی ہیں، عزیر بلوچ کون ہے؟ اس نے کراچی اور کراچی والوں کے ساتھ کیا ظلم کئے؟ اس کے گناہوں میں پولیس، انتظامیہ اور سیاسی اشرافیہ کا کیا کردار تھا؟ اس پر برسوں سے بحث ہو رہی ہے؟ جب کبھی صاحبان اختیار میں کشمکش شروع ہوتی ہے تو عزیر بلوچ اور ایک سابق ایس پی کراچی پولیس کے قصے اچھالے جاتے ہیں۔ صاحبان اختیار پریس کانفرنس کرتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہیں، الزام تراشی کے لیے مقدس کتابوں کو سر پر رکھ کر قسمیں اٹھائی جاتی ہیں۔ ایجنڈا پورا ہوتے ہی عزیر بلوچ جیسے کردار پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا اور ان گینگسٹرز کو جیلوں میں بھی آرام کی زندگی مہیا کی جاتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر ان جیسے مافیاز کی فائلوں سے گرد جھاڑ کر دوبارہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
صحافتی زندگی میں کئی بار ایشوز اور نان ایشوز کی بحث ہوئی۔ آج تک اس پر کہیں اتفاق نہیں ہو پایا لیکن میری رائے میں حقیقی ایشوز وہ ہیں جومحکوم طبقات (جو ایجنڈا سیٹنگ کے عمل سے باہر ہیں) کے نزدیک ایشوز ہیں۔ اقتدار کی کشمکش اس قدر دلچسپ اور سنسنی خیز بنا دی گئی ہے کہ عوام اپنے مسائل بھول کر یا بھلانے کیلئے اس میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں جیسی کبھی مولا جٹ جیسی فلموں میں لی جاتی تھی۔ مولا جٹ گھوڑے پر سوار دشمنوں کا صفایا کرتا، کشتوں کے پشتے لگاتا پردے پر آتا تو سینما ہال میں بیٹھے محرومیوں کے مارے عوام اپنے ذہنوں میں اسے حقیقی زندگی کا ہیرو تصور کرتے۔ مولا جٹ کے مقابل ولن کو معاشرے کی سب سے بڑی برائی سمجھا جاتا۔ اس کے فلمی قتل پر سیٹیاں بج اٹھتیں اور دکھوں، محرومیوں اور غربت کے مارے عوام اپنا کتھارسس کرکے گھروں کو لوٹتے ہوئے سوچتے کہ کبھی حقیقی زندگی میں بھی اس جیسا ہیرو آکر تمام ظلم و ناانصافی کا خاتمہ کر دے گا‘ لیکن اگلے دن صبح اٹھ کردوبارہ مسائل کے انبار کا سامنا کرتے اور ہفتے بعد دوبارہ سینما گھر جا کر کسی نئے ہیرو کو تلاشتے۔ سیاسی منظرنامہ بھی عوام کے لیے مولا جٹ فلم سے کم دلچسپ نہیں۔ اس سیاسی فلم کے کرداروں میں ہر کسی نے اپنی مرضی کا ہیرو چن رکھا ہے اور ولن کا تعین بھی خود کر رکھا ہے، لیکن انجام مولا جٹ کے فلمی پردے جیسا ہے کہ ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کا کیا بنے گا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن سیاست کے ہیرو اور ولن اپنا کردار نبھا کر عوام کو مصروف رکھے ہوئے ہیں اور میڈیا بھی اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہے۔ چینی سکینڈل کا کیا بنا؟ کیا عوام کو چینی سرکار کے جاری کردہ نرخ نامے کے مطابق مل رہی ہے؟ گندم کی فصل کٹائی کے ساتھ ہی مارکیٹ سے غائب ہو چکی، ذخیرہ اندوز پکڑے گئے نہ عوام کو آٹا سرکار کے مقررکردہ نرخوں پر دستیاب ہے۔ حکومت فلور ملز مالکان سے کامیاب مذاکرات کا دعویٰ کرتے ہوئے پنجاب میں آٹے کا تھیلا850 روپے کرنے کا اعلان کرتی ہے لیکن مقررہ ریٹ پر آٹا نہیں ملتا۔ حکومت دوبارہ مذاکرات پر مجبور ہوجاتی ہے۔ پھر اعلان ہوتا ہے مذاکرات کامیاب ہو گئے اور اب 20کلو آٹا کا تھیلا 860 روپے میں ملے گا‘ جس کے تحت آٹے کی قیمت 43 روپے فی کلو ہوگی۔ کیا یہی وہ احتساب ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو سزا دینے، کٹہرے میں لانے کے بجائے ان سے مذاکرات کا کھیل رچایا جاتا ہے اور سرکار ان ذخیرہ اندوزوں کی حرام خوری پر حلال کا ٹھپہ لگا دیتی ہے۔ ایک زرعی ملک میں جب عوام کو آٹا بھی سرکاری اور جائز نرخوں پر مہیا نہیں کیا جا سکتا تو پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے ضروریہ‘ جن میں ملک خود کفیل نہیں، پر حکومت کیا ریلیف دلوائے گی؟ ملک کو مافیاز کے قبضے سے چھڑانے کا دعویٰ کرنے والے یا تو بے بس ہیں یا مافیاز حکمران جماعت کے اندر گھس چکے ہیں۔
ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اور اہم ذمہ داری علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ لاہور کے امراض قلب کے ادارے میں سابق حکومت کے دور میں گھٹیا دواؤں پر میڈیا اور تحریک انصاف نے خوب شور مچایا تھا۔ ہسپتال انتظامیہ کے بجائے حکمرانوں کو چور اور قاتل کہا گیا۔ ایک معاصر انگریزی روزنامے نے دو دن پہلے رپورٹ شائع کی کہ سروسز ہسپتال میں لوکل پرچیز کے ذریعے بے ہوشی کی گھٹیا ترین دوا مارکیٹ سے مہنگے داموں خرید کر استعمال کی گئی۔ اس دوا نے دو مریضوں کی جان لے لی جبکہ کئی مریضوں کا جگر متاثر ہوا۔ یہ کہانی تو رپورٹ ہو گئی، ایسے ہی کئی سکینڈل میڈیا کی نظروں میں نہیں آ پاتے یا پھر نمائندگان کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ریاست کی ایک اور ذمہ داری تعلیمی سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس کا اندازہ حال ہی میں تمام میڈیا پر آنے والی ایک خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی سرکاری شعبے کی واحد انجینئرنگ یونیورسٹی دیوالیہ ہوگئی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈز دستیاب نہ ہونے پر تدریسی عملے کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا‘ جہاں تحریک انصاف دوسری بار حکومت میں ہے، کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ کورونا وبا سے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکی تھی۔ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آصف خان نے جنوری میں خط لکھ کر صوبائی حکومت کو آگاہ کیا تھاکہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کی وجہ سے فروری کے مہینے سے اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن نہیں دے پائے گی‘ اس لیے یونیورسٹی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے گرانٹ کی منظوری دی جائے۔ خط میں کہا گیا کہ یونیورسٹی نے گزشتہ مہینوں میں صوبائی حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو متعدد بار کہا کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور ان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج دیا جائے لیکن حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
عوام کو آٹا، چینی مناسب نرخوں پر دستیاب نہیں، پٹرول مافیا اربوں روپے کی واردات کرکے حکومت سے مذاکرات میں جیت چکا، صحت کی حالت یہ ہے کہ ہسپتالوں میں گھٹیا معیار کی مہنگی دوائیں خریدی جا رہی ہیں، یونیورسٹیوں کے دیوالیہ ہونے سے تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی اور حکومت کی ترجیحات کا خوب اندازہ ہو رہا ہے لیکن صاحبان اختیار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ''عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی‘‘ ہی ہے۔