پٹاری

آئین وہ کتاب ہے جس میں ہماری تاریخ اور جغرافیہ محفوظ ہے۔
پارلیمان کے معنے ہیں مشورہ کرنا‘ مکالمہ کرنا۔ یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے۔ Preside اپنے معنوں میں بھی کسی مشورے کا پابند نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے برازیل کے ناول نگارپائولو کوہلو کا کہنا ہے ''بحری جہاز بندر گاہ پر محفوظ ہوتے ہیں مگر وہ وہیں کھڑے رہنے کے لیے نہیں بناے جاتے‘‘۔ ان کا اصل مقصد سمندروں کی جانب نکلنا ہے‘ دور کی منزلوں کی طرف‘ مشکلوں کی جانب‘ نئے ساحلوں کی سمت۔
کیا حکمرانوں کے پاس کم اختیارات ہیں؟ دوم‘ کیا کسی اور ملک میں‘ ہمارے ہمسایہ ملک میں یا ہم سے دور کے ممالک کی حکومتوں نے کبھی کہا ہو کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں؟ عجب منطق ہے۔ یہ بحث کیوں چھیڑی جاتی ہے اور اس کے کیا محرکات ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے حالات ایسے اقدام کے لیے مناسب یا conducive ہیں بھی یا نہیں۔
یہ بحث آج کل دوبارہ ایک بار چھیڑ دی گئی ہے اگرچہ سپریم کورٹ نے بیک بینی و دو گوش احمد رضا خان قصوری کی درخواست خارج کر دی ہے جس میں مبینہ طور پر کسی کے اشارے پر‘ یا ازخود انہوں نے صدارتی نظام کے نفاذ کی بات کی تھی۔ملک میں کون سا نظامِ حکومت بہتر ہے‘ پارلیمانی یا صدارتی طرزِ حکومت؟ یہ دونوں نظام ہاے حکومت اپنے Nomenclature یا نام سے ہی اپنی خصوصیات ظاہر و باہر کر رہے ہیں۔ صدارتی نظامِ حکومت کو وحدانی طرزِ حکومت بھی کہتے ہیں۔ ملک عزیز میں 1959ء سے 1971ء پھر 1977ء سے 1988ء‘1999ء سے 2008ء تک صدارتی نظام نافذ رہا۔ 1985ء کی آٹھویں ترمیم اس عرصے میں شامل کریں تو اس کی مدتِ مدید بارہ سال بنتی ہے‘یوں یہ عرصہ چار عشروں پر محیط ہو جاتا ہے۔ آٹھویں ترمیم 1985ء سے 1997ء تک نافذالعمل رہی اور اسی کا سہارا لے کر صدر غلام اسحاق خان نے دو وزرائے اعظم کی حکومتوں کو یکے بعد دیگرے برطرف کیا۔ یہ بارہ سال بھی صدارتی طرزِ حکومت کے ہی سمجھ لیجیے۔
اب ایک ایک صوبے کے حالات دیکھنے اور ان پر غور کرنے کے کئی مقامات ہیں۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت ابھی Decide ہونی ہے۔ ابھی اسے ایک وفاقی وزرات چلاتی ہے جس کے اشارۂ ابرو پر یہ حکومتیں چلتی ہیں کہ یہی ان کے فنڈز کا بندوبست کرتی ہے۔ اس علاقے کی سرحدیں واخان ‘ ایغور چین اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے ملتی ہیں۔ اس کی مغربی اور جنوب مغربی سرحدیں محفوظ ہیں جو آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا سے ملتی ہیں۔ باقی سرحدیں ایسے مقامات سے ملتی ہیں کہ وہاں سے کوئی بھی آسانی سے شورش پیدا کر سکتا ہے۔ اگرچہ ستمبر 2020ء میں اس علاقے کو صوبہ بنانے کا اعلان ہوا مگر چائے کے کپ اور ہونٹوں کے درمیان ابھی بہت فاصلہ ہے۔
پی ٹی آئی کو کراچی میں کافی نمائندگی حاصل ہے مگر شہر کی نمائندگی کا دعویٰ کسی اور کو بھی ہے۔ اگرچہ وہاں کسی قسم کا بحران نہیں ہے مگر پیپلز پارٹی سندھ میں کسی بھی قسم کا اَپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ ویسے اٹھارہویں ترمیم ہی حکمرانوں کی چڑ ہے‘ اسی ایک ترمیم کے لیے وہ سب سے بڑے صوبے کی سیاست سے باقاعدہ تائب ہوئے تھے‘ وہ اس سلسلے میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ جب کراچی کے پیکیج کی بات ہو رہی تھی‘ تب ایک وفاقی وزیر نے ببانگِ دہل کہا تھا کہ نظامِ حکومت پارلیمانی ہو یا صدارتی‘ اس پر بحث ہونی چاہیے کہ صوبہ سندھ نیچے جا رہا ہے اور ان کے اثاثے اوپر جا رہے ہیں‘ ان کی جائیدادیں بڑھ رہی ہیں۔ دوم‘ سندھ میں قوم پرستوں کا اپنا اثر و رسوخ ہے ۔ یاد کریں کہ معروف ادیب تاج جویو نے بوجوہ پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ لینے سے بھی انکار دیا تھا۔ بلوچستان کے معاملات سب سے نازک ہیں‘ وہاں اس وقت یوں تو کئی انتہا پسند گروہ اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں مگر ان میں تین مسلح کالعدم گروہ جن میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ‘ بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن آرمی شامل ہے‘ دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث ہے ۔ یہ گروہ کئی دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔
ہم نے تین آئین بنانے کا تجربہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس آئین کو منسوخ کر کے صدارتی نظام حکومت والا آئین نافذ کیا گیا تھا وہ دنیا کے بہترین آئینوں میں سے ایک تھا۔ یعنی 1956ء کا آئین۔ جو صدارتی نظام حکومت والا آئین نافذ رہا اس کی نگہبانی تو اس کے خالق بھی نہ کر سکے کہ اس میں درج تھا کہ صدر کی سبکدوشی یا کسی اور وجہ سے انہیں اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنا پڑے تو ان کی جگہ سپیکر قومی اسمبلی صدر کے فرائض سنبھال لے گا‘ مگر ہوا کیا؟ اقتدار مشرقی پاکستان کے عبدالجبار خان سپیکر کے بجاے یحییٰ خان کے سپرد کر دیا گیا۔ جب ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا‘ تب مشرقی پاکستان کے عبدالوہاب سپیکر تھے۔ وہ لیوزانا میں مقیم ہمارے دوست سلمان امین خان کے دادا تھے۔ بعد میں وہ بنگلہ دیش میں بھی سرگرم رہے۔
اس وقت بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ ہے۔ بھارت کی بھی ۔ بنگلہ دیش میں پچھلے دو‘ تین عشروں سے پارلیمانی نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ صدر کا آئینی عہدہ برقرار ہے‘ صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس کا پابند ہے۔ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر ہمارے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ شرح پیدائش وہاں2.06اور ہمارے یہاں 3.5ہے۔ یہ سب وہاں صدارتی نظامِ حکومت کی وجہ سے نہیں ہوا‘ یہی پارلیمانی نظام وہاں کامیابی سے چل رہا ہے۔
اپنے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا ذکر تو ہوا ہی نہیں‘ جہاں وسیم اکرم پلس کی گورننس کی دہائی دی جا رہی ہے۔سب سے بڑے صوبے کی باگ ڈور نادیدہ ہاتھوں میں ہے ۔گورننس کے مسائل صرف پنجاب میں ہی نہیں‘ اب تو پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے ۔گوادر سے لے کر کے پی تک مسائل ہی مسائل ہیں۔ان کو حل کرنے کے لیے کوئی دیرپا انتظام ہونا چاہیے۔ حکمران ہر بات میں مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اس کا اپائے نہیں کرتے اور نہ اس کے علاج کی تدبیر ان کے پاس ہے۔ افراط ِ زر کی شرح ‘جو مہنگائی کا سب سے بڑا اشاریہ ہے‘ 2018ء میں محض چار فیصد تھی اب یہ شرح نو کے قریب ہے ۔ساری دنیا کے معاشیات دان کسی معیشت میں افراط ِ زر کی بہترین شرح دو فیصد یا اس سے ذرا کم کہتے ہیں۔اب اندازہ لگا لیں کہ اپنے وطن ِ عزیز کے لوگ کس امتحان سے گزر رہے ہیں۔مسائل تو یہ ہیں جن کا ادراک ہونا چاہیے نہ کہ ہر روز ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا جائے ۔مسائل سے توجہ ہٹانے کا یہی بہترین ذریعہ ہے کہ معاشرے کو کسی نہ کسی بحث مباحثے میں الجھایا جائے ۔ہمارا معاشرہ بھی سیاسی طور پر دو فریقوں میں تقسیم ہے ۔ وہ ہمہ وقت اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ ان مسائل کا ذمہ دار کون ہے ؟ ان کا ذمہ دار جو بھی ہو ان کے حل کی ذمہ داری حاکمان ِ وقت پر ہی ہوتی ہے ۔اس وقت چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرونے کی ضروت ہے ۔آئین کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے سے اجتناب ہی وقت کی آواز ہے ۔متفقہ معاملات کو متنازع نہ بنایا جائے ۔ کیا اب حکومت کے پاس کھیلنے کو یہی پتا رہ گیا تھا؟ یہ پٹاری جیسے بند پڑی ہے‘ اسے ایسے ہی بند پڑا رہنے دیں۔ عدالت ِ عالیہ آئین کی تشریح کی ہی مکلف نہیں‘ آئین کی ضامن بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں