دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اگر جرائم پیشہ افراد کا کوئی گروہ قومی سطح کی جماعتوں یا تنظیموں کو قتل کی دھمکی دے اور پانچ ماہ بعد اپنی دھمکی پر عمل پیرا ہو جائے تو دو باتیں ہوں گی: اول‘ ریاست اُن قاتلوں کے خلاف پوری توانائی سے ٹھوس اقدامات کر کے اُن کا خاتمہ کر دے گی۔ دوئم‘ جن افراد یا جماعتوںکو دھمکی دی گئی، اُن کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی؛ تاہم پاکستان میں ان میں سے کوئی اقدام بھی دیکھنے میں نہیں آیا حالانکہ طالبان نے گزشتہ دسمبر میں دھمکی دی تھی کہ وہ انتخابی عمل کو نشانہ بنائیںگے۔ آج وہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے انتخابی دفاتر اور امیدواروںکو گولیوں اور بمبوں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیںکرتی‘ اس کی وجہ ڈیرہ غازی خان میں کی جانے والی مولانا فضل الرحمن کی حالیہ تقریر بیان کرتی ہے۔ اس تقریر میں مولانا نے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کسی قسم کی قوت استعمال نہ کی جائے۔ ایسا کرتے ہوئے مولانا دراصل طالبان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ وہ ان کے خطرے سے محفوظ رہ کر اپنی انتخابی مہم چلا سکیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اسی موضوع کو اجاگر کیا۔ انہوں نے سٹیج پر کیے گئے تمام تر حفاظتی اقدامات کو پرے ہٹاتے ہوئے بڑے جوش سے کہا کہ اُن کو ان کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ طالبان عام پاکستانی شہریوں پر حملے امریکی ڈرون حملوںکے جواب میں کرتے ہیں۔ گویا وہ طالبان کی دہشت گردی کو ایک طرح کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ ان حملوں میں ہزاروں پاکستانی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف بھی اس موضوع پر خاموش رہ کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں جنوبی پنجاب میں موجود انتہا پسند تنظیموںکے خلاف کوئی کارروائی نہیںکی گئی حالانکہ یہ محفوظ ٹھکانوں سے نکل کر اپنے مخالفین کو نشانہ بناتی رہیں۔ جب پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ وہ پنجاب میں حملے نہ کریں کیونکہ ان کی انتظامیہ اُن کے خلا ف کچھ نہیںکر رہی تو وہ ایک طرح سے اُن کی طرف سفید جھنڈا لہراتے ہوئے صلح کی پیش کش تھی۔ یہ بات واضح ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوںکے ان ’’اقدامات‘‘ سے طالبان دلیر ہو گئے ہیں چنانچہ ان انتخابات کے موقع پر وہ اُن جماعتوں‘ جو اُن کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں، کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ کالم نگار اعجاز حیدر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ طالبان پاکستان میں اپنی مرضی کی شریعت نافذکرنے کے واضح ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کبھی انتخابات کے ذریعے پاکستان میں اقتدار میں نہیں آ سکتے‘ اس لیے وہ دہشت پھیلا کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ وہ اب تک اس لیے کامیاب رہے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں ان کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے ا تفاق نہیں پایا جاتا۔ کچھ سیاست دان ان کے حملوں سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ابہام پیدا کرتے ہیں تاکہ ادارے اُن کے خلاف کارروائی نہ کر سکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران پی پی پی کی حکومت نے نظم و نسق کی کوئی مثال نہیں قائم کی۔ اُسے اطراف و جوانب سے پیش کیے گئے چیلنجوں نے سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ حکومت نے جب بھی دہشت گردی کے موضوع پر کانفرنس بلائی، اس میں اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر پاکستان پر کسی اور ملک، جیسا کہ انڈیا، نے حملہ کیا ہوتا تو فی الفور قومی اتفاق رائے دیکھنے میں آتا اور سب لوگ وطن کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس وقت ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ اتنا ہی سنگین ہے لیکن ہمارے سیاست دان ابہام کا شکار ہیں۔ لینن نے اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کہ پالیسی کو کیسے آگے بڑھایا جائے، لکھا۔۔۔’’بندوق کی سنگین سے ٹٹولیں اور اگر وہ رکاوٹ فولاد کی بنی ہوئی ہو تو رک جائیں، اگر وہ نرم ہو یعنی اُس میں سنگین پیوست ہو سکتی ہو تو آگے بڑھتے رہیں‘‘۔ اس وقت طالبان خوش ہیں کیونکہ اُن کے راستے میںکوئی فولاد نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ملک میں صلح جو پالیسی پائی جاتی ہے چنانچہ وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں اُن کو جس واحد فولاد کا سامنا کرنا پڑا وہ سوات آپریشن تھا لیکن اس کے بعد راوی (اُن کی طرف سے) چین ہی چین لکھتا ہے۔ موجودہ انتخابات کے حوالے سے ہونے والی دہشت گردی میں انسانی جانوں کے افسوسناک ضیاع کے علاوہ سچائی کا بھی خون ہو رہا ہے۔ اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کہہ سکیںگے کہ اُن کو معمول سے کم ووٹ ملے کیونکہ اُن کے ووٹر جان کے خوف سے گھر سے باہر نہیں آئے ۔۔۔ اور یہ بات درست ہے۔ چنانچہ اب کیسے پتہ چلے گا کہ گزشتہ پانچ سال ہونے والی لوٹ مار اور بدانتظامی کی وجہ سے عوام نے اُنہیں مسترد کیا ہے یا طالبان کے حملوںکے ڈر سے عوام نے ووٹ نہیں ڈالے۔ ان حالات میں ایم کیو ایم کو زیادہ نقصان نہیں ہو گا کیونکہ اُس کا ووٹ بنک محفوظ ہے، چنانچہ وہ انتخابی مہم چلا سکیں یا نہیں، اُن کو ووٹ مل جائیںگے۔ دہشت گردی کے پس منظر میں ایک اور تکلیف دہ فیکٹر سامنے آرہا ہے کہ پنجاب، خوش قسمتی سے، تحریک طالبان پاکستان کے حملوں سے محفوظ ہے۔ چنانچہ چھوٹے صوبے اس ضمن میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے طالبان کو خوش کرنے کی پالیسی جاری رکھی جبکہ طالبان نے دیگر صوبوں کو حملوں کی باڑ پر رکھا۔ اس سے وفاق کمزور ہوگا اور باقی صوبوںکی پنجاب سے نفرت بڑھے گی۔ جب بوسٹن میراتھن کو گزشتہ ماہ بم کا نشانہ بنایا گیا تو ایف بی آئی نے ان حملوںکی تفتیش کے لیے ایک ہزار ایجنٹ مقرر کیے کہ آیا حملوں میں ملوث دونوں چیچن بھائیوں کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تو نہیں؟ اس طرح کی مربوط تحقیق مزید حملوں کے امکانات کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے جبکہ پاکستان میں ایسے حملوں، جو معمول کی بات ہیں، کے بعد روایتی ادارتی نوٹ لکھے جاتے ہیں، کچھ بیانات جاری ہوتے ہیں جبکہ متعلقہ اداروں کو کچھ علم نہیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ گزشتہ چند برسوںکے دوران ہمارے ہاں سکیورٹی کی ناکامی کے جس طرح کے منہ بولتے ثبوت ملے ہیں وہ کسی بھی ریاست کو ہلا دینے کے لیے کافی ہیں، لیکن ہم ابھی تک ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ طالبان کے خطرے سے قوم کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ بات مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے۔ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ اگلی حکومت قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں کو طالبان کے خلاف متحرک کرے گی؟ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے‘ جیسا کہ توقع ہے‘ تو طالبان کے خلاف ان کی پالیسی کیا ہو گی؟ عمران خان تو ویسے بھی طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے خلاف ہیں۔ چنانچہ طالبان کو امید ہے کہ اُن کی سنگین پاکستان میں کسی فولاد سے نہیں ٹکرائے گی، اس لیے وہ اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے۔