ہم ووٹ کسے دیں؟

پی پی پی کے حامیوںکے لیے گزرے ہوئے پانچ برس بہت مشکل تھے لیکن اس میں نئی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس جماعت کے گزشتہ تین ادوار بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کی زد میں رہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان الزامات میں کچھ صداقت بھی تھی۔ افراتفری اور عدم استحکام کے شکار پاکستان جیسے ملک میں اقتدار کانٹو ں بھری راہ ہوتا ہے اور اس پر چلنے والوں کے پائوں لہولہان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہر جماعت ہی اقتدار میں ہوتے ہوئے مسائل پر قابو پانے میں ناکامی پر عوامی غضب اور غصے کا نشانہ بنتی ہے۔ پھر ہمارے مسائل اس قدر گمبھیر ہیںکہ کوئی بہت قابل حکمران بھی پانچ سال میں ان کو حل نہیںکر سکتا۔ اس وقت پی پی پی کے ساتھ جو لوگ وفاداری کر رہے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جو اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ اگلی مرتبہ صورت حال مختلف ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ امید کی روشنی ابھی بھی، بعض کے نزدیک، ہونے والے تاریک تجربے سے زیادہ قوی ہے۔ مجھ جیسے کچھ لبرل یہ سوچ کر اس کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں کہ کوئی جائے مفر نہیں۔ متبادلات پر نگاہ ڈالی جائے تو ممکن نہیں ہے کہ کوئی ذی شعور ان اداروں اور جماعتوں کو ووٹ دے۔ کراچی کی ایک بڑی جماعت اگرچہ سیکولر نظریات کی حامل ہے لیکن اس کا دامن بھی تشدد اور لسانی تعصب کے الزام سے پاک نہیں۔ نواز شریف صاحب بھی میرے لیے قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے گزشتہ دور حکومت میں پندرہویں ترمیم کے ذریعے اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ اس ترمیم کے ذریعے وہ ’’امیرالمومنین‘‘ بننے کے بھی خواہشمند تھے۔ اسی طرح مسلم لیگ کی دوسری شاخیں بھی ناقابل قبول ہیں۔ اے این پی ایک سیکولر جماعت ہے لیکن اس پر بھی اب بدعنوانی کے سنگین الزامات لگ چکے ہیں اور ان الزامات میں سب جھوٹ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف بچتی ہے۔ اگرچہ میں خان صاحب کی اپنے مقصد کے ساتھ لگن اور استقامت کا معترف ہوں لیکن مجھے اُن لوگوں پر یقین نہیں ہے جو ظرافت اور حسِ مزاح سے محروم ہوں۔ میں جب بھی اُن کو ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور ایسا شاید ہی کسی روز نہ ہو، تو ایسا لگتا ہے کہ وہ خود پسند اور غیر لچک دار رویے کے حامل ہیں اور خود کو سب سے نیک سمجھے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ ہر معاملے کو اپنی پسند کی عینک سے دوٹوک انداز میں دیکھتے ہیں؛ چنانچہ کسی اور منظر کی طرف اُن کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ اُن کے دل میں انتہاپسندوں کے لیے نرم گوشہ بھی میرے لیے تشویش کا باعث ہے۔ سیاست میں لچک دار رویوں اور سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں اُن لوگوںکو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے جنہیں آپ ناپسند کرتے ہوں۔ اب جہاں عمران غیر لچک دار رویہ رکھتے ہیں، آصف علی زرداری صاحب اتنے لچک دار ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوںمیں اُن کی تمام تر توجہ صرف مدت پوری کرنے پر تھی۔ اس دوران اُن کے لچک دار رویے نے کیا گل کھلائے ہیں، سب کے سامنے ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ پاکستان کے معروضی سیاسی حالات میں پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنا کسی بھی حکومت کے لیے بذات خود ایک کامیابی ہے؛ تاہم یہاں نواز شریف صاحب کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے کہ اُنھوں نے حکومت گرانے کی کوشش نہیںکی بلکہ جنرل کیانی صاحب نے بھی جمہوری عمل کی تقویت کے لیے مداخلت سے گریز کیا۔تاہم یہ کامیابی نئے انتخابات جیتنے کے لیے کافی نہیں کیونکہ حکومت نے پانچ سال تو پورے کر لیے لیکن بہت سے میدانوں میں ناکامیوںکے انمٹ نقوش بھی چھوڑے ہیں۔ سب سے بڑی ناکامی امن و امان قائم رکھنے کے حوالے سے ہے۔ اگرچہ رحمن ملک دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنھوں نے طالبان کی کمر توڑ دی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرقہ وارانہ جنگ میں بہنے والے خون میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی بدستور قاتلو ں کی گرفت میں ہے۔ لوڈ شیڈنگ بھی اس حکومت کے لیے بہت بڑی ناکامی تھی۔ اس کی وجہ سے اسے عوامی غصے کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ راجہ پرویز اشرف پر کرائے کے بجلی گھروں سے متعلق بہت سے الزاما ت تھے؛ چنانچہ اُن کو ’’راجہ رینٹل‘‘ کا نام دیا گیا۔ برقی رو میں طویل اور باقاعدہ تعطل کی وجہ سے شہری اور کارروباری سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ اس کے علاوہ اہم ادارے، جیسا کہ ریلوے، پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز تباہی سے دوچار ہوئے۔ ان کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ نااہلی اور بدعنوانی تھی۔ تاہم پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتوںکو کچھ کریڈٹ دینا پڑے گا۔ اُنھوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت سے اہم قوانین بنائے اور صوبوںکو وسیع تر اختیارات دینے کا وعدہ پورا کیا۔ اس سلسلے میں اٹھارہویں ترمیم ایک اہم پیش رفت تھی؛ تاہم قوانین بنانا ایک بات ہے، ان کو نافذ کرنا ایک الگ معاملہ۔ اس ضمن میں زردای حکومت بری طرح ناکام ہو ئی ہے۔ اس پر حکومتی حلقے اکثر عدلیہ کی طرف سے بے جا مداخلت کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اُن کو اپنی زندگیوںمیں بہتری چاہیے، اُن کو اس بات سے کوئی سروکار نہیںکہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے یا نہیں، یا یہ کہ سرکاری افسران اس لیے کارکردگی نہیں دکھا سکتے کیونکہ اُن کو عدالت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ جب سے پی پی پی وجود میں آئی ہے، میں اس کا حامی رہا ہوں، اگرچہ میں نے اس پر تنقید بھی کی ہے۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری مدت کی حکومت تھی تو ایک مرتبہ اُنھوں نے اپنے انفارمیشن سیکرٹری کو بلا کر دریافت کیا کہ ’’مزداک‘‘ (سرکاری ملازمت کے دوران میرا قلمی نام) اُن کے خلاف کیوں ہو گیا ہے؟ سیکرٹری نے جواب دیا: ’’میں نہیں جانتا کہ مزداک کون ہے اور آپ کے خلاف کیوں ہو گیا ہے‘‘ میں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ محترمہ اچھی جانتی تھیںکہ میںکون ہوں؛ چنانچہ وہ مجھے ملازمت سے نکال سکتی تھیں لیکن اُنھوں نے ایسا نہ کیا کیونکہ وہ پاکستان کے بیشتر سیاست دانوںکے برعکس منتقم مزاج نہ تھیں۔ جب تک وہ حیات تھیں تو ایک امید تھی کہ پی پی پی اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر لے گی لیکن افسوس، ایسی تمام امیدیں اب دم توڑ چکی ہیں۔ چنانچہ اب میرے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ میں ووٹ کس کو دوں؟ گزشتہ کئی ماہ سے میرے بہت سے قارئین نے مجھے ای میل کر کے پوچھا ہے کہ وہ کس جماعت کوووٹ دیں۔ افسوس، میں خود بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کر پایا۔ تاہم خوش قسمتی سے ابھی انتخابات ہونے میں دو ماہ کے قریب وقت ہے۔ اس دوران سوچا جا سکتا ہے کہ ہمارے ووٹ کا حقدار کون ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں