ایک خبر نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ امریکہ میں شادی کی 25ویں سالگرہ پر ایک میاں بیوی ایک ہوٹل پر گئے اور کھانے کا آرڈر دیا۔ کھانے کے بعد میٹھے کے طور پر ایک چیز کیک کا آرڈر دیا گیا۔ شوہر نے اپنے حصے کا کیک فوراً کھا لیا جبکہ اس کی بیوی نے اپنے حصے کا کیک کا ٹکڑا گھر لا کر ریفریجریٹر میں رکھ دیا۔ اگلی صبح وہ اٹھی اور رات کا بچا ہوا کیک کھانے کا سوچا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ختم ہو چکا ہے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ شوہر نے اس کے حصے کا کیک کھایا ہے۔ خاتون کے مطابق اس وقت اسے احساس ہوا کہ پوری زندگی اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ اس کے حصے کا کیک ہمیشہ اس کا شوہر کھا جاتا رہا ہے۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ صرف کیک کی بات نہیں ہے بلکہ زندگی کی چھوٹی بڑی چیزوں میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اس نے سوچا کہ کیا میں صرف ان کا گھر سنبھالنے کے لیے ہوں‘ ان کا کام وقت پر انجام دینے کے لیے اور بدلے میں مجھے ان کا بچا کھچا ملتا ہے۔ یہی سوچ کر اس خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی۔
میں سوچنے پر اس لیے مجبور ہوا کہ ہمارے ملک میں تو پتا نہیں کون کون کس کس کے حصے کا کیک کھا جاتے ہیں اور پتا تک نہیں ہلتا۔ یہاں پتا نہیں کس کس کا حق مار لیا جاتا ہے‘ کس کس کو رشوت اور کرپشن کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور قوانین اور اصول و ضوابط کے ماتھے پر شکن تک نہیں پڑتی‘ عرقِ انفعال کے قطرے ظاہر ہونا تو دور کی بات ہے۔ اگر پتا چل جائے کہ کس کس نے کس کس کے حصے کے کیک کھائے‘ کس کس کے حصے غصب کیے‘ کس کس کی جائیدادوں پر قبضے کیے‘ کس کس محکمے میں حکام اور اہلکار سرکاری وسائل کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے تو پتا نہیں کتنی سماجی‘ معاشی‘ سرکاری اور ادارہ جاتی طلاقیں ہو جائیں۔
امسال 11فروری کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2024ء (Corruption Perceptions Index 2024) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کو دنیا کا 46واں کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ کرپٹ ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا 180ممالک کی فہرست میں 135واں نمبر تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ سال یعنی 2023ء میں پاکستان کا 180ممالک میں 133واں نمبر تھا اور پاکستان 48واں کرپٹ ترین ملک تھا۔ 2024ء میں پاکستان کا 180ممالک میں 135واں نمبر تھا۔ یہ سب کچھ کسی کا حق مارے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ویسے کس نے کس کا حق مارا ہو گا‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہر دور اور ہر زمانے میں یہ صرف اور صرف عوام ہیں جن کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی سیاسی نعروں کے نام پر۔ کبھی حب الوطنی کے نام پر۔ کبھی مذہب کو آڑ بنا کر اور کبھی نذرانوں کے نام پر۔ سرکاری ادارے عوام کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ان اداروں میں اپنے جائز کام کرانے کے لیے بھی لوگوں کو رشوت اور کرپشن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر یہ دونوں دستیاب نہ ہوں تو پھر کوئی تگڑی سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ اور اگر آپ ان میں سے کوئی کام بھی کرنے جوگے نہیں ہیں تو پھر کلرک حضرات آپ کی درخواستوں پر ایسے ایسے اعتراضات لگائیں گے‘ آپ کو ایک سے دوسری‘ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی میز پر اتنے چکر لگوائیں کہ آپ کو دانتوں پسینہ آ جائے گا۔
اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں کرپٹ اداروں کی فہرست جاری کی تھی۔ کرپشن کی اس فہرست میں پولیس کا پہلا نمبر تھا‘ اس کے بعد ٹھیکے دینے کا شعبہ آیا تھا اور تیسرے پر عدلیہ کو سب سے کرپٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے قرار پائے تھے۔ مقامی حکومتیں‘ لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم‘ ایکسائز اور انکم ٹیکس چھٹے‘ ساتویں اور آٹھویں بدعنوان ترین ادارے قرار پائے تھے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی قومی کرپشن سروے رپورٹ کے مطابق 68فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ نیب‘ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے سیاسی شکار کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ صوبائی سطح پر سندھ میں 42فیصد‘ خیبر پختونخوا میں 43فیصد‘ بلوچستان میں 47فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ میرٹ پر کام نہیں ہوتے جبکہ پنجاب میں 47فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ بیوروکریسی ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہی پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔ 75فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس بہت طاقت اور اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے کرپشن ہوتی ہے۔ 62فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے اور ماحولیاتی تباہی کو بڑھانے کی بڑی وجہ ہے۔
اس سارے تناظر کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ کوئی نظام جب کسی ایمان دار اور دیانت دار فرد کو رشوت لینے یا کرپشن کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اس وقت بھی ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ ایمان داری کی بے ایمانی سے طلاق۔ کسی کو جب رشوت دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو اس وقت بھی ایک طلاق ہوتی ہے۔ دیانت اور امانت کی خیانت سے طلاق۔ اس طرح سال بھر میں پتا نہیں کتنی ہی طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ آج پاکستان اگر بھاری قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور دھنستا چلا جا رہا ہے تو اس کی وجہ دستیاب وسائل کو مناسب طریقے سے استعمال نہ کرنا ہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے ہر پاکستانی چند سو روپے کا مقروض ہوا کرتا تھا۔ اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ کی ملکی قرضوں کی صورت حال پر تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی شہری تین لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے جبکہ 10 سال پہلے ہر شہری 90 ہزار 47 روپے کا مقروض تھا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں سالانہ اوسطاً 13فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے اور 10برس کے دوران ہر پاکستانی پر تین گنا قرضہ بڑھ گیا ہے۔ یہ کیک کس نے کھایا‘ حالات کو یہاں تک کس نے پہنچایا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک زمانے میں بھارت سے دو گنا سے بھی زیادہ مضبوط ہماری کرنسی اب بھارت کی کرنسی کے برابر بھی نہیں رہی‘ اس سے کم ہو چکی ہے؟ کسی نہ کسی نے تو دوسروں کے حصے کا کیک کھایا ہو گا تبھی تو کرنسی کی یہ حالت ہوئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم نے ایسے ہی رہنا ہے یا اپنے اندر کوئی سدھار بھی لانا ہے؟ سدھار لانے کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن دراصل عملی طور پر ہوتا کچھ نہیں جس کی وجہ سے ایک سٹیٹس کو کی سی کیفیت ہے۔ کبھی امید پیدا ہوتی ہے اور پھر ناامیدی کے اندھیروں میں غائب ہو جاتی ہے۔ کیا یہ رشوت اور کرپشن ان کو نظر نہیں آتی جو ان کو روکنے اور ان کا سدباب کرنے کے ذمہ دار ہیں؟ ذرا اندازہ تو لگائیں کہ سال بھر میں کس کس کا کس طرح اور کتنا استحصال ہو جاتا ہے۔