چھ ماہ

اسیں پالا جمیا، کتیں وڈا ہو، مگھر فوجاں چڑھیاں، پوہ لڑائی ہو، ماہ پالا ماریا، پھگن کیتا سو
(اسوج میں سرما کے موسم نے جنم لیا، کاتک میں بڑا ہوا، مگھر میں فوجیں چڑھ آئیں، پوہ میں لڑائی ہوئی، ماگھ میں سرما مارا گیا اور پھاگن میں فصلیں بو دی گئیں)
یہ پنجابی ضرب المثل چھ پنجابی مہینوں کے نام بھی بتا رہی ہے اور چھ ماہ کا سارا قصہ بھی بیان کر رہی ہے۔ سیاسی منظر نامے میں بیان کریں تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کی کہانی سنا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کو بنے اگرچہ چھ ماہ نہیں ہوئے مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں؛ البتہ ان کے دونوں نوجوان لیڈران پر جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پھبتی خوب سجتی ہے۔ پی ڈی ایم کی تخلیق کو دن کافی ہو گئے ہیں البتہ مہینے چھ سے ضرور کم ہیں۔ غالب نے بادشاہِ دوراں ابوالمظفر بہادر شاہ کے حضور عرض گزاری تھی ؎
میری تنخواہ کیجئے ماہ بماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار
مرزا نوشہ نے تو دل ہی کھول کر رکھ دیا تھا اور کہا ؎
ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار
خواہش تو تھی کہ اس چھ ماہ کے قصے کو پی ڈی ایم سے نہ جوڑا جائے مگر اب قصہ از خود اس جمہوری یا غیر جمہوری تحریک سے جڑنے لگا ہے جس میں گیارہ جہاندیدہ جماعتیں اور ان کے منجھے ہوئے زیاں دیدہ رہنما شامل ہیں۔ تجربے میں سب سے آگے‘ سیاسی دانش میں سب سے اول‘ مگر نعرہ ایسا لگا دیا کہ اب خود حیران ہیں کہ ہیٹ کے نیچے سے خرگوش نکل نہیں رہا۔
پی ڈی ایم کی تنخواہ تو وہی رہے گی یا آسان لفظوں میں‘ یہ اسی تنخواہ پر کام کرتی رہے گی البتہ غالب نے جو ماہ بماہ کی شرط لگائی ہے اس کا خیال کرتے ہوئے اس موومنٹ کو ماہ بماہ اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش بھی کرنی چاہیے‘ ورنہ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہم تو موجود ہیں ہی۔ مگر اسے خود بھی جانچنا پرکھنا چاہیے کہ آخر کوئی تو وجہ ہے جو بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔ اس کی اٹھان تو لاجواب تھی مگر اب اس سے خود بھی نہیں اٹھا جا رہا۔
جن چھ پنجابی ماہ کا ذکر ہوا ہے یہ تو راجہ بکرم جیت کے دور میں شروع ہوئے تھے جس کا اصل نام چندر گپت تھا۔ اسلامی مہینوں کے نام یہاں یعنی جہاں جہاں پنجابی بولی جاتی ہے‘ از خود دھرتی سے پھوٹے جیسے متبرک اسلامی مہینے ربیع الاول کو ہم باراں وفات، محرم کو دشورے، شوال کو عید آلا اور ذوالحج کو بقر عید کہتے ہیں۔ کبھی ان بارہ اسلامی مہینوں کے نام مائیں اپنے بچوں کو زبانی یاد کرواتی تھیں۔ اب بھلا کون ان پی ڈی ایم والوں کو ان مہینوں کے نام یاد کروائے کہ ان میں جن کے پاس آخری ضرب اور فیصلے فیصل کرنے کی شکتی ہے‘ وہ بھی تو بچے ہی ہیں۔ اور کہیں اور سے ہدایات وصول کرتے ہیں۔ البتہ اگر مہینوں کا نام یاد کرنا مشکل ہو تو اتنا تو یاد رہ سکتا ہے کہ ان کی موومنٹ کو چلے کتنے ماہ ہو گئے۔ غالب مہینوں کے ناموں کے جھنجھٹ میں پڑا ہی نہیں تھا‘ بس ماہ بماہ کا ذکر کرتا رہا۔
ہمیں بھی ہر ماہ ایک ذاتی کام کے لیے ایک دفتر میں جانا پڑتا ہے۔ اسی دفتر سے ہمارے کام و دہن کا سلسلہ چلتا ہے۔ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح وہاں لوگ اپنے مسائل اور دفتری کاموں کے لیے موجود تھے۔ ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کرتا، تھوڑی بحث ہوتی‘ کام ہو جاتا تو دوسرے کی باری آ جاتی۔ اگرچہ وہاں شور شرابہ تھا مگر کام سلیقے سے چل رہا تھا۔ اچانک دیکھا کہ قطار ٹوٹ گئی ہے اور ایک لحیم شحیم آدمی سب کو جیسے روندتا آگے نکل گیا اور مجاز اہلکار کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے اونچی آواز میں اہلکار سے بات کرنا شروع کر دی۔ کہا کہ کل بھی میں آیا تھا اور آپ نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اہلکار پہلے تو بہت مہذب لہجے اور شریفانہ انداز میں اس آدمی کو سمجھاتا رہا کہ ایک تو آپ کا کام اصول و ضوابط کے خلاف ہے اور اس کا ہونا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ دوم، آپ نے قطار کا ڈیکورم خراب کیا ہے۔ سوم، الٹا آپ شور مچا رہے ہیں۔ پیچھے ٹوٹی قطار میں کھڑے لوگوں کا صبر کاپیمانہ چھلکا تو سب یک آواز ہو کر اس آدمی سے کہنے لگے کہ ایک تو آپ اپنی باری آنے کے بغیر آگے بڑھ گئے اور دوسرا آپ بات ختم ہی نہیں کر رہے، آپ کا مسئلہ ذرا ٹیڑھا لگتا ہے۔ شور بڑھنے لگا۔ وہ بھی اپنی ہٹ کا پکا تھا، اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ (ویسے یہ لفظ ٹس سے مس ہونا عجیب سا ہے، شاید اس کا کوئی لغوی مفہوم بھی ہو مگر اصطلاحی مفہوم بہت واضح اور دلچسپ ہے)۔
اُس مجاز اہلکار نے کہا کہ جب بھی آپ آتے ہیں، شور مچاتے ہیں، قطار توڑتے ہیں، دفتر کا ماحول خراب کرتے ہیں، دوسروں کو پریشان کرتے اور ان کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس نے مزید کہا: آپ کو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آپ کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ میرے اختیار میں بھی نہیں ہے۔ آپ کوئی اور جگہ ڈھونڈیں، ہمیں اپنا کام کرنے دیں، آپ اپنا کام کریں۔ اس آدمی نے بات اَن سنی کرتے ہوئے کہا: میرا کام کروانے کا یہی طریقہ ہے اور ایسے ہی پہلے یہاں کام ہوتے رہے ہیں، اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ وہ اہلکار خاموش ہونے لگا تو سارے لوگ جو قطار میں کھڑے تھے‘ انہوں نے اس لحیم شحیم آدمی سے کہا کہ ہمارے کام میں خلل نہ ڈالیں اور اس اہلکار کو بھی کام کرنے دیں۔ اس آدمی نے اہلکار سے کہا کہ لکھ کر دو کہ تم یہ کام نہیں کرو گے۔ اب ہم نے ذرا آگے ہو کر سارا منظر دیکھنے کی کوشش کی اور اس میں خاصے کامیاب رہے۔ اہلکار نے اس کی کاغذات لیے اور ان کی پشت پر لکھا ''لکھ دیا ہے‘‘۔
وہ آدمی خوش ہوا جیسے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہو، مگر اسے ابھی کتنے اور مراحل طے کرنے ہیں اور کتنی بار ابھی قطاریں توڑنی اور لوگوں کا شور اور توتکار برداشت کرنی ہے‘ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس نے اہلکار کی وہ تحریر پڑھی ہی نہیں تھی کہ اس نے لکھا کیا ہے۔ اس نے کسی کام سے انکار تو کیا ہی نہیں تھا۔ وہ آدمی اس گمان میں تھا کہ اس نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
ہمایوں لاہور میں اپنے دربار میں خطاب کر رہا تھا، تمام مقربین موجود تھے۔ خانِ خاناں بیرم خان‘ جو ہمایوں کا دستِ راست اور جس میں اس کی جان بند تھی، بھی موجود تھا جس کا کئی راتیں جاگ جاگ کر برا حال تھا اور آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ بادشاہ کی نظر اس پر پڑی اور کہا: بیرم من بہ شما می گویم۔ بیرم خان چونک پڑا بولا: قربانت شوم۔ بولا: بزرگوں سے سنا ہے کہ تین مقامات پر تین چیزوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ بادشاہ کے حضور آنکھوں کی، درویشوں کے حضور دل کی اور علما کے حضور زبان کی۔ اس لیے سوچ رہا ہوں کس کس کی حفاظت کروں۔
یہاں بھی کوئی ہے جو لائن میں لگ کر اپنی باری پر آگے بڑھتا ہے۔ نہ شور نہ ہنگامہ۔ ہمارے کسی موجودہ یا سابقہ حکمران یا ان کی آل اولاد نے وہاں جانا ہو تو سارے راستے ہی بند کر دیے جائیں۔ وہاں پہنچیں تو کسی کو وہاں پر مارنے کی بھی اجازت نہ ہو کہ مستقبل کے حکمران کھانا کھانے آئے ہیں۔ مگر وہ نہ خود لائن توڑتا ہے نہ کسی کو توڑنے دیتا ہے۔ خواہ اس کو لائن میں لگے مزید چھ ماہ لگ جائیں سو وقت گزاری کے چھ ماہ کے نام ہی یاد کرنا پی ڈی ایم کے مفاد میں ہے۔ دوبارہ تحریر ہے تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔ اسیں پالا جمیا، کتیں وڈا ہو، مگھر فوجاں چڑھیاں، پوہ لڑائی ہو، ماہ پالا ماریا، پھگن کیتا سو۔
ماگھ تو گزر گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں