26 اپریل کو لندن میں ہونے والے دولت ِمشترکہ میں شامل ممالک کے’’منسٹریل ایکشن گروپ‘‘ کے اختتامی اجلاس پر کولمبو میں حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا ہو گا۔ اگرچہ کینیڈا نے سری لنکا میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ناخوشگوار موضوع چھیڑ دیا لیکن اس بات پر اتفاق نظر آیا کہ دولت ِ مشترکہ کے سربراہان کا اجلاس سری لنکا میںہی ہو گا۔ اس پر بہت سی گرما گرم بحث دیکھنے میں آئی کیونکہ انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموںنے سری لنکن خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ہزاروں تامل شہریوں کو درپیش نامساعد حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حال ہی میں جنیوا میںہونے والے ’’یواین ہیومن رائٹس کونسل ‘‘ کے اجلاس میں سری لنکا پر تنقید کی گئی ہے کیونکہ اس نے ان الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی اجازت نہیں دی۔ جب پرویز مشرف نے 1999ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا، پاکستان کی دولتِ مشترکہ کی رکنیت معطل کر دی گئی۔ اس سے پہلے جب 1971ء کی خانہ جنگی کے دوران دولتِ مشترکہ نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا تو بھٹو صاحب نے احتجاجاً پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے نکال لیا۔ اس کے بعد ہمیں دوبارہ رکنیت حاصل کرنے میں کئی سال لگ گئے۔ اگرچہ دولتِ مشترکہ بہت بااختیار گروپ نہیںہے، لیکن یہ اپنے اراکین کو بہت سے معاملات کوزیر ِ بحث لانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کر تا ہے۔ ان سب ممالک میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی دور میں برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام میں شامل تھے اور ان سب میں انگریزی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس سال نومبر میں ہونے والی دولت ِ مشترکہ کے سربراہان کی میٹنگ کے لیے سری لنکا کا انتخاب کرنا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ اس کے اراکین اب سری لنکا پر اعتماد کررہے ہیں۔ یہ اس جزیرہ نما ملک کے لیے ایک طرح کے لٹمس ٹیسٹ کے مترادف ہے۔ تامل جنگجوئوں کے خلاف طویل اور وحشیانہ جنگ جیتنے کے بعد صدر راجا پاکسے (Rajapakse) توقع کرتے تھے کہ عالمی برادری اُن کی کامیابی کا اعتراف کرے، تاہم خانہ جنگی کے اختتامی ایام میں ہزاروں تامل شہریوں کی ہلاکت کی خبریں اور تصاویر عالمی میڈیا میں گردش میں رہیں۔ اُس وقت سے لے کر اب تک سری لنکن حکومت نے تامل آبادی کی دلجوئی کرنے کی کوئی کوشش نہیںکی ، اس کی بجائے شمالی علاقوں میں امن اس طرح کا ہے جیسے کوئی فاتح کسی خطے کو زیر ِ نگیں لاتے ہوئے اپنا تسلّط قائم کرتاہے۔ یہاں بہت بڑی تعداد میں فوجی دستے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فوج بہت سے کمرشل کاروباری ادارے چلارہی ہے ۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے مقامی تامل باشندے ان کا کاروبار میں بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس طرح فوجی اورمعاشی طور پر تامل باشندے شدید دبائو کا شکار ہیں۔ چند ہفتے پہلے، میںنے دولت ِمشترکہ کی لندن میںہونے والی ’’جرنلسٹس آرگنائزیشن ‘‘ کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کے اجلا س میںبھی سری لنکا میں انسانی حقوق کی صورت ِ حال پر بات چیت کی گئی۔ اس کانفرنس میں کولمبوکے ’’Centre for Policy Alternatives‘‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پیکیسو تھی ساراوینامتو (Dr Paikiasothy Saravanamuttu) نے اُس افسوس ناک طرز ِعمل کا ذکر کیا جو سری لنکن حکومت نے روا رکھا ہوا ہے۔ اُن کو دولت ِ مشترکہ کی طرف سے سربراہان کا اجلاس سری لنکا میں بلانے پر تشویش تھی کیونکہ یہ سری لنکن حکومت،جس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے الزامات ہیں، کی پذیرائی کے مترادف ہو گا۔ چونکہ میزبان ملک خود بخود دولتِ مشترکہ کا دو سال کے لیے سربراہ بن جاتا ہے، اس لیے سری لنکا کو تمام شکوک و شبہات اور الزامات سے استثنا مل جائے گا۔ ڈاکٹر ساراوینامتو نے یہ بھی بتایا کہ جو جرائم پیشہ افراد سری لنکا میں مقیم مسلمانوں پر حملے کررہے ہیں،ان کو عام طور پر بدھ مذہب کے راہب ایسا کرنے کے لیے اکساتے ہیں ۔ ایسے واقعات کے دوران عام طور پر پولیس محض خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری ادارے کس طرح جرائم سے اغماض برت رہے ہیں۔ایک مسلمان تاجر، جس کی دکان پر حملہ کیا گیا، کو وارننگ دی گئی کہ اگراُس کو اپنے دیگر مفادات عزیز ہیں تو وہ پولیس کے پا س جانے کی حماقت نہ کرے ۔ اسی طرح مساجد میں نمازیوں پر حملوں نے بھی سری لنکا کے معاشرے کی مذہبی آزادی کی قلعی کھول دی ہے۔ اسی گفتگو میں تامل نسل سے تعلق رکھنے والے ایک رکن ِ پارلیمنٹ مسٹر ایم اے سمن دران بھی موجود تھے۔ اُنھوںنے بتایا کہ جافنا میں ہونے والے تامل باشندوں کے ایک چھوٹے سے اجلاس پر تشدد پسند گروہ نے پتھرائو کیا مگر پولیس کچھ فاصلے پر کھڑی دیکھتی رہی جبکہ شرکا نے بھاگ کر جان بچائی۔ اس کارروائی میں لوگوںنے ایک حملہ آور کوپکڑ لیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک پولیس مین ہے۔ اُنھوںنے یہ بھی بتایا کہ حال ہی میں ایک تامل روزنامے پر حملہ کرکے پرنٹنگ پریس کو آگ لگا دی گئی، لیکن حکومت نے الٹا اس کے مالکان پر الزام لگایا کہ دراصل یہ اُن کی اپنی کارروائی تھی اور اس کامقصد حکومت کو بدنام کرناتھا۔ جوافراد اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ دولت ِ مشترکہ کے سربراہان کا اجلاس سری لنکا میںہی ہونا چاہیے، کا کہنا ہے کہ یہ تمام باتیں زیر ِ بحث لائی جا چکی ہیں ۔ مزید یہ کہ اب اس مقام کو تبدیل کرنا ممکن نہیںہے کیونکہ بہت دیر ہو چکی ہے، تاہم ڈاکٹر صاحب نے اس بات سے اتفاق نہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دولت ِ مشترکہ کو اپنے اصولوں کو مقدم رکھنا چاہیے۔ گزشتہ چند سالوں سے میں بھی سری لنکا کی صورت ِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ایک جمہوری ملک آمریت کا رنگ اختیار کرتا جارہا ہے۔ میراخیا ل تھا کہ جب خانہ جنگی ختم ہو جائے گی تو سری لنکن معاشرہ نسلی تعصب اور جنگ کی تباہ کاریوں کو بھُلا کر امن اور خوشحالی کی راہ پر گامز ن ہوجائے گا، تاہم ارباب ِ اختیار فتح کے نشے میں سرشار ہو گئے اور اُن کے رویے نے ملک میں شخصی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا۔ جب بہت سے صحافی حضرات اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بہت سے اخبارات اور ٹی وی سٹوڈیوز پر حملہ کیا گیا تو میڈیا بھی دبائو میں آگیا۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والا کوئی مجرم کبھی گرفتار نہیںہوا۔ اپوزیشن جماعت کو بھی کچل دیا گیا ہے، کچھ کو مفادات سے نوازتے ہوئے ساتھ ملا لیا گیا ہے۔ حال ہی میں سری لنکن چیف جسٹس کو عہدے سے معزول کرنے کا اقدام اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ملک میں کس قسم کی آمریت پروان چڑھ رہی ہے۔ گفتگو کے اختتام پر میںنے ڈاکٹر سارا وینا موتو سے پوچھا کہ جب حکمرانوں کا تمام تر معاشی مفاد اور طاقت ریاستی اختیار کے بل بوتے پر ہے تو پھر وہ کس طرح اپنی گرفت میںنرمی کریںگے ؟ ڈاکٹر صاحب بھی میری طرح ہی ناامیددکھائی دیتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانی حقوق کی تما م تر خلاف ورزیوں کے باوجود بین الاقوامی برادری سری لنکا کی حکومت پر اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈالنے کے لیے تیار نہیںہے۔ دولت ِ مشترکہ کے سربراہی اجلاس کی میزبانی سری لنکا سے کہیں اور منتقل نہ کرنے سے یہی پیغام جاتا ہے کہ عالمی برادری کو سری لنکا کی داخلی صورت ِ حال پر کوئی تشویش نہیںہے۔ تاہم عالمی تنظیموں کا یہ خاصا رہا ہے کہ وہ ہمیشہ حکومتوں، نہ کہ مظلوم عوام، کے ساتھ تعلقات پیدا کرتے ہوئے عالمی ہم آہنگی کا تاثر دیتی ہیں۔ سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ رہی ہیں اور اس کے صلے میں اسے دولت ِ مشترکہ کی صدارت سے نوازا جارہا ہے۔