اینتھرو پنتھرو پھر منظرعام پر آیا ہے

کچھ عرفی نام افراد کی شخصیت کا جزو لاینفک بن جاتے ہیں۔ جب پاکستان کے نامور کالم نگار خالد حسن نے اکبر ایس احمد کو ’’اینتھرو پنتھرو‘‘ (Anthro-Panthro) کا نام دیا تو یہ ان کے لیے امر ہو گیا۔ جو لوگ اس کے پسِ منظر سے واقف نہیں ان کے لیے عرض ہے کہ اکبر احمد ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں اور جب وہ کئی سال پہلے بلوچستان میں بطور ایک ضلعی آفیسر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے تو اُنھوں نے ایک گلی کا نام اپنے نام پر رکھا۔ خالد حسن کی طرف سے دیے گئے اس عرفی نام کی وجہ یہ تھی کہ وہ انتھروپولوجی (anthropology) جو علم الانسان کہلاتا ہے، کے ماہر تھے۔ اُنھوں نے پشتون کلچر، اس کے قبائل اور رسم و رواج کے بارے میں بہت لکھا۔ جب صدر مشرف نے 1999ء میں اُنہیں برطانیہ میں ہائی کمشنر مقرر کیا تو وہ کیمبرج یونیورسٹی کے ’’اقبال فیلو‘‘ تھے؛ تاہم چند ماہ کے اندر، وہ ایک سکینڈل کی زد میں آ کر اپنے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے بعد وہ کئی سال تک فلم ’’جناح‘‘ کے منصوبے میں شریک رہے۔ اُنھوں نے وہاں بہت سے پاکستانی نژاد شہریوں کو اس میں حصہ ڈالنے کے لیے راضی کیا۔ یہ فلم دراصل رچرڈ آٹن برو (Richard Attenborough) کی مشہور فلم ’’گاندھی‘‘ کے مقابلے پر بنائی جانی تھی۔ اُنہیں اپنی کاوش کا صلہ ملا اور وہ فلم تکمیل کے مراحل سے گزر گئی؛ تاہم ایک افسوسناک مرحلہ درپیش آیا کہ جب فلم کے ڈائریکٹر جمیل دہلوی نے اپنی فیس لینے کے لیے اکبر احمد پر مقدمہ کر دیا۔ اکبر پر الزام یہ تھا کہ اُنھوں نے فلم کا سکرپٹ لکھنے کا معاوضہ اور کریڈٹ خود کو دیا جبکہ سکرپٹ لکھنے والے ایک بھارتی مصنف فرخ دھوندی تھے (کراچی میں ہونے والے گزشتہ ادبی میلے میں مسٹر دھوندی بھی موجود تھے اور اُنھوں نے میرے استفسار پر اس بات کی تصدیق کی)۔ اکبر احمد کے لیے یہ معاملہ اُس وقت مزید بگڑ گیا جب اُنھوںنے اپنی بیوی، بیٹے اور داماد کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا۔ اُس وقت گارڈین میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اکبر احمد کو 51,500 پائونڈز ملے جبکہ اُس کے بیٹے اور داماد کو فی کس 35,000 پائونڈز دیے گئے۔ یہ تمام رقم اُس کی بیوی کے ایک بیرون ملک اکائونٹ میں جمع کرائی گئی۔ اکبر احمد ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُنھوں نے اس منصوبے کا سربراہ ہونے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں لیا بلکہ ’’مسٹر جناح کی طرح صرف پیشہ ورانہ فیس وصول کی‘‘۔ اُن کا یہ دعویٰ اپنی جگہ پر لیکن اُن کے قریبی عزیزوں نے بھاری رقوم وصول کیں۔ مسٹر دہلوی کا کہنا ہے کہ اکبر احمد کا اس فلم میں اتنا کردار نہیں تھا جتنی اُن کو ادائیگی کی گئی۔ جب یہ کہانی منظرِ عام پر آئی تو مشرف حکومت نے اس منصوبے کے لیے مختص کی گئی تمام رقم روک لی۔ اگرچہ یہ فلم مکمل ہو چکی تھی لیکن اسے کوئی تقسیم کار نہ مل سکا۔ اسی دوران اس فلم کے حوالے سے پاکستان میں تنازعہ کھڑا ہو گیا کہ اس میں مسٹر جناح کا کردار ادا کرنے کے لیے مشہور اداکار کرسٹوفر لی (جو خوفناک کردار ادا کرنے کے لیے مشہور تھے) کا انتخاب کیا گیا تھا۔ انجام کار، یہ فلم منظرعام سے غائب ہو گئی۔ آج میں کئی سال پرانے سکینڈل کو یاد کرتے ہوئے گڑے مردے کیوں اکھاڑ رہا ہوں؟ اصل بات یہ ہے کہ حال ہی میں مجھے ’’ہائوس آف لارڈز‘‘ میں مسٹر اکبر کی ایک تازہ کتاب \"The Thistle and the Drone\" کی تقریب رونمائی کے موقع پر بات کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ دعوت ایک ایسے دوست کی طرف سے آئی تھی جن کو میں انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اگرچہ میں نے یہ کتاب پڑھی نہیں تھی لیکن مصنف کے بارے میں طویل عرصے سے جانتے ہوئے میں اس بات کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہو گیا کہ یہ پاکستان، افغانستان، صومالیہ اور یمن کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں کے بارے میں ہے۔ مسٹر احمد کہتے ہیں‘ یہ ان سرحدی علاقوں کو مرکز کی طرف سے طویل عرصے کے لیے نظرانداز کر دینے کا شاخسانہ ہے۔ منتظمین کی طرف سے ہمیں ہدایت جاری کی گئی تھی کہ اپنے خطاب کو مختصر رکھیں، اس لیے میں نے جلدی سے دو نکات پر بات کی۔ سب سے پہلے میں نے کہا کہ جب ہم ایک پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمارے پاس اس کا متبادل بھی ہونا چاہیے۔ میں نے کہا: جہاں تک میرے ملک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کا قبائلی علاقہ بہت وسیع ہے۔ یہاں موجود جہادی حملے کر رہے ہیں۔ گزشتے ایک عشرے میں چالیس ہزار کے قریب پاکستانی شہری ان کے ہاتھوں جان گنوا چکے ہیں۔ کیا ان جہادیوں کو بلاروک ٹوک فساد پھیلانے کی اجازت دے دی جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہم قبائلی علاقوں کے بارے میں بہت سے رومانوی تصورات تو رکھتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیںکہ ان علاقوں میں خواتین کو گھروں میں قید کر کے رکھا جاتا ہے۔ اُنہیں صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں تو ان علاقوں میں جرگے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے منع کر دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس تقریب کا حال اس سے زیادہ نہیں بتائوں گا کہ میزبان لارڈ شیخ اور ایک مہمان مقرر وجے مہتا نے اس کتاب کی بے حد تعریف کی۔ میں نے کتابوںکی رونمائی کی بہت سی تقاریب دیکھی ہیں، میری اپنی کتاب کی تقریب بھی منعقد ہوئی تھی لیکن ایسا میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مصنف داد دینے والوں کی ٹیم کا بھی انتظام کر کے میدان میں آئے۔ سوال و جواب کے سیشن میں ایک نوجوان نے اکبر احمد کے گن گاتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے۔ پھر اس نے اس کتاب کی ایک کاپی (غالباً مفت) حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جب اس سے سوال پوچھنے کا کہا گیا تو اُس نے کہا: وہ مصنف سے پوچھنا چاہتا ہے کہ اس کتاب کو کس طریقے سے پوری دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ دو امریکی نوجوان بھی نظر آئے جو واشنگٹن سے یہاں آئے تھے۔ اُنھوںنے کہا کہ ’’پروفیسر‘‘ اکبر احمد سے علم حاصل کرنا ان کی خوش بختی ہے۔ میں نے اکبر کی طرف دیکھا کہ شاید اُن کے چہرے پر ندامت کے کچھ آثار ہوں لیکن وہاں مسرت اور فخر کا سونامی موجیں مار رہا تھا۔ تقریب میں موجود دوستوں کی رائے تھی کہ اُنھوں نے خوشامد پسندی کا اس سے بڑا مظاہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ مجھے جناح فلم کے سکینڈل کے حوالے سے سب سے افسوسناک بات یہ لگتی ہے کہ بابائے قوم کے نام پر بنائے جانے والے ایک منصوبے میں بدعنوانی کی گئی۔ حالانکہ یہ فلم ایک ایسے شخص کے بارے میں تھی جو اپنی راست بازی اور کردار کی سچائی کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ ان کی دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ اُن کے بدترین دشمن بھی اُن پر مالیاتی بدعنوانی کا الزام لگانے کا نہیں سوچ سکتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں