ترکی میں بے چینی کی لہر

میں پہلی مرتبہ استنبول کے تاقسم اسکوائر (Taksim Square) پچاس سال پہلے اُس وقت گیا جب میں ایک نو عمر طالب علم تھا۔ اس کے بعد میں متعدد مرتبہ اس جگہ کی سیر کر چکا ہوں کیونکہ یہاںسے شہر کے تمام اہم حصوں تک جانے والے راستے گزرتے ہیں۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تو میری میزبان، جو میرے والدین کی پرانی دوست تھیں، مجھے اُس وقت نئے بننے والے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں کھانے کے لیے لے گئیں۔ یہ وہ بہترین جگہ تھی جہاں میں نے کبھی کھانا کھایا ہو۔ تقسیم میں میری پسندیدہ سڑک ’’استقلال سیداسی ‘‘ہے ۔ اس کے فٹ پاتھ پر بہت سے ریستوران، دوکانیں اور سینما گھر ہیں۔ اس پر گاہے بگاہے ٹرام گزرتی ہے اور یہ واحد گاڑی ہے جسے یہاں چلنے کی اجازت ہے، باقی راستہ پیدل چلنے والوں کے لیے ہے۔ تقسیم سے جب آپ ایک طرف چلنا شروع کر دیں تو آ پ کو باسفورس ( آبنائے استنبول جو یورپ کو ایشیا سے جدا کرتی ہے)نظر آئے گا۔ پختہ زمین والے اس وسیع علاقے میں صرف غازی پارک، جہاں آج کل سول سوسائٹی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے، وہ واحد جگہ ہے جہاں سبزہ نظر آتا ہے۔ اس مقام کے بہت سے تاریخی حوالے بھی ہیں، چنانچہ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ یہاں لوگ وزیر اعظم کی طرف سے ایک مسجد، شاپنگ مال اور رہائشی کمپلیکس تعمیر کرنے کے منصوبے کی مخالفت کررہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے، خاص طور پر موجودہ حکومت کے گزشتہ دس برسوں کے دوران تعمیر ہونے والی فلک بوس عمارتوں نے استنبول کا حلیہ بدل دیا ہے۔ یہاں کے ہر دورے کے دوران میں دیکھتا ہوں کہ نئی بننے والی عمارتیں پرانی روایتی عمارتوں کی جگہ لے رہی ہیں، چنانچہ اس میں حیرانی کی بات نہیں اگر بہت سے لوگ غازی پارک کو بچانے کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ ایک تبدیلی اور بھی دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ دوروں کے دوران میں نے دیکھا تھا کہ بہت کم خواتین نے سر پر سکارف باندھا ہوتا تھا، بلکہ شہر کے یورپی حصے میں تو ایسا دکھائی دینا ناممکن تھا، لیکن اب شہر بھر میں خواتین نے،حتیٰ کہ جدید دکانوں اور ریستورانوں میںبھی، سر پر رنگ برنگے سکارف لیے ہوئے ہیں۔ غازی پارک میں ہونے والا احتجاج اب صرف ماحولیاتی پہلو ہی لیے ہوئے نہیں، بلکہ اس کا دائرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ اس کا سب سے اہم اور واضح پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگ طیب اردوان کی آمرانہ طرزِ حکومت اور سیکولرمعاشرے میں روایتی عقائد نافذ کرنے کی پالیسی کو رد کر رہے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ محاذآرائی ترک قوم کو تقسیم کر رہی ہے۔ اس کے لیے ذریعے اناطولیہ کے اندرونی علاقوں میں رہنے والے ترقی پسنداور سیکولر نظریات رکھنے والے ترکوں اور روایتی مذہبی ترکوں کے درمیان کھنچنے والی لکیر واضح ہو رہی ہے۔ ترکی میں حکمران جماعت، جو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ہے(گویا وہاں کی تحریک ِ انصاف) نے گزشتہ تین انتخابات جیتے ہیں اور ہر مرتبہ اس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں تو اس نے ڈالے گئے ووٹوں کا نصف حاصل کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ان کامیابیوںنے مسٹر اردوان کے اعتماد میں بے حد اضافہ کر دیا ہے اور شاید کچھ لوگوں کو اس اعتماد میں غرور کی جھلک بھی ملتی ہے۔ کئی عشروں سے سیکولر ازم ترک آئین کی روح ِ رواں تھا۔ ترک فوج، جو جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال کے نظریات کی پاسداری کر تی ہے، سیکولر ازم کی محافظ تھی ، تاہم متعدد حکومتوں کا تختہ الٹنے والے طاقتور جنرلوں کو حکومت نے واپس بیرکوںتک محدود کر دیا۔اس اقدام نے معاشرے میں روایت پسند اقدار کو ابھرنے میں مدد دی۔ نجی گفتگو میں استنبول کا طبقہ ٔ اشرافیہ اناطولیہ میں ابھرنے والی مڈل کلاس کو پسماندہ سوچ رکھنے والے دہقان سمجھتا ہے۔ اس طرح مشرقی اقدار رکھنے والے ترکوں اور مغربی اقدار رکھنے والے ترکوں میں تفاوت گہری ہوتی جارہی ہے۔ اب جبکہ ترکی میں مشرقی اقدار کے حامل ترکوں کے پاس اقتدار ہے، تعلیم یافتہ اور لبرل نظریات رکھنے والے ترک اپنی طرزِ زندگی اورشخصی آزادیوں کے حامل رویوں کو خطرے میں پاتے ہیں۔ مسٹر اردوان ترکی کی طاقتور فوج کو بے اثر کرنے میں اس لیے کامیاب رہے کیونکہ اُنھوںنے ملک کو بہت اعلیٰ طریقے سے چلایا ہے اور عالمی کساد بازاری کے باوجود معاشی ترقی کی سالانہ شرح 9 فیصد کے لگ بھگ برقرار رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوںنے آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی بنائی ہے۔ اس کی وجہ سے اسلامی دنیا میں ترکی کی قدر و منزلت بڑھی ہے۔ تاہم ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ترقی کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ لیرا(ترکی کی کرنسی) گراوٹ کا شکار ہواہے جبکہ غیر ملکی قرضے بڑھ گئے ہیں۔ اردوان انتظامیہ کاخیال ہے کہ حالیہ مظاہروں کے پیچھے ’’سود خور لابی ‘‘ کا ہاتھ ہے۔ مسٹر اردوان کے حکم پر ترکی میں ٹوئیٹر پر پابندی لگا دی گئی ہے اور تقسیم اسکوائر کے مظاہروں کی براہ ِ راست کوریج دکھانے پر بہت سے ٹی وی چینلوں کو جرمانہ کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے تناظر میں وہ روایتی آمر کے طور پر نظر آئے ہیں کیونکہ جب بھی عوام ایسے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیںکہ کوئی نادیدہ دشمن اُن کے خلاف سازش کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکی کے موجودہ مسائل کے لیے مسٹر اردوان ہی ذمہ دار ہیں۔ جب اُن کو مذہبی طبقے کی طرف سے بھاری حمایت ملی تھی تو اُن کو ایک بات فراموش نہیں کرنی چاہیے تھی کہ ترکی میں ایک بڑی تعداد میں لبرل اور سیکولر شہری بھی آباد ہیں اور وہ ان کے بھی لیڈر ہیں۔ دوسال پہلے ، جب میں استنبول میں تھا تو ایک یہودی جوڑے نے میرے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ وہ ترکی میں مذہبی قدروں کے فروغ سے خائف ہیں۔ بہت سے لبرل سوچ رکھنے والے مسلمان دوست بھی معاشرے میں مذہب کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے تمام اپوزیشن ، جن میں کرد ، علوی، سیاسی جماعتیں اور ماحولیاتی تنظیموںکے نمائندے بھی شامل ہیں، کو اپنے خلاف اکٹھا کر لیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب ترک حکومت نے ’’پی کے کے ‘‘ (کرد علیحدگی پسند پارٹی ) کے ساتھ صلح کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔ طیب اردوان اس وقت تیسری اور آخری مدت کے لیے وزیر اعظم ہیں۔ ترک آئین کے مطابق وہ چوتھی مرتبہ وزارت ِعظمیٰ کے امیدوار نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے بہت سے ناقدین کا خیا ل ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کرکے صدرِ مملکت کو زیادہ اختیارات دے دیں گے اور پھر وزارت ِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹ کر ملک کے صدر بن کر زمام ِ اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ اس مقصد کے لیے اُن کو ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اُن کو تمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی ۔ چنانچہ وہ چاہیں گے موجودہ بے چینی سے ان کو سیاسی طور پر کوئی بڑا نقصان نہ پہنچے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ موجودہ احتجاج کے نتیجے میں اُنھوںنے سخت اقدامات اٹھانے کی بجائے کہا ہے کہ وہ غازی پارک کے حوالے سے عدالت کے فیصلے کا انتظار کریںگے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر یہ فیصلہ حکومت کے حق میں ہوا تو بھی وہ مجوزہ تعمیرات سے پہلے ریفرنڈم کے ذریعے عوامی رائے لیں گے۔ اگر چہ بہت سوں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن بہت سے ابھی تک احتجاجی طور پر پارک پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ ترک حکومت نے بجا طور پر بھانپ لیا تھا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو جارحانہ اقدامات کرنے کا حکم دینے سے سیاسی نقصان کا خدشہ ہے۔ اب تک چار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ پانچ ہزار زخمی ہیں۔ اگر اس احتجاج کا دائرہ پھیلتا ہے تو اس سے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی نقصان ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں