خبروں کا رسیا

مجھے اعتراف ہے کہ میں خبروں کا رسیا ہوں۔ میں دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں اور چاہے مجھے آن لائن ٹی وی یا ریڈیو کی سہولت حاصل کیوں نہ ہو، میں مقامی اخبارات ضرور خریدتا ہوں۔ ہر ملک کے مقامی اخبارات نہ صرف وہاں کی مقامی سیاست بلکہ عام شہری اور سماجی زندگی کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ میں روزانہ دوسرے اخبارات کے علاوہ ’’دی گارڈین‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ ضرور پڑھتا ہوں۔ ایک اسرائیلی اخبار ’’ہارز‘‘ (Haaretz) پر بھی نظر ڈالتا ہوں اور جب میں کسی موضوع پر لکھ رہا ہوتا ہوں تو اُس پر پرانے اخبارات اور رسائل میں لکھے گئے مضامین کو دیکھنے کے لیے انٹرنیٹ بھی استعمال کرتا ہوں۔ جب میں پاکستان آتا ہوں تو لاتعداد ٹی وی چینلز پر ہونے والے مباحثے مجھے اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ آج کل پاکستان کس تازہ بحران کا شکار ہے۔ عالمی خبروںکے لیے میں بی بی سی اور الجزیرہ دیکھتا ہوں۔ عالمی حالات و واقعات کے گہرے جائزے کے لیے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کئی سالوں سے میرے لیے ایک قابلِ اعتماد ذریعہ ہے۔ اخبارات کے اس قدر مطالعہ سے میری کتب بینی کی عادت متاثر ہوئی ہے اور مجھے اس پر افسوس ہے۔ میں کتابیں ضرور خریدتا ہوں، خاص طور وہ کتابیں جن کے بارے میں دوستوں نے کہا ہوتا ہے یا ان کے بہت اچھے جائزے پڑھے ہوتے ہیں۔ شیلف میں اُن کا ڈھیر لگا رہتا ہے مگر ان کا مطالعہ کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں کئی کتابیں بیک وقت پڑھنا شروع کر دیتا ہوں اور ایک کتاب کے کچھ صفحات پڑھنے کے بعد دوسری پکڑ لیتا ہوں اور پھر تیسری، اسی چکر میں ان کا ربط ذہن سے جاتا رہتا ہے۔ یقیناً یہ کوئی مستحسن عمل نہیں اور مجھے احساس ہے کہ اسے بدلنا چاہیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میرا شعبہ ، کالم نگاری، اس بات کی متقاضی ہے کہ میں پیش آنے والے حالات و واقعات سے باخبر رہوں۔ لہٰذا یہ ایک مسئلہ تو ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ اس سے کیسے نمٹوں۔ میں اسی ذہنی الجھن کا شکار تھا کہ ’’دی گارڈین‘‘ میں رولف ڈوبلی، جو سوئس مصنف ہیں‘ کا ایک مضمون پڑھا۔ فاضل مصنف قارئین پر زور دیتے ہیں کہ وہ خبروں کا پیچھا نہ کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے چار سال پہلے خبریں پڑھنے اور دیکھنے کا سلسلہ موقوف کر دیا تھا؛ چنانچہ اب وہ خود کو کافی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ ڈوبلی نے جو دلائل دیے ان کا تعلق جسمانی اور ذہنی معاملات سے ہے۔ اُن کے مطابق ’’ ذہن کے لیے خبریں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسے جسم کے لیے چینی‘‘ ہم سب جانتے ہیں کہ زیادہ مٹھاس والی چیزیں استعمال کرنے سے جسم فربہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ خبریں بھی ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہیں۔ ہر وقت سنسنی خیز خبریں سُن اور پڑھ کر ہماری تجزیاتی صلاحیتیں سطحی اور کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ وہ ناسیم طالب کا حوالہ دیتے ہیں۔۔۔’’ ایک کار پُل پر سے گزر رہی ہوتی ہے کہ وہ پُل گر جاتا ہے اورکار دریا میںگر جاتی ہے۔ اس واقعہ کی ٹی وی کوریج کار اور اس میں سوار افراد کے بارے میں ہو گی۔ سامعین اور ناظرین اس سانحے کے فوری اثرات سے باخبر ہوں گے لیکن ایک اہم اور مرکزی سوال باقی رہ جائے گا کہ پل کیسے گرا؟‘‘ ڈوبلی قارئین سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تمام خبریں جو گزشتہ پانچ برس سے اُنہوں نے سنیں یا پڑھیں، کس حد تک اُن کی قوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہوئیں؟ ان خبروں نے اُنہیں اہم فیصلے کرنے میں کس حد تک مدد دی؟ حقیقت یہ ہے کہ خبروں کی بھرمار نے ہماری تجزیاتی صلاحیت کو جلا نہیں بخشی بلکہ ہمیں کنفیوژ کر دیا ہے۔ ذہن کو زنگ لگانے کے علاوہ خبروں کا جسم پر بھی منفی اثر ہوتا ہے۔ ہم ان کی وجہ سے اعصابی تنائو کا شکار رہتے ہیں، اس سے جسم میں بننے والے ہارمونز کی افزائش متاثر ہوتی ہے۔ ڈوبلی کے مطابق ا س کے ضمنی اثرات (side-effects) میں خوف، جارحانہ پن اور ذہنی تنائو جیسے مسائل شامل ہیں۔ ڈوبلی ہمہ وقت برسنے والی خبروں، حالاتِ حاضرہ پر لکھی گئی کتابوں اور پُرمغز مضامین میں امتیاز کرتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹس اور خبروں کی ہماری زندگی میں اہمیت ہے لیکن طوفانِ گرد و غبار کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لینے والی خبروںکی نہیں۔ اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے میڈلین بنٹنگ ’’دی گارڈین‘‘ میں لکھتی ہیں: ’’خبریں اور اخبارات ہمیں اُن واقعات اور خیالات سے باخبر رکھتے ہیں اور ہم پڑھے بغیر ان سے واقف نہیں ہو سکتے تھے۔ اگر آپ ان سے لاتعلق ہو کر بیٹھ جائیں تو آپ اپنی زندگی اور ارد گرد کی دنیا کے بہت سے معاملات کی تفہیم نہیں کر پائیں گے۔ آپ معاشرے کے مختلف حلقوںکے درمیان ہونے والے اجتماعی مکالمے سے دور جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں آپ کی دنیا صرف اُن حدود میں سمٹ جائے گی جو آپ جانتے اور سوچتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی نفسیات کا سب سے اہم پہلو تجسس ہوتا ہے، خبریں اس کو تحریک دے کر زندہ رکھتی ہیں۔ خبروں کی ’’دنیا ‘‘ سے دور ہو کر آپ کے تجسس کو داخلی التباسات گمراہ کر سکتے ہیں‘‘ یقینا آج کی تیز رفتار دنیا میں ہم میں سے کوئی بھی حالات و واقعات سے بے خبر نہیں رہنا چاہے گا۔ موسم سے لے کر ٹریفک کی معلومات تک کے لیے ہمیں خبروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ذمہ دار شہری ہونے کے حوالے سے بھی ہمیں اپنے ریاستی معاملات کا علم ہونا چاہیے؛ تاہم خبروں کے حصول میں اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ بہت سے افراد کے لیے سیاسی مباحثے کے پروگرام ہی علم اور معلومات کا بنیادی ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایسے افراد بھول جاتے ہیں کہ بعض اوقات صحافیوں کے ہاتھوں میں معلومات صرف پراپیگنڈے کا مواد بن کر رہ جاتی ہیں۔ بے تحاشا خبروں اور غیرمستند معلومات کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ وہ منتشر خیالی کا باعث بنتے ہوئے ہمیں گمراہ بھی کر سکتی ہیں کیونکہ ان میں جامعیت اور تجزیاتی علم کی کمی ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگ صرف وہی کچھ پڑھتے ہیں جو سائبر سپیس سے اُ ن کے سامنے آتا ہے ( یا لایا جاتا ہے )۔ مجھے اکثر مہربان ٹوئٹر پر دلچسپ کہانیاں بھیجتے رہتے ہیں اور میں بھی کتاب ایک طرف رکھ کر اُن کو پڑھنے میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹوئٹر پر ڈالی جانے والی کہانی بھی ادھوری رہ جاتی ہے اور کتاب پڑھنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آرام سے بیٹھ کر خبریں پڑھنا، ایک پُرمغز کتاب پڑھنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ چنانچہ یہاں ڈوبلی درست لگتے ہیں کہ خبروں کا چسکا ہماری ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ سنسنی خیز خبریں سن کر کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھراس نیم دانش کے ساتھ زور و شور سے بحث کر نا شروع کر دیتے ہیں۔ تعلیمی اور سماجی علوم کے ماہرین کے درمیان یہ موضوع زیرِ بحث ہے کہ سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز نوجوانوں کی تجزیاتی صلاحیتوں پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بہت سے ماہرین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ آج کے طلبہ یوں تو بہت سی معلومات رکھتے ہیں لیکن ان کی فکری اور تجزیاتی صلاحیتیں تباہ ہو رہی ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اپنی عادت پر، قبل اس کے کہ میرا ذہن جواب دے جائے، قابو پانے کی کوشش کروں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں