اگلے دن ننھا سلیمان کمرے میں چلّاتے ہوئے داخل ہوا ’’یہ بہت خطرناک ہے، یہ بہت خطرناک ہے‘‘ چونکہ میرے پوتے کی عمر بہت کم ہے، میں نے اُس کی والدہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ شیلا نے ہنستے ہوئے جواب دیا: وہ سٹوو اور بجلی کے سوئچ میں انگلی ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے اُسے بتایا کہ یہ بہت خطرناک ہے‘ چنانچہ وہ اس ہدایت کو دُہرا رہا تھا۔ والدین بچوںکی پرورش اسی طرح کرتے ہیں، یعنی وہ اُنہیں خطروں سے آگاہ کرتے ہوئے افعال کا ممکنہ ردِعمل سمجھاتے ہیں۔ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ تعلیمی اداروں میں قواعد و ضوابط سیکھتے ہیں۔ وہاں انعام اور سزا کا تصور اُن کے افعال کو گائیڈ کرتا ہے۔ اس کے بعد معاشرہ اُن پر قوانین نافذ کرتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں‘ جب ہم لڑکپن میں تھے‘ اگر رات کے وقت بغیر بتی کے سائیکل چلاتے تو پولیس والا ہمیں روک کر کہتا: سائیکل سے اُتر جائیں۔ آج کے کراچی میں ایسا نہیںہوتا ہے۔ کئی برسوں سے میں جُرم اور سزا کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کو دیکھ رہا ہوں۔ گراوٹ کے ان پچاس برسوں میں، مَیں نے دیکھا ہے کہ والدین بچوںکی سرزنش کرنا تو کجا، وہ اُنہیں ہر قسم کے جرائم کے بعد قانون کی گرفت سے بچاتے ہیں۔ اب چونکہ ریاست کی عملداری کمزور ہو چکی ہے لہٰذا مجرم دلیر ہو چکے ہیں کیونکہ اُنہیںکسی سزا کا ڈر نہیں ہے۔ چند دن پہلے کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک دوست کو گن پوائنٹ پر روک کر اُس سے موبائل فون، پرس اور گھڑی چھین لی گئی۔ یہ اس جرائم زدہ شہر میں ایک معمول کا واقعہ ہے چنانچہ اس کی خبر بھی نہیں بنتی، چہ جائیکہ ایک کالم میں اس کا ذکر کیا جائے؛ تاہم میں اس کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ لٹنے کے بعد دوست نے جو کچھ سنا وہ اہم ہے۔ وہ پولیس سٹیشن گیا اور رپورٹ درج کرائی۔ ڈیوٹی پر موجود افسر نے کہا کہ وہ اُسے اُن مجرموںتک پہنچا سکتا ہے لیکن اگر وہ ان کو گرفتار کرے گا وہ چند گھنٹوںکے بعد رہا ہو جائیں گے۔ یہ ہے سزا سے تحفظ جس نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بنا دیا ہے۔ اگر کسی کو سزا کا کوئی خوف ہی نہیںہے تو پھر وہ جس کو چاہے لوٹتا یا قتل کرتا پھرے۔ اب جبکہ ہمارے ملک میں سزا کا کوئی خوف ہی نہیں ہے، تو قاتل گروہ، جیسا کہ طالبان اور مختلف قسم کے لشکر‘ آزادی سے لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔ و ہ جانتے ہیں کہ اگر پکڑے گئے تو رہا کر دیے جائیںگے۔ جس لڑکے نے میرے دوست کو لُوٹا، اُسے محنت کرکے روزی کمانے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ جانتا ہے کہ اگر پکڑا گیا تو اُس کی سیاسی جماعت اُسے چھڑوا لے گی۔ آج کراچی جس تشدد کی آگ میں جل رہا ہے اُس کی وجہ مجرموں کو مختلف لسانی اور سیاسی گروہوں کی طرف سے تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی ہے۔ اس میں حکمران جماعت اور اُس کے اتحادی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اس تحفظ کے عوض، وہ مجرم اپنے لُوٹے ہوئے مال میں سے ایک معقول حصہ اپنے سیاسی محافظوں کی جیبوں میں ڈال دیتے ہیں۔ چونکہ ان مجرموںکی سیاسی وابستگی ہوتی ہے اس لیے پولیس جانتی ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوئے بھی تو رہا ہو جائیںگے۔ اس دوران اہالیانِ کراچی لامتناہی یوم سوگ اور ہڑتالیں بھگتتے رہتے ہیں جبکہ نامعلوم عناصر شہر کو زبردستی بند کرا دیتے ہیں۔ اگر یہ احتجاج پُرامن ہو تو بھی اُس کے معاشی اثرات پورے ملک کو اپنی لپیٹ میںلے لیتے ہیں۔ جب اسّی کی دہائی میں کراچی پر ایک سیاسی جماعت نے اپنی گرفت مضبوط کی تو سرمایہ کار وہاں سے جانا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد دیگر سیاسی کھلاڑیوں نے بھی ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو مسلح کرنا شروع کر دیا۔ صورت ِ حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ آج کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ہیڈ آفس کراچی میں نہیںہے۔ وہ پنجاب یا خلیجی ریاستوں میں جا چکے ہیں اور اُن کے ساتھ ہی یہاں پر روزگار، کم از کم باعزت روزگار، کے مواقع معدوم ہو گئے ہیں؛ چنانچہ جب نوجوانوںکو روزگار نہیں ملتا تو وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ تھام کر جرائم کی دلدل میں اُتر جاتے ہیں۔ جب قوانین کی اس طرح پامالی کی جا رہی ہو تو سیاست دان اور سرکاری افسر بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں نہ کوئی قانونی رکاوٹ ہے‘ نہ ہی سماجی۔ اب بھلا کاروباری افراد ٹیکس کیوں ادا کریں۔ وہ بھی ٹیکس وصول کرنے والے عملے کے ساتھ مل کر اس سے بچنے کی راہ تلاش کر لیتے ہیں۔ اراکینِ اسمبلی اور وزرا بھی اپنے واجبات ادا نہیں کرتے ہیں۔ جب چند ہفتے پہلے شاہ رُخ جتوئی نے شاہ زیب خان کو گولی ماری تو اُسے یقین تھا کہ اُس کا طاقتور باپ اُسے بچا لے گا۔ اُس کی بدقسمتی کہ اس کیس پر میڈیا میں اس طرح شوروغل ہوا کہ چیف جسٹس صاحب نے اس پر فوری نوٹس لے لیا۔ محرکات اور اس کے اثرات کے درمیان پائے جانے والے تفاوت نے ہمارے دفاعی اداروں کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جہادی لشکر تشکیل دینے والے دراصل بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ افغانستان میں جہادی گروہوں کے لیے سی آئی اے نے معاونت کی کیونکہ اس وقت ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا، لیکن آج ہمارا وطن ان کی وجہ سے لہو رنگ ہے۔ قبائلی علاقوں کو ہم نوآبادیاتی طرز پر چلا رہے تھے۔ وہاںکوئی سیاسی اور قانونی نظام تشکیل نہ پا سکا۔ یہ افغانستان او ر پاکستان کے درمیان ایک بفر زون بن گیا۔ اب یکایک ہمیں پتہ چلا ہے کہ یہاں ہر قسم کے بین الاقوامی دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ یقیناً ہم قبائلی علاقے کو ریاستی ڈھانچے میں نہ لانے کی پالیسی پر عمل کرنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کسی زمانے میں نیویارک امریکہ میں جرائم کا شہر کہلاتا تھا؛ تاہم جب میئر روڈی گیولینی نے بل براٹن کو پولیس کمشنر بنایا اور جرائم کو ہرگز برداشت نہ کرنے کی پالیسی بنائی تو نیویارک تبدیل ہو گیا۔ انتظامیہ نے کسی قسم کے جرائم کو برادشت نہ کیا، یہاں تک کہ کھلے عام شراب نوشی، پیشاب کرنے، بغیر ٹکٹ سفر کرنے وغیر ہ پر بھی سزائیں دی گئیں۔ جلد ہی جرائم کا گراف نیچے آ گیا۔ اب یہ بہت پُرامن شہر ہے۔ جارج کیلنگ کی \"broken windows\" تھیوری یہ کہتی ہے کہ جب حکام معمولی جرائم پر بھی سزا دینا شروع کر دیں تو معاشرے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں معمولی جرائم کو تو جرائم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ بڑے جرائم میں سیاست ملوث ہو جاتی ہے؛ چنانچہ عام شہری ہر قسم کے مجرموںکے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ نیویارک میں تو ایک میئر تھا جس کے پاس سیاسی قوت تھی اور اُس نے جرائم پر قابو پا لیا۔ پاکستان میں تمام سیاسی کھلاڑی اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگے ہیں۔ بدقسمتی سے اُن کے مفادات کا اکثر مقامات پر عوامی مفاد سے ٹکرائو ہوتا ہے۔ جب ریاست دہشت گرد تنظیموں کے رہنمائوں اور کارکنوںکو گرفتار نہیں کر سکتی تو اس کا مطلب ہے کہ مجرموں کو اپنا کھیل کھیلنے کی آزاد ی ہے۔ جب تک جرم پر سزا نہیں ملے گی، جرائم کی بیخ کنی نہیںہو گی۔