"IYC" (space) message & send to 7575

ہلکی پھلکی موسیقی

کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان پر نور جہاں کا گایا ہوا فلم عندلیب کا یہ گانا بہت بجا کرتا تھا:
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے
چپ رہ کے بھی نظر میں ہیں پیار کے اشارے
آج کل اپنے ملک کا سیاسی منظر بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ روٹھے ہوئے ہیں اور کچھ ان کو منانے کی کوششوں میں لگے ہیں اور روٹھنے والے منانے والوں کو پہلے سے زیادہ پیارے نظر آ رہے ہیں۔
وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو سب سے بڑی اتحادی جماعتیں ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں مذکورہ دونوں پارٹیوں کی اہمیت‘ افادیت اور خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ذکر ضرور ہو گا‘ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ 1970ء کی دہائی سے ملک کے سیاسی منظرنامے پر جو پارٹیاں مسلسل چھائی نظر آتی ہیں‘ یہی ہیں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا۔ اس سارے عرصے میں پیپلز پارٹی کے چار وزرائے اعظم (ذوالفقار علی بھٹو‘ بینظیر بھٹو‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف) نے حکومتیں چلائیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے تین وزرائے اعظم (میاں محمد نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور میاں محمد شہباز شریف) نے بطور سربراہِ حکومت اپنی صلاحیتوں کا عملی اظہار کیا۔ پھر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی مسلسل چھائی نظر آتی ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) عمومی طور پر ایک دوسرے کی مخالف سیاسی پارٹیاں تصور کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہ ایک دوسرے کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوششیں بھی کرتی رہی ہیں۔ مثلاً 1990ء میں جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو برسرِ اقتدار آنے کے کم و بیش دو سال بعد ہی اقتدار سے محروم کر دیا گیا تو پیپلز پارٹی والوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ اس برطرفی میں (ن) لیگ والوں کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح جب 1993ء میں میاں محمد نواز شریف کو ان کی پہلی حکومت سے معزول کیا گیا تو ان کی جانب سے اس سازش میں پیپلز پارٹی کے ملوث ہونے کے حوالے سامنے آئے۔ الزامات کا یہ سلسلہ 1996ء اور 1999ء میں منتخب حکومتوں کے خاتمے کے وقت بھی جاری رہا۔ لیکن جب ضرورت پڑی تو دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملائے اور اتحاد بھی قائم کیا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف سے نجات حاصل کرنے کے لیے اتحاد قائم کیا تھا۔ 2024ء کے انتخابات کا جو نتیجہ سامنے آیا اس میں حکومت بنانے کے لیے دونوں کو ایک بار پھر متحد ہونا پڑا‘ لیکن یہ اتحاد ایسا ہے جس میں حکومت کے تقریباً سبھی عہدے مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں اور پیپلز پارٹی چند آئینی اور پارلیمانی عہدوں تک محدود ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیپلز پارٹی کو کئی بار دعوت دی گئی کہ وہ باقاعدہ وزارتیں قبول کرے اور وفاقی حکومت کا حصہ بنے لیکن دوسری جانب سے اس پر ابھی تک مثبت ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ اب اس مثبت ردِعمل ظاہر نہ کرنے پر بھی کئی طرح کی تھیوریاں پیش کی جاتی رہی ہیں‘ لیکن ہم ان تھیوریوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تاکہ اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ دونوں بڑی اتحادی پارٹیوں کے مابین اصل میں ہو کیا رہا ہے‘ اختلافات کن ایشوز پر ہیں اور ان مسائل کے حل ہونے کی کتنی امید کی جا سکتی ہے؟
2024ء کے انتخابات اور اتحادی حکومت کی تشکیل کے بعد سے لے کر اب تک دونوں بڑی پارٹیوں میں کئی بار اختلافات پیدا ہوئے اور پھر معاملات کو سنبھال لیا گیا۔ کئی بار تو ایشوز اس قدر شدت اختیار کر گئے کہ یوں لگتا جیسے مرکزی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے اور اس کے ٹوٹتے ہی صوبائی حکومتیں بھی قائم نہیں رہ سکیں گی‘ لیکن ہر بار حالات کو ایسا سنبھالا دیا گیا کہ ایک ماہ پہلے تک اتحادی حکومت احسن طریقے سے چلتی نظر آتی رہی۔ پھر آ گیا سیلاب اور اس وقت دونوں پارٹیوں میں جو اختلافات پائے جا رہے ہیں ان کی ایک وجہ یہ سیلاب ہی ہیں۔
25 ستمبر کو بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ سیلاب متاثرین کی مدد کو اَنا کا مسئلہ کیوں بنا لیا گیا‘ وفاق کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ سیلاب کے بعد وفاق کو عالمی مدد مانگنی چاہیے تھی‘ اگر عالمی دنیا آپ کے ساتھ ہوتی تو جو اس وقت آپ 100 کی مدد کر رہے ہیں‘ امداد حاصل ہونے کی صورت میں 200 متاثرین کی مدد کر پاتے۔ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جواب دیا تھا کہ مجھے عوام کی خدمت کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں اور ہر چیز کا علاج صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں ہے اور بھیک مانگنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ بس یہیں سے اختلافات پیدا ہوئے اور بڑھتے چلے گئے۔
اس دوران سننے میں آیا کہ دونوں پارٹیوں کے اختلافات ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ چند روز پہلے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کراچی میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی جس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال‘ خصوصاً پیپلز پارٹی اور پنجاب حکومت کے مابین پائے جانے والے تناؤ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ صدرِ مملکت نے وزیر داخلہ کو موجودہ سیاسی حالات میں کردار ادا کرنے کی ہدایت کی جبکہ دونوں رہنماؤں نے اتحادی جماعتوں کے مابین رابطوں کو مزید مؤثر بنانے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت کے وزرا کے بیانات پر تحفظات ہیں‘ پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ مریم نواز کی معافی کا مطالبہ کر رکھا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت اس مطالبے کو غیر ضروری قرار دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں بڑھتے ہوئے اختلافات پر صدرِ مملکت کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی نوٹس لے لیا ہے‘ اور ملائیشیا سے وطن واپس پہنچتے ہی معاملے پر ابتدائی بریفنگ لی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کو بدھ کے روز طلب کیا۔
جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو مذکورہ اجلاس ابھی شروع نہیں ہوا‘ لیکن میں پورے وثوق کے ساتھ آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اجلاس میں دونوں پارٹیوں کے مابین اختلافات کو فرو کرنے کے بارے میں کوئی نہ کوئی لائحہ عمل تلاش کر لیا جائے گا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے وزرا کو غیر ضروری بیان بازی سے روکا جائے گا۔ یہ بھی یقین ہے کہ پارٹیوں کے اختلافات کو دور کر لیا جائے گا اور جلد ہی راوی ملکی سیاست کے بارے میں چین ہی چین لکھے گا۔ جہاں ایک سے زیادہ برتن پڑے ہوں تو وہ آپس میں ٹکرا ہی جاتے ہیں اور ان کے ٹکرانے سے کھڑاک پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ جمہوری سماجوں اور اتحادی حکومتوں میں ایسی ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے۔ سیاسی حوالوں سے عوام جلد ہی سب کچھ ٹھیک ہوتا دیکھنے والے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں