جب ہم لوگ یہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے انتہائی محبت میں کسی سے کہا کہ میرا دل تو کرتا ہے کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر حضور پاکﷺ کے مولدِ پاک کی سیڑھیوں پر بیٹھ جائوں اور واپسی والے دن تک وہیں بیٹھا رہوں جہاں میرے آقاﷺنے ما زاغ البصر وما طغیٰ والی آنکھیں کھولیں۔ جہاں آقاﷺ نے پہلی بار بی بی آمنہ پاک کو دیکھا۔ جہاں پیارے نبیﷺ نے پہلا قدم اٹھایا۔ جہاں سے وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر سے باہر تشریف لاتے اور واپس گھر میں داخل ہوتے‘ وہیں میں بیٹھا رہوں۔ نہ دن کی خبر ہو نہ رات کی‘ نہ کھانے کی تمنا ہو نہ پینے کی‘ نہ اٹھنے کا یارا ہو نہ چلنے کی سکت۔ جب سیڑھیوں یا دہلیز پاک پر بیٹھوں‘ بس بیٹھا رہوں۔ ایک دن‘ دو دن‘ ایک زندگی‘ کب تک؟ حشر کے دن تک! ایسے میں روزانہ خود سے بحث کرتا، کہ وہ جو میں نے کسی سے کہا تھا‘ وہ اور کوئی نہیں تھا میں خود ہی تھا، میرا ہمزاد تھا اور باتیں بھی میں اسی سے کرتا۔ مشورے بھی خود سے کرتا‘ خود کو ہی مشورے دیتا۔ کبھی میں خود کو بہم ہو جاتا کبھی نہیں۔ یہ بحث مباحثہ میرے دل میں ہمہ وقت جاری رہتا۔ دفتری اوقات میں بھی، گھر میں اور رات کو سوتے وقت بھی۔ اس بحث میں مَیں خود ہی جیتتا خود ہی ہارتا۔ جیتنے کی خوشی ناقابلِ بیان اور ہارنے کی مسرت اس سے بھی کہیں زیادہ۔ امام مالکؒ کا قول بار بار سامنے آتا ہے کہ مکہ شہر سب سے افضل شہر ہے کہ اس میں احرام کے بغیر داخلے کی اجازت ہی نہیں۔ وہاں کعبۃ اللہ ہے اور حضور کریمﷺ کی جائے ولادت اور جائے اقامت ہے۔ یہی بحث میں خود سے کرتا کرتا سو جاتا۔ کوئی بے قراری تھی جو اپنا کنڈل سخت تر کیے جا رہی تھی۔ سانس گھٹتا تھا تو اور کھلا سانس آنے لگتا تھا۔ بے چینی بڑھتی تو چین آتا۔ خود سے بحث کرتا تو خود کو ہی لاجواب کر دیتا۔
میں نے پڑھا تھا کہ باب السلام کے ساتھ ہی سارا مکہ شہر پھیلا ہوا تھا اور کعبۃ اللہ کے چار چُفیرے آبادی تھی۔ یہیں پر ایک رات کا بازار ہوا کرتا تھا۔ اس السلام دروازے کے بالکل ساتھ وہ بازار شروع ہو جاتا تھا جس کی ایک گلی میں حضور پاکﷺ کے والد حضرت عبداللہ کا گھر تھا۔ یہیں آپﷺ کی ولادت ہوئی اور وہی مولدِ پاک ہے۔ مولدِ رسول کریمﷺ، مولد ِ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مولدِ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ‘ دعا کی قبولیت کے مقام ہیں؛ یہاں جو دعا مانگی جائے قبول ہو گی۔
حضور کریمﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد یہ گھر عقیل بن ابی طالب نے بیچ دیا تھا۔ بہت مدت بعد حجاج بن یوسف کے ایک بھائی محمد بن یوسف ثقفی نے اسے خرید لیا تھا‘ اُس وقت وہ یمن کا گورنر تھا۔ مولد پاک دارِ یوسف کے نام سے بھی معروف رہا۔ اس مولد ِ پاک کو دیکھنے کی تمنا دل میں موجزن تھی۔ حج سے قبل یا انہی دنوں میں یہ جاگ نہیں لگی تھی‘ یہ میرے بچپن کی تمنا تھی کہ وہ جگہ ان جاگتی آنکھوں سے دیکھ سکوں، اس جگہ کی زیارت کر سکوں۔ یہ ہر مسلمان کے اندر ایک فطری محبت ہے اور اس جگہ سے کچھ اور قسم کا عشق اور انس ہے۔
بچپن میں ہی ہم نے سنا تھا کہ حضور کریمﷺکی ولادت پاک کے موقع پر ابولہب کی باندی جب بی بی آمنہ پاک کو دیکھ کر واپس پلٹتی تو گھر کو باہر سے کنڈی لگاجاتی مگر قربان جاں اسی کا کہنا ہے کہ جب جب میں دوبارہ بی بی کے گھر آئی‘ کنڈی اندر سے لگی ہوتی تھی۔ انہی کا نبی پاکﷺ نے سب سے پہلے دودھ پیا تھا۔ کتنی عظیم اور خوش بخت خاتون تھیں کہ حضرت حمزہؓ، جعفرؓ ابن ابو طالب اور زیدؓ بن حارثہ نے بھی ان کا دودھ پیا تھا۔ میں خیالوں میں اس گھر کی تصویر بناتا تو سوائے ایک روشنی کے ہالے کے مجھ سے کچھ بن ہی نہیں پاتا تھا۔ جیسے حواس معطل ہو جاتے ہوں‘ جیسے ساری منطقیں اور سارے فلسفے اُڑ اُڑ جاتے ہوں۔ میرے دل اور ذہن میں اتنا نقشہ ضرور بن جاتا کہ کوئی نورانی پہاڑوں کا سلسلہ ہے جس کے ایک طرف خانہ کعبہ ہے اور آس پاس کہیں وہ گھر‘ وہ جگہ‘ وہ مولد پاک ہے۔ اس کی کوئی تصویر تصور میں بھی نہیں بن پاتی تھی۔ اونچی نیچی پہاڑیوں میں گھری ہوئی گلی ہو گی‘ جس میں وہ گھر ہو گا۔ اس کے سامنے لکڑی کا پھاٹک نما دروازہ ہو گا بس اس قسم کا تصور بنتا تھا۔
وہ گھر جس میں ولادت پانے والے کی خاطر دنیا جہان کو تخلیق کیا گیا تھا‘ کیا کبھی دیکھ سکوں گا؟ جن کی پشت پر وہ مہرِ نبوت تھی جو حضرت جابرؓ نے سواری پر حضور اکرمﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے دیکھی‘ پھر اپنے منہ کو اس مہرِ نبوت کے قریب کیا تو ایسی خوشبو اڑی کہ سرمستی پھیلتی چلی گئی۔ انؐ کا مولد مبارک کوئی خوش نصیب ہی دیکھ سکتا ہے‘ مجھ ایسے گنہگار کا نصیبہ ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی میرا نصیب کھلے گا؟ کیا میں مکہ پاک کے اس رات کے بازار میں کھلتی گلی میں حضرت عبداللہ کا وہ گھر دیکھ سکوں گا جہاں حضور کریمﷺ نے آنکھ کھولی تھی۔
جس مقام پر آپﷺ اس دنیا میں تشریف لائے‘ اس کو مختلف وقتوں میں مختلف روپ دیے گئے۔ کبھی اسے گھر کا رتبہ ملا‘ کبھی مسجد کا مقام نصیب ہوا۔ جس زمین کو آپﷺ کے جسمِ اطہر نے مَس کیا تھا‘ وہاں سونے کا گھیرا بنایا گیا۔ کبھی وہاں چاندی کا حوض بنا۔ ایک عباسی حکمران نے وہاں کی زینت و زیبائش میں اضافہ کیا‘ جب دولتِ اسلامیہ عجم کے ہاتھ آئی تو قدرتی طور پر ایک والہانہ عقیدت کے زیرِ اثر ترک بادشاہ سلیمان خان نے اس متبرک زمین کے ٹکڑے پر‘ جہاں بدن مبارک مس ہوا تھا‘ ایک گنبد تعمیر کرا دیا جو سو سال قبل ختم کر دیا گیا تھا۔
انہی خیالات میں گم میں باب السلام سے باہر نکلا۔ میں نے ایک دفعہ آنکھ بھر کر اس سمت دیکھا جہاں میری منزل تھی۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ ایک بسیط خاموشی میرے چاروں طرف اترنے لگی۔ لوگوں کا ہجوم چھٹتا گیا۔ ان کی آوازیں کم ہوتی گئیں۔ مجھے کہیں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ میرے اپنے قدموں کی چاپ کم ہوتی چلی گئی۔ میں پائوں اٹھا رہا تھا کہ خود اٹھ رہے تھے‘ میں اس سے بیگانہ ہو چکا تھا۔ میں اپنا وجود کھینچ رہا تھا کہ کسی ہوا کے جھونکے کی طرح ہلکا ہو گیا تھا‘ مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔ یہ خودی تھی کہ بے خودی‘ مجھے احساس نہیں تھا۔
لوگ فرطِ اشتیاق سے دیوانہ وار اس مقام کو دیکھتے چلے جاتے ہیں جہاں وہ متبرک جگہ ہے مگر یہاں معاملہ یکسر الگ تھا۔ میں بے ہمت اور بے بس ہوتا چلا جا رہا تھا۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا جا رہا تھا مجھے اس طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ایک پُراسراریت تھی‘ ایک اجلی دھوپ تھی جو چاندنی سے ٹھنڈی تھی۔ ایک ہالہ تھا جس نے وہ مقام گھیرا ہوا تھا۔ دو جہانوں سے ارفع مقام‘ وہ مقام جس کا ذکر ساری آسمانی کتب میں موجود ہو وہ آپ کے سامنے ہو تو اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی پر رشک بنتا ہے۔ میری عینک کے شیشے دھندلے ہوتے جا رہے تھے۔ کوئی اور عکس جمتا جا رہا تھا۔ ایسی کیفیت کہ جس پر اپنا سب کچھ قربان کر کے یہی احساس ہو کہ کاش یہ گھڑی یہیں جامد ہو جائے۔ کہاں پنجاب کی ایک پسماندہ بار‘ ایک دوآبے اور بیلے میں پیدا ہونے والا اجڈ اور گنوار جسے نہ بات کرنے کا سلیقہ نہ مدعا بیان پر قدرت۔ اسے محبت کہاں لے آئی تھی‘ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ!
کہاں یہ اوگن ہار اور کہاں یہ گھڑی۔ یہ لمحہ کچھ اور طرح کا تھا‘ جس میں مَیں دنیا وما فیھا سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ میرا ایک ایک قدم مجھے بھاری لگ رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میں کتنے دنوں اور کتنے کوسوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ تب مجھے اچانک اپنے معلم کی بات یاد آئی کہ حضور کریمﷺکے دادا حضرت عبدالمطلب حطیم کے اندر چارپائی بچھا کر سویا کرتے تھے۔ ہر شے اپنی‘ کعبہ بھی اپنا اور اللہ بھی اپنا۔ میں مولد الرسولﷺ کی پہلی اور سب سے نچلی سیڑھی کے پاس پہنچ چکا تھا اور اس سیڑھی پر ایسے گرا جیسے مردہ غسل کے پٹڑے پر گرتا ہے۔