جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘ یہ جملہ اکثر بلاول بھٹو کی زبانی سننے کو ملتا ہے۔ بلاول بھٹو تقریبا ً اپنی ہر تقریر میں جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں اور جمہوریت کیلئے اپنے خاندان کی قربانیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون و آئین اور سویلین بالا دستی کے حامی لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن جو کچھ آزاد کشمیر کے شہر باغ میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور کراچی میں مئیر کے انتخاب کے دوران دیکھنے کو ملا اس کے بعد بلاول بھٹو کے اس بیانیے ''جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ سے متعلق کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ جمہوریت اگر بہترین انتقام ہے تو یہ انتقام آخر لیا کس سے جائے گا؟ اگر یہ انتقام عوام سے لیا جانے لگے تو یہ جمہوریت نہیں البتہ سیاست ضرور ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان جمہوریت کا راگ الاپتے تو تھکتے نہیں لیکن حقیقت میں وہ صرف اپنی سیاست کو بچانے کے چکروں میں رہتے ہیں۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز سمجھنے والے ہمارے یہ رہبر سمجھتے ہیں کہ سیاست چمکانے کیلئے ہر حربہ جائز ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کیلئے جب صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی میں مقابلہ تھا تو اس وقت شبلی فراز نے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم چیئرمین سینیٹ کے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کو جتوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے‘ یعنی ہر حربے سے مراد بھرپور دھاندلی کے مواقع ڈھونڈنا ۔ بدقسمتی سے یہ دھاندلی قیام پاکستان کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ حال ہی میں کراچی میئر شپ کے انتخابات میں بھی یہ سلسلہ رکا نہیں ‘تھما نہیں۔میرے نزدیک عوام کا مینڈیٹ چوری کرنا ان سے انتقام لینے کے مترادف ہے اور یہ انتقام پیپلزپارٹی نے بخوبی لیا ہے‘ گو کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے اتحاد کیا اور جماعت اسلامی ان مخلوط نمبرز کی بدولت اپنا میئر کراچی یقینی طور پر بناسکتی تھی لیکن یہاں بھی حقیقی مینڈیٹ کو مصنوعی جمہوریت کھا گئی ہے۔ پیپلزپارٹی مرتضیٰ وہاب کو میئر کراچی بنانے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن جمہوریت ہار گئی۔پیپلزپارٹی لاکھ جیت کا جشن منا لے لیکن صاف نظر آرہا تھاکہ میئر کراچی جماعت اسلامی کا حق تھا۔میں آپ کو نمبر گیم بتا دیتا ہوں تاکہ ہمارے قارئین کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتیجے پیپلز پارٹی نے 104‘ جماعت اسلامی نے 87 اور پی ٹی آئی نے 42 نشستیں حاصل کیں۔الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے 8‘ جمعیت علما اسلام نے تین اور تحریک لبیک نے ایک نشست حاصل کی۔تمام جماعتوں کے کل 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ ان منتخب نمائندوں کی 121 مخصوص نشستیں بھی تمام جماعتوں میں نشستوں کے اعتبار سے تقسیم ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس 104 منتخب اور مخصوص ملاکر 155 نشستیں بنیں۔ اِسی طرح مسلم لیگ (ن) کی 14 اور جمعیت علما اسلام کی 4 نشستیں ملا کر 173 نشستیں بنیں۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اتحاد کرلیا اور اس اتحاد میں یہ طے پایا کہ میئر کراچی جماعت اسلامی اور ڈپٹی میئر تحریک انصاف کا ہوگا۔ جس کے بعد جماعت اسلامی کے 130 اور پی ٹی آئی کے 63 نمائندے ملا کر کل 193 نمبر بنے۔ اس طرح جماعت اسلامی باآسانی اپنا میئر منتخب کرواسکتی تھی کیونکہ اس کے پاس 20 ووٹ اضافی تھے ‘لیکن پیپلزپارٹی پُرعزم تھی کہ وہ اپنا میئر کراچی منتخب کروالے گی۔بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ یہ کہتے نظرآئے کہ جیت انہی کا مقدر بنے گی۔اور پھر جب انتخاب ہوا تو نتیجہ وہی نکلا۔پیپلزپارٹی اور کچھ تجزیہ کاروں کی نظر میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ہارنے کی وجہ تحریک انصاف کے اُن 30 اراکین کو قرار دیا جارہا ہے جنہوں نے اپنا فارورڈ بلاک بنا لیا تھا جس کی وجہ سے حافظ نعیم الرحمان کو 193 کی بجائے 160 ووٹ پڑے۔دیکھا جائے تو اس اعتبار سے حافظ صاحب کو 163 ووٹ پڑنے چاہئیں تھے لیکن ان کے تین مزید ووٹ کم ہوگئے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ ان کے نمائندوں کو اغوا کیا گیا‘ دھونس اور دھاندلی سے پیپلزپارٹی نے نوٹوں کے بل پر اپنا میئر کراچی منتخب کیا ۔
جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق نتائج کے بعد اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ منتخب نمائندوں کے اغوا‘ ووٹوں کی خریداری‘ دھونس دھاندلی سے میئر کراچی کا الیکشن آئین و جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر جمہوریت کو اس طرح مسلسل مذاق بنایا جائے گا تو اس پر لوگوں کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔میں سمجھتا ہوں سراج الحق صاحب نے درست کہا ہے کہ جمہوریت کو مسلسل مذاق بنایا گیا ہے۔یہ صرف میئر کراچی کے انتخابات تک نہیں بلکہ ہر انتخاب میں جمہوریت کی تذلیل کی گئی۔محترمہ فاطمہ جناح کی بات کروں تو ایوب خان کیخلاف صدارتی انتخاب میں بھی اُنہیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا۔پھر 1970ء میں بھی پیپلزپارٹی نے نتائج کو تسلیم نہ کیا اور زور زبردستی اپنی حکومت بنائی جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ رونما ہوا۔پیپلزپارٹی پر دھاندلی کے الزام نئے نہیں‘اس جماعت کی ایک تاریخ ہے جو بڑی تاریک ہے۔خیر اسی طرح چھانگا مانگا کی سیاست سب کے سامنے ہے جہاں جوڑ توڑ کرکے کام چلایا گیا۔ پھر1989ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی جس کے نتیجے میں اپوزیشن اور حکومت دونوں نے دھاندلی اور ضمیر خریدنے کی بھرپور کوششیں کی۔پھر مہران بینک سکینڈل نے ہمیں یہ بتایا کہ کس طرح سیاستدانوں کو خریدا گیا۔2013 ء کے عام انتخابات میں بھی شفاف انتخابات پر سوال اٹھائے گئے۔جہاں (ن) لیگ‘ جو اقتدار میں آئی کے علاوہ تمام جماعتوں نے انتخابی نتائج پر سوالات اٹھائے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں (ن) لیگ نے سب سے زیادہ دھاندلی کا شور مچایا۔آر ٹی ایس بیٹھنے کا رونا رویا گیا۔(ن) لیگ کو یہ بھی شکایت تھی کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنا کر انہیں ہروایا گیا۔سینیٹ کے چیئرمین شپ کے الیکشن میں بھی اکثریت اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدلا گیا۔اسی طرح عمران خان کیخلاف جب عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو منحرف اراکین کو خریدنے کے الزامات لگائے گئے۔
ملک ِعزیز میں انتخابی دھاندلی پر بات کی جائے تو شاید کئی اوراق سیاہ ہو جائیں۔کاش دھاندلی کا یہ راستہ روک لیا جاتا تو میئر کراچی کے انتخابات میں یہ سلسلہ دیکھنے کو نہ ملتا‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں کسی کیلئے اپنے ماتھے پر گولی کھانے والے بدل گئے وہاں ایک یونین کونسل کے چیئرمین سے آپ کیسے امید لگاسکتے ہیں کہ وہ وفادار رہے گا۔ممکن ہے پی ٹی آئی کے کچھ نمائندوں نے سودا کرلیا ہو؟لیکن یہ بھی درست ہے کہ کچھ نمائندوں کو ووٹ دینے سے روکا گیا۔بلاول بھٹوزرداری نے اپنے کارکنوں کو جشن منانے کی ہدایت دی ہے۔وہ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ جیت کیسے بھی حاصل کی جائے جیت ‘جیت ہی ہوتی ہے۔یعنی پاکستان کے نظامِ سیاست میں ووٹ اس مسجد کے باہر پڑی جوتی کی مانند ہے جو جس کو پہلے مل جائے وہ پہن کر چلا جائے۔اب حافظ نعیم الرحمان صاحب نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ سندھ حکومت نے پی ٹی آئی کے 29 ارکان کو اغوا کیااور پی ٹی آئی ارکان کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا۔ الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے ''فراڈ الیکشن‘‘ کو کالعدم قرار دے کر نیا شیڈول جاری کیا جائے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حافظ نعیم الرحمان کا یہ مطالبہ لکیر پیٹنے سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں‘ البتہ یہ بات ضرور ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان میں 21 ویں صدی میں بھی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر اقتدار چھیننا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔