کل ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ خبر یہ تھی کہ کراچی میں ای چالان کا آغاز ہونے کے بعد صرف ابتدائی چھ گھنٹوں میں شہریوں کے سوا کروڑ روپے سے زائد کے چالان کر دیے گئے۔ ٹریفک پولیس کی جاری کردہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 2662 چالان کیے گئے۔ سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر کیے گئے‘ جن کی تعداد 1535 تھی۔ ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانے پر 507‘ ریڈ لائٹ کراس کرنے پر 166 جبکہ اوور سپیڈنگ پر 419 چالان کیے گئے۔ اس کے علاوہ سٹاپ لائن کی خلاف ورزی کے چار‘ کالے شیشوں کے سات‘ غلط پارکنگ کے پانچ‘ نو پارکنگ زون میں گاڑی کھڑی کرنے کے پانچ اور دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال پر 32 چالان جاری کیے گئے۔ غلط سمت (رونگ وے) پر ڈرائیونگ کے تین اور لین لائن کی خلاف ورزی پر تین چالان کیے گئے۔ ٹریفک پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہریوں کو بار بار آگاہ کیے جانے کے باوجود خلاف ورزیوں کی بڑی تعداد نے شہری نظم وضبط کی سنگین صورتحال کو پوری طرح آشکار کر دیا ہے۔ ٹریفک پولیس کے مطابق ای چالان نظام کو دوسرے شہروں تک پھیلایا جا رہا ہے تاکہ بغیر رشوت اور انسانی مداخلت کے خودکار نظام کے تحت قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔ حکام نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھیں‘ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنیں‘ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال سے گریز کریں اور ٹریفک سگنل کی پابندی کو یقینی بنائیں تاکہ نہ صرف جرمانوں سے بچا جا سکے بلکہ حادثات کی شرح میں بھی کمی لائی جا سکے۔
ٹریفک کے نظم وضبط کو کسی بھی ملک کے مجموعی نظم وضبط‘ قانون کی حکمرانی اور ترقی کی عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کسی ملک میں ٹریفک کا نظم وضبط قوانین کے نفاذ‘ بنیادی ڈھانچے کے معیار کو جانچنے‘ عوامی تعلیم وآگہی‘ عوام کے لین ڈسپلن‘ ٹریفک سگنلز کی پابندی کرنے اور کچھ دوسرے عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔ ٹریفک کا مضبوط نظم وضبط سڑک کی حفاظت کو بہتر بنا سکتا ہے‘ رش کو کم کر سکتا ہے اور اس طرح ملک کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی میں ان کے افراد کے منظم ہونے کا بنیادی ہاتھ ہوتا ہے؛ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جب تک ہمارا ٹریفک کا نظام منظم ومربوط نہیں ہو گا‘ ہمارا ترقی کا سفر تیز نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف اگر ٹریفک کا نظم وضبط موجود نہ ہو یا کمزور ہو تو اس کی کمی بار بار حادثات‘ افراتفری اور منفی بین الاقوامی تاثر کا باعث بن سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں نجی طور پر گاڑی یا موٹر سائیکل رکھنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی ٹرانسپورٹ کی تعداد میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سڑکوں پر گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں‘ بسوں‘ رکشوں اور مسافر گاڑیوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ دسمبر 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد تین کروڑ سے زیادہ تھی۔ اب کم وبیش دو سال کے بعد اس تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی ٹریفک کے نظم وضبط کی‘ تو ترتیب‘ تنظیم اور ٹریفک قوانین سے آگہی نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کی سالانہ تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ٹریفک حادثات کی وجہ سے 27 ہزار 582 اموات ہوتی ہیں جبکہ لگ بھگ 50 ہزار افراد ان حادثات سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ شدید زخمی ہوتے ہیں تو کچھ عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر پانچ منٹ بعد سڑک پر ہونے والے حادثات میں کوئی نہ کوئی زخمی یا جاں بحق ہو رہا ہوتا ہے۔ ماہرینِ معاشیات نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ معذور ہونے والے افراد ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال پر پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
حادثات کے تناظر میں ایشیائی ممالک میں بھارت سرفہرست ہے یعنی وہاں سب سے زیادہ ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ بین الاقوامی تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان 95ویں نمبر پہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات کے بڑھنے کی بنیادی وجہ تیز رفتاری ہے۔ یہاں 80 سے 90 فیصد حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ حادثات میں اضافے کی دوسری بنیادی وجہ ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کم لوگ ٹریفک قوانین سے واقف ہوتے اور ان کی پاسداری ہیں۔ اکثریت ان قوانین سے ناواقف ہے اور ٹریفک کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزی اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کالم کے آغاز میں مَیں نے جس خبر کا حوالہ دیا اس کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع ہوئی جس میں ایک ٹریفک سگنل پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار 14 افراد ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سڑک پر نکلنے والے لاکھوں افراد انتہائی لاپروائی کرتے ہیں۔ ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اگر ٹریفک سگنل پر ایک شخص قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو دیکھ کر دوسرے بھی ٹریفک قوانین کو توڑنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔
کم عمر لڑکوں کا بغیر لائسنس گاڑی چلانا‘ گاڑیوں وغیرہ کا بغیر مرمت استعمال‘ گاڑیوں میں تکنیکی خرابی کو نظر انداز کرنا‘ اوور لوڈنگ اور اوور سپیڈنگ‘ سڑکوں کی باقاعدہ تعمیر ومرمت نہ ہونا بھی ٹریفک کے مسائل میں اضافے کا باعث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھاری جرمانے پاکستان میں ٹریفک کے نظام کو ٹھیک کر سکیں گے یا اس کیلئے باقاعدہ تعلیم وتربیت کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے؟ بھاری جرمانے کرنے سے پہلے ٹریفک کے حوالے سے تعلیم وتربیت کا اہتمام کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ٹریفک سگنلز اور ٹریفک قوانین کو تعلیمی نصاب کا باقاعدہ حصہ نہیں بنایا جاتا؟ پہلی کلاس سے لے کر دسویں جماعت تک بچوں کو باہر سڑک پر لے جایا جائے اور انہیں ٹریفک کی تعلیم اور تربیت دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ کالج میں پہنچیں اور گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کے قابل ہوں تو ٹریفک قوانین کی پاسداری نہ کریں۔ میرا تو یہ بھی خیال ہے کہ ڈرائیونگ کو کالج کے سلیبس میں شامل ہونا چاہیے۔ جب بچہ سب کچھ سیکھ کر سکول سے نکلے گا تو سڑکوں پر نظم پیدا ہونا یقینی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک قوانین اور نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے تو سڑکوں پر رواں ٹریفک نظر آئے‘ گاڑیوں کا ازدحام نہیں۔ ہر سال قیمتی جانوں کے بھاری ضیاع کو روکنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
ہاں ایک بات ہے‘ ٹریفک کا نظام ٹھیک ہو گیا تو سڑکوں پر ہونے والے جرمانوں سے جو بھاری ریونیو اکٹھا ہوتا ہے‘ وہ آنا بند ہو جائے گا۔ ایسا ہوا تو پھر پتا نہیں کیا ہو گا؟ ٹریفک پولیس کی مٹھیاں تو پھر ٹھنڈی ہی رہیں گی۔