مارگریٹ تھیچر ،خاتونِ آہن۔۔۔ مگر زنگ آلود

اپنی وفات کے ایک ہفتہ بعد بھی سابق برطانوی وزیر ِ اعظم مارگریٹ تھیچرکے بارے میں برطانوی معاشرے کی سوچ اُسی طرح منقسم ہے جس طرح اُن کے بارہ سالہ دور ِ اقتدار میں تھی۔ اب جب کہ اُن کو موجودہ پارلیمنٹ اور اخبارات میں شائع ہونے والے سینکڑوں کالموں اور اداریوں نے خراج ِ تحسین پیش کیا ہے، انگریزی معاشرے کے بہت سے حلقے اُن کے بارے میں ناخوشگوار باتیں کہہ رہے ہیں۔اس معاشرے میں اُن کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار ایک میوزیکل گروپ، ’’دی وزارڈ آف اوز‘‘ کی طرف سے بنائے گئے گیت، ’’چڑیل مرگئی ہے‘‘ کی مقبولیت سے ہوتا ہے۔اتنی کثیر تعداد میں لوگ اسے ڈائون لوڈ کر رہے ہیں کہ یہ ٹاپ ٹین گانوں کی فہرست میں آچکا ہے۔ بہت سے لوگ اس رویے کو ایک ایسی عظیم سیاست دان، جو شاید سر ونسٹن چرچل کے بعد سب سے زیادہ بااثر تھیں، کے لیے توہین آمیز قرار دے رہے ہیں۔ جب مارگریٹ تھیچر کی وفات کی خبر نشر ہوئی تو ہر اخبار نے ضمیمے شائع کیے جن میں ان کی تصاویر ، حالات ِ زندگی اور سیاست کے بارے میں مضامین تھے۔ ایک روسی صحافی کی طرف سے اُنہیں ’’خاتون ِ آہن ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ یہ خطاب اُن پر خوب جچتا تھا ۔ دائیں بازو کے نزدیک وہ بہت اچھا کام کر رہی تھیں جبکہ بائیں بازو کے لوگ اُنہیں مزدور تنظیموں کے خاتمے اور صنعت کے لیے بنائی گئی تباہ کن پالیسیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اُ ن کی وفات کی خبر پر ایک یہ ردِ عمل بھی دیکھنے میںآیا کہ بہت سی پارٹیوں نے تقریبات منانا شروع کر دیں۔ جس طرح پاکستان میں بھٹو صاحب کاذکر چھڑتے ہی ان کے حق اور مخالفت میں بحث شروع ہو جاتی ہے، اسی طرح مارگریٹ تھیچر بھی اُس خوشحال طبقے کے نزدیک جسے اُن کی پالیسیوں نے فائدہ پہنچایا، محبت اور احترام کی علامت ہیں جبکہ مزدور پیشہ افراد اور فیکٹری ورکرز اُن کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ اُن کے دور ِ اقتدار میں صنعت ، خاص طور پر کان کنی کے شعبے کو نقصان پہنچا۔ برطانوی معاشرے میں یہ بحث چل رہی ہے کہ موجودہ کساد بازاری اور مالی انحطاط کی ذمہ داری کس حد تک مسز تھیچر کی طرف سے مالی شعبے کو دی گئی آزادی اور خودمختاری پر عائد ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کی طرف سے مالی معاملات پر حکومت کی گرفت ڈھیلی کرنا ایک طرح سے بوتل سے جن کو آزاد کرنا تھا کیونکہ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے لندن بین الاقوامی بنکوں، کاروباری اداروں اور کمپنیوں کا گڑھ بن گیا۔ لوگ چشم زدن میں ارب پتی اور کنگال ہونے لگے۔ اس معاشی غیر یقینی پن کا باعث اُس احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا تھا جو برطانوی بنکار کا خاصاہو ا کرتی تھی۔ ایک برطانوی بنکار ہوگو ینگ (Hugo Young)اُن مالی مشکلات کو بیان کرتے ہیں جو مارگریٹ تھیچر کی ’’افراد کو اہمیت دینے کی پالیسی‘‘ کے باعث پیش آئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیس سال پہلے مارگریٹ تھیچر نے برطانوی معاشرے کو معاشی خودغرضی کی جس راہ پر گامز ن کیا تھا، وہ آج اُسے پوری طرح لپیٹ میں لے چکی ہے۔ یاد رہے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے ہی مسز تھیچر کو اپنے ہی ساتھیوں ’’ٹوری پارٹی ‘‘ میں ہونے والی بغاوت کی وجہ سے اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ لندن کے سابق مئیر ، کن لوننگ سٹون، ’’دی گارڈین ‘‘ میں لکھتے ہیں۔۔۔’’ تھیچر کی صنعت کے لیے تباہ کن پالیسی اور معیشت کو غیر ضروری حد تک آزادی دینے کے فیصلے نے نجی شعبے کی بچت اور ترقی کو نقصان پہنچایایہاں تک کہ وہ 2008ء میں شدید مقروض ہو گیا۔ اس نے براہ راست بنکنگ کے شعبے کو دیوالیہ کر دیا۔ یہ معاشی تصور کہ بنکار ہم سب کے فائد ے لیے وسائل مختص کرنے کے لیے آزاد ہیں، ایک بہت بڑا دھوکہ ثابت ہوا۔ آج بنکوںکے دیوالیہ ہونے کے بعد دی جانے والی بیل آوٹ (امدادی رقوم ) کے اثرات تمام لوگ محسوس کر رہے ہیں۔ ‘‘ مارگریٹ تھیچرکے طویل دور میںباقی چیزوںکے علاوہ دو باتیں بہت نمایا ں رہیں۔ پہلی بات کان کنوں کے خلاف جارحانہ اقدامات تھے جب وہ 1984ء میں ہڑتال پر چلے گئے ، اور دوسری چیزارجنٹائن کو فاک لینڈ پر قبضہ کرنے سے باز رکھنے کے لیے رائل نیوی کو متحرک کرنے کا فیصلہ تھا۔ داخلی طور پر تھیچر نے نہایت سنگدلی کا مظاہرہ کیا تھا جب ’’ نیشنل یونین آف مائنر ‘‘ کے کارکنوںنے ملازمتوں کے خاتمے کے ردِ عمل میں ہڑتال کی۔ ہڑتال پر آمادہ مزدوروں کو، جو کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں کا داخلہ احتجاجاً بند کیے ہوئے تھے، اس اقدام سے روکنے کے لیے ہزاروںپولیس والوں کو تعینات کیا گیا۔ اُنھوںنے نہایت سختی سے ان کان کنوں کوہٹایا۔ اس کارروائی میں کئی مزدور زخمی ہو گئے۔ اس سے پہلے تھیچر نے حکم دیا تھا کہ کوئلہ کا ذخیرہ کر لیا جائے اور بجلی گھروں کو تیل پر چلایا جائے تاکہ ہڑتال کے زیادہ اثرات نہ ہوں۔ یہ طویل ہڑتال جب 1985ء میں ختم ہوئی تو کان کنی کی تمام صنعت تباہ ہو چکی تھی۔ یہ آج تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔ فاک لینڈ کی جنگ میں کابینہ کے وزرا ء اور واشنگٹن کے مشورے کے خلاف تھیچر نے دور دراز کے مقام پر جنگ کرنے کا خطرہ مول لیا۔ بہرحال اس جنگ میں کامیابی نے برطانوی عوام کے دل جیت لیے کیونکہ وہ اس سے پہلے برطانوی سلطنت کا انحطاط، جو دوسری جنگ ِ عظیم سے شروع ہوا، دیکھ چکے تھے۔ مارگریٹ تھیچر کی وفات کے بعد اُن کے بہت سے ساتھیوںنے کہا ہے کہ وہ آہنی عزم کی مالک تھیں۔ جو بات بھی ذہن میں آجاتی، وہ اُس پر مضبوطی سے قائم رہتیں اور اُسے کر گزرتیں۔ اُن کی برطانوی افسرشاہی پر غیر معمولی گرفت تھی اور وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد پورا کرتیں۔ اُن سے منسوب ایک مشہور بیان بھی گردش میں رہا ہے۔۔۔’’ میں اپنی کابینہ کی واحد ’مرد‘ ہوں۔‘‘بہرحال آج اُن کی پالیسیوںکے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اُنھوںنے برطانیہ اور اس کی معیشت کو کھویا ہوا وقار دلانے میںاہم کردار ادا کیا۔ اس کاوش میں اُن کو اپنے دوست ، امریکی صدر مسٹر رونالڈ ریگن ، کی معاونت حاصل رہی۔ جب صدام حسین نے 1990ء میں کویت پر چڑھائی کی تو تھیچر نے سینئر بش کو خلیجی جنگ شروع کرنے پر آمادہ کیا۔ ایک حوالے سے مارگریٹ تھیچر قابل ِ تعریف تھیںکہ وہ اپنی قوم کے لیے جو درست سمجھتی تھیں ، اُسے سرانجام دینے میں کوئی تامل محسوس نہیں کرتی تھیں۔ اس کے لیے اُنہیں بعض ناپسندیدہ فیصلے بھی کرنا پڑتے۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنی کابینہ کی رائے کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔ آئرش علیحدگی پسندوں کے خلاف جارحانہ کاروائی نے اُن کو آئرلینڈ میں غیر مقبول بنا دیا۔ جب کچھ آئرش جنگجوئوں نے قید میں بھوک ہڑتال کر دی تو مارگریٹ تھیچر نے سنگدلی سے کہا کہ اگر وہ بھوکا مرنا چاہتے ہیں تو اُن کو اجازت ہے۔ ان کی وفات پر کسی ستم ظریف نے تعزیتی جملے میں لکھا ہے۔۔۔’’Rust in peace‘‘۔ تھیچر کی طرف سے ’’ افریقی نیشنل کونسل‘‘ کو، جو افریقی عوام کے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کررہی تھی، مسترد کرنے اور نیلسن منڈیلا کو ’’دہشت گرد ‘‘ قرار دینے کے فیصلے نے اُنہیں پوری دنیا میں ناپسندیدہ شخصیت بنا دیا۔اس کے علاوہ چلی کے آمر پنوشے (Pinochet) کے ساتھ اُن کے روابط نے اُن کی جمہوریت پسندی پر بھی سوالات اٹھائے۔ ’’دی گارڈین‘‘ میں کسی قاری کا خط صرف ایک سطر پر مشتمل تھا۔۔۔’’ پنوشے کی دوست، منڈیلا کی دشمن‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں