"IYC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کا جنرل اسمبلی سے خطاب

نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں یوں تو سارا سال ہی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن ستمبر اور اکتوبر میں یہ گہماگہمی بڑھ جاتی ہے۔ اس عالمی ادارے کی سالانہ تقریبات میں تمام رکن ممالک کے سربراہان کا جنرل اسمبلی سے خطاب بھی ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ ستمبر اختتام کی طرف سرک رہا ہے اور اکتوبر کی آمد آمد ہے۔ نیو یارک میں تمام عالمی رہنماؤں کا اکٹھ ہو چکا ہے اور تقریروں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
نیویارک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں اپنی انتظامیہ کی کارکردگی کے بھرپور ڈھنڈورا پیٹا اور دنیا کے سب سے بڑے عالمی ادارے یعنی اقوامِ متحدہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا: سوچتا ہوں اقوام متحدہ بنانے کا مقصد کیا تھا؟ جب جنگیں نہ رکوا سکے تو یو این کا کیا فائدہ؟ کھوکھلے الفاظ جنگیں نہیں روکتے‘ اقوام متحدہ میں اصلاحات کرنا چاہتا ہوں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو سبھی واقف اور آگاہ ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ عالمی ادارہ مزید جنگوں کو روکنے اور روئے ارض پر پائیدار امن قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا‘ لیکن کیا دنیا میں امن قائم ہو سکا؟ میرے پڑھنے والے یہ سوال خود سے خود ہی کر لیں اور خود ہی اس کا جواب بھی تلاش کر لیں۔ یہ درست ہے کہ پچھلے اسی برسوں میں کوئی عالمی جنگ نہیں ہوئی‘ لیکن دوسری عالمی جنگ جتنی بربادی والی کئی علاقائی جنگیں ہو چکی ہیں۔ خود امریکہ نے 1945ء کے بعد سے پانچ بڑی جنگیں لڑیں جن میں کوریا‘ ویتنام‘ افغانستان اور خلیج میں عراق کے خلاف جنگیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی کچھ کم شدت والی جنگیں بھی ہوئیں جن میں صومالیہ‘ یمن اور لیبیا کی جنگیں شامل ہیں۔ اگر غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین لڑی جانے والی حالیہ جنگ اور یوکرین روس جنگ کو بھی امریکی کھاتے میں ڈالا جائے تو میرے خیال میں بے جا نہ ہو گا کیونکہ اسرائیل اور یوکرین کو سب سے زیادہ اسلحہ اور دوسری امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ 1991ء کی خلیجی جنگ‘ جسے ایک کامیابی سمجھا جا سکتا ہے‘ کے علاوہ امریکہ دیگر تمام جنگیں ہار چکا ہے۔
جہاں تک اقوام متحدہ کے ایک فعال ادارہ نہ بننے کا معاملہ ہے تو مرزا اسد اللہ غالب نے جو کہا تھا: میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘ تو اقوام متحدہ کو بناتے وقت اس کا جو سٹرکچر یا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا تھا‘ اسی میں ایسی خرابیاں شامل تھیں جو دنیا میں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور ان خرابیوں میں سب سے اہم کچھ ممالک کو حاصل ویٹو کا اختیار ہے۔ جب بھی کوئی قرارداد لائی جائے‘ کوئی فیصلہ کرنے کا وقت ہو اور ویٹو کے اختیار کے حامل ممالک میں سے کوئی اس قرارداد کو ویٹو کر دے تو اقوام متحدہ کیا کرے؟ اور ویٹو کا اختیار سب سے زیادہ کس نے استعمال کیا؟ آئیے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 200سے زیادہ قراردادوں کو ویٹو کیا جا چکا ہے۔ ویٹو کی گئی قراردادوں میں کوریا کی جنگ‘ اسرائیل فلسطین تنازع‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور ہتھیاروں سے متعلق رپورٹس شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سوویت یونین اور پھر بعد میں روس کی حیثیت سے ماسکو نے اپنے ویٹو پاور کا سب سے زیادہ استعمال کیا جبکہ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے۔اب آپ خود ہی بتائیے کہ 80برسوں میں 200سے زیادہ قراردادیں اگر ویٹو کر دی جائیں تو امن کہاں سے آئے؟ عدل و احسان کی صورت حال کیسے بنے؟ میری طرح بہت سے لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات سے متفق ہوں گے کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات لائی جانی چاہیے اور سب سے پہلے ویٹو کے اختیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ عالمی سطح پر اقوام اور ممالک کا برابری پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جائے گا تو اس زمین پر پائیدار امن اور مسلسل برقرار رہنے والی سکیورٹی تشکیل دی جا سکے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جب یہ کہا کہ دنیا میں لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کو نوبیل انعام دیا جانا چاہیے‘ لیکن مجھے ایوارڈ سے زیادہ انسانی زندگی بچانے میں دلچسپی ہے تو محفل میں موجود بہت سے لوگوں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ غزہ میں جو ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اسرائیل حملوں کی وجہ سے شہید ہو گئے کیا وہ انسان نہیں تھے؟ اور کیا ان کو بچایا نہیں جا سکتا تھا؟ ایک رپورٹ کے مطابق جنگ کے دو برسوں کے دوران غزہ میں تقریباً 65ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ یہ اعداد و شمار غزہ کے محکمہ صحت کے ہیں‘ جس کے پاس ہسپتالوں اور مردہ گھروں میں لائی گئی لاشوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ ہزاروں مرد‘ خواتین اور بچوں پر مشتمل اس تعداد نے عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ تاہم دو آسٹریلوی محققین کی تازہ رپورٹ 'غزہ کے مردہ شمار کرنے کی تلخ سیاست‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ 25 اپریل 2025ء تک اصل اموات تقریباً چھ لاکھ 80ہزار تھیں۔ یہ تعداد محکمہ صحت کے اعداد و شمار سے 10گنا زیادہ ہے اور غزہ کی جنگ سے پہلے کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ محض دو سال کے اندر ختم ہو گیا تھا۔ جاں بحق ہونے والوں میں سے تقریباً تین لاکھ 80 ہزار بچے تھے۔
جہاں تک امریکی صدر کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ آج سعودی عرب‘ قطر اور یو اے ای امریکہ کے قریب آ گئے ہیں تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مشرق وسطیٰ کا ہر ملک اپنی سکیورٹی کے متبادل انتظامات کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی حکومت نے سات جنگیں ختم کرائیں اور پاکستان‘ بھارت اور ایران کی مدد سے اسرائیل کی جنگ رکوا دی۔ تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا یوکرین اور غزہ کی جنگیں جنگیں نہیں ہیں؟ ان کو کیوں نہ رکوایا جا سکا؟ کیا ان جنگوں میں انسانوں کی ہلاکتیں نہیں ہو رہی ہیں؟ امریکی صدر نے کہا: حماس سے کہتا ہوں اب یرغمالیوں کو رہا کرو‘ بس رہا کرو‘ ہمیں غزہ میں جنگ رکوانی ہے۔ ہمیں یرغمالیوں کو رہا کروانا ہے۔ ہمیں دو ‘چار نہیں تمام یرغمالیوں کی رہائی چاہیے۔ اندازہ لگائیں‘ اب بھی غزہ میں بھوک سے بلکتے ہوئے‘ ایک ایک دانے اور ایک ایک نوالے کو ترستے لوگوں کو غذا کی فراہمی ترجیح نہیں ہے بلکہ ترجیح اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ہے۔
جب تک یہ بے انصافیاں ہیں۔ جب تک یہ دوہری اور دوغلی پالیسیاں ہیں۔ جب تک سب اقوام کو برابر کا سٹیٹس نہیں ملتا۔ جب تک عالمی سطح پر دہشت گردی کی کوئی مشترکہ اور متفقہ Definition وضع نہیں کر لی جاتی۔ جب تک ممالک اور اقوام سے بالا تر ہو کر انسان‘ انسانیت اور روئے ارض پر بسنے والے آٹھ ارب 24کروڑ سے زائد نفوس کے بارے میں سوچنے کا رواج فروغ نہیں پائے گا‘ تب تک عالمی سطح پر پائیدار امن کا قیام ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر یہ ہو جائے تو اقوام متحدہ میں اصلاحات خود بخود ہو جائیں گی اور ان اصلاحات کے انسانی ترقی کی صورت میں نتائج بھی سامنے آ جائیں گے۔ کیا کوئی عالمی لیڈر ان خطوط پر بھی سوچے گا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں