یہ گھڑی محشر کی ہے

اس وقت، جبکہ ملک میں انقلابی معرکہ سج چکا ہے، پاکستان کا صدارتی محل غمزدہ اور اداس تصویر پیش کررہا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی ان انتخابات میںمایوس کن کارکردگی متوقع ہے۔ چند ہفتے پہلے میںنے ایک کالم میں اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ووٹ ڈالتے وقت میں کن معروضات کا خیال رکھوں گا ، تاہم آج میری سوچ کا دھارا ایک گرداب میں پھنس گیا ہے۔ میں خود کوکسی نتیجے پر پہنچتا نہیں دیکھ رہا ہوں۔ تاہم آج ایک اہم موقع ہے اور ہمیں ووٹ ڈالنے سے پہلے تھوڑی دیر رک کر ذرا سوچنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے چھوٹے ،بڑے، قلیل المدتی اور وسط مدتی مسائل کیا ہیں؟ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اگر ہم نے ان پر نظر نہ ڈالی یا ووٹ ڈالنے سے پہلے انہیں ملحوظ خاطر نہ رکھا تو ہمارے پاس سوچنے کے لیے پھر وقت نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت سمجھنے کے لیے بہت دانا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے کے تدارک کے لیے کچھ نہ کیا تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیںہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یہ مسئلہ صرف کتابوں کی تشریحات اور فتووں تک ہی محدود نہیںہے بلکہ یہ پولیو کے قطرے پلانے سے لے کر سرمایہ کاری تک، ہر معاملہ کو متاثر کر رہا ہے۔ اب چونکہ یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، تو اس بات پر غور کیجیے کہ کون سی جماعت اس کے خلاف لڑنے کے لیے کمربستہ ہے؟ میرے خیال میں کسی بھی جماعت کو عوامی پذیرائی ملنے کے لیے اسے لٹمس ٹیسٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں پی پی پی کا طویل مدت سے حامی رہا ہوں ، اگرچہ میری حمایت گاہے متزلزل بھی دکھائی دیتی ہے۔ انتخابی معرکے میںموجود سیاسی جماعتوں کا جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے پی ٹی آئی سے آغاز کرتے ہیں کیونکہ اس وقت یہ سب سے آگے محسوس ہوتی ہے۔ میں عمران خان سے نظریات کے اعتبار سے اختلاف رکھتا ہوں،لیکن میری دعا ہے وہ جلد از جلد صحت یاب ہو جائیں۔ اُنھوںنے ہسپتال کے بسترسے جو پیغام دیا، اُس نے مجھے بہت متاثر کیا اگرچہ میں ان کی سیاست کا معترف نہیں ہوں۔ ایک اور بات، میںعمران خان کے انقلابی نعرے سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن اُن کے جذبے اور پاکستانی نوجوان کو تحریک دینے کی صلاحیت کی داددیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ لاہور کے انتخابی جلسے کے دوران ان کے لفٹرسے گرنے نے اُن کے لیے عوامی ہمدردی کے جذبے کو مزید تحریک دی ہو لیکن بہرحال پی ٹی آئی اتنی کامیابی حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی جتنی حکومت سازی کے لیے درکار ہے۔ عمران خان کے حوالے سے میرے لیے سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اگر اُن کو حکومت مل گئی تو وہ طالبان، جن کی پیش قدمی جاری ہے، سے کس طرح نمٹیںگے ؟ عمران خان طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہیں اور طالبان اس کو یقینا پاکستانی ریاست کی کمزوری سمجھ کر مزید شہ پائیںگے۔ ایک بات جسے عمران سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ طالبان کی جدوجہدکا مقصد رقم یاکسی علاقے پر قبضہ کرنا نہیںہے، بلکہ وہ اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اُن کو محفوظ ٹھکانے اور رقم چاہیے؛ چنانچہ وہ قتل و غارت اور جرائم کی راہ اپنائے ہوئے ہیں لیکن اُن کا حتمی مقصد پاکستان پر قبضے کے سوا کچھ نہیںہے؛ چنانچہ اس پیمانے کے مطابق میں پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دوںگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ، اگرچہ پی ٹی آئی کی سیاسی مخالف ہے، بھی اسی وجہ سے میری انتخابی حمایت کے دائرے سے باہر ہے۔ بالکل عمران خان کی طرح، نواز شریف بھی طالبان کے حوالے سے ایسی ہی مبہم پالیسی رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مذہبی جماعتیںبھی میدان میںموجود ہیں، میں لبرل نظریات رکھتے ہوئے ان کی حمایت نہیں کر سکتا کہ میں سیاست کو مذہب سے الگ سمجھتا ہوں۔ اب باقی رہ گئیں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی۔ ان میں سے پہلے ایم کیو ایم کی بات کرلیتے ہیں کیونکہ میرے شہرکراچی کو یہی جماعت کنٹرول کرتی ہے۔ اگرچہ یہ جماعت طالبان کی سخت مخالف ہے لیکن اس کی لسانی، گروہی اور پر تشدد طرزِسیاست میرے لیے قابل ِ قبول نہیںہے۔ اس لیے میں نے کبھی اس کے امیدواروں کو ووٹ نہیںدیا ہے۔ اس مرتبہ ایک پرانے دوست کا کہنا ہے کہ میں ایم کیو ایم کوووٹ دوں کیونکہ صرف یہی ایک جماعت ہے جو کراچی کو طالبان سے بچا سکتی ہے۔ تاہم اس کامطلب صرف یہ ہے کہ جب ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہو تو صرف ایک کمرہ بچانے کی کوشش کی جائے!جب تک پورا ملک طالبان کو مسترد نہیں کر دیتا، کراچی کو بچانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اسکے علاوہ اے این پی بھی سیکولر نظریات رکھتی ہے اور اس کی بھی کوشش ہے کہ طالبان کو کچل دیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک قومی سطح کی جماعت نہیںہے۔ اس کا اثر صرف ایک صوبے کی سطح تک محدود ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ سال کے دوران اس پر بدعنوانی کے بے پناہ الزامات لگے ہیں۔ اس کے بعد پی پی پی ہے۔ میں یہ اعتراف کرنے میںکوئی عار نہیں سمجھتا کہ جب سے یہ جماعت قائم ہوئی تھی، میںاس کا پُرجوش حامی رہا ہوں۔ اس دوران اگرچہ یہ بہت سے نشیب وفراز سے گزری مگر میںنے ہمیشہ اس کی حمایت کی ۔ بطورایک کالم نگار، میںنے اس پرتنقید بھی کی ہے لیکن اس کے پلڑے میں اپنا وزن بھی ڈالا ہے۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے میںنے پی پی پی مخالف قارئین کی ناراضگی بھی مول لی ہے۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوںنے اس پارٹی کے ایسے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے جس سے میں ، اور بہت سے دیگر افراد، نا واقف تھے۔ آج مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جماعت بہت سی سنگین خامیاں لیے ہوئے ہے۔ ان میںسے سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میںکوئی ڈسپلن نہیںہے اور اس کی سیاست کا محور، میڈیا کی تنقید کے باوجود، دولت کا لالچ ہے۔ نااہلی اس کا خاص وصف ہے۔ میںیہ بات تسلیم کرتا ہوںکہ ہمارے معاشرے میں بدعنوانی کا عنصر اس حد تک سرائت کر چکا ہے کہ مجھے نہیں یقین کہ عمران خان نوے دن (اپنے دعوے کے مطابق) میںاسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیںگے۔ اگرچہ گزشتہ پانچ برسوں میں زرداری حکومت کے پاس تمام تر وسائل موجود تھے لیکن یہ پاکستان کو درپیش مسائل، جیسا کہ امن و امان کا مسئلہ اور توانائی کا سنگین بحران، سے نمٹنے کے لیے کچھ نہ کر سکی۔ یہ بات درست ہے کہ اس کو دبائو کا سامنا تھا لیکن اس کے افعال سے کبھی اس بات کی غمازی نہیںہوئی کہ وہ عوام کے لیے کچھ کرنا چاہ رہی تھی اور ان دھڑوںنے اُسے کرنے نہیں دیا۔ بہرحال اس جماعت نے نظریاتی اعتبار سے اچھا کام کیا ہے۔ اس نے معاشرے میں مفاہمت اور برداشت کی پالیسی رائج کی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اس نے مرکز کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرتے ہوئے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے، لیکن ووٹ ڈالنے سے پہلے ووٹر کے ذہن میں زمینی حقائق ، نہ کہ کیے گئے وعدے، ہوںگے۔ تاہم کارکردگی کے ترازو پر بھی پی پی پی کا پلڑا مکمل طور پر خالی نہیںہے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ، یہ بات ملک میں تسلیم کی جاتی ہے کہ ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘‘ سے ملک کے دیہاتی علاقوں میںلاکھوں افراد کی کفالت ہوتی ہے۔ اس رقم سے فائدہ اٹھانے والوںکا تعلق زیادہ تر جنوبی پنجاب اور اندرون ِ سندھ سے ہے۔ اس طرح زرعی اجناس کی قیمت میں اضافے سے دیہی معیشت کو فائدہ ہوا ہے۔ چنانچہ ان علاقوںمیں پڑنے والے ووٹ ان اقدامات سے متاثر ہوںگے۔ اس وقت میرے ذہن میں انتخابات کے دن سب سے بڑا مسئلہ طالبان ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ پی پی پی نے کسی بھی جماعت سے زیادہ ان کی مخالفت کی ہے اور ان کے خلاف فوجی کارروائی کی کھلی حمایت کی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سول ادارے، جیسا کہ پولیس، ان طالبان کی فائر پاور کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے پر صرف مسلح افواج ہی میدان میں اتر سکتی ہیں۔ ایک اور حقیقت کو تسلیم کرنے میںکوئی عار نہیںہونا چاہیے کہ ان قاتل گروہوںکے خلاف امریکی ڈرون، اگر چہ پاکستان میں ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے، ایک موثر ہتھیار ہیں۔ بہرحال اس وقت پی پی پی کو ووٹ ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے کچھ کراہت آمیز چیز کھانے سے پہلے اپنی ناک کو انگلیوںسے مضبوطی سے دبانا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں