مصر میں نظریاتی تقسیم کے عالمی مضمرات

آج جب کہ مصر میں پیش آنے والے حالات و واقعات میرے سامنے ہیں، مجھے 1991ء میں واشنگٹن میں الجیریا کے سفارت کار سے کی گئی اپنی گفتگو یاد آرہی ہے۔ اگرچہ اس بات کو دوعشرے گزر چکے ہیں لیکن مصر کے حوالے سے یہ آج بھی برمحل لگتی ہے۔ اس وقت الجیریا میں ہونے والے انتخابات میں ’’ایف آئی ایس‘‘(اسلامک سیلویشن آرمی) کی کامیابی یقینی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے مضمرات سے بچنے کے لیے حکمران جماعت ’’ایف ایل این‘‘( نیشنل لبریشن فرنٹ ) نے انتخابات کا انعقاد منسوخ کر دیا۔ اس پر ایف آئی ایس اور اس کے حامی چراغ پا ہو گئے۔ اس سے ایک عشرے پر محیط ہولناک خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس جنگ کی تباہ کاریوں کی مکمل تفصیلات تو کبھی سامنے نہ آسکیں ، لیکن اس میں دونوں گروہوں نے وحشت و بربریت کی انتہا کر دی اور ایک اندازے کے مطابق اس میں پچاس ہزار سے لے کر اڑھائی لاکھ تک ہلا کتیں ہوئیں۔ میری الجیریا کے سفارت کار سے ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب وہاں انتخابات کا انعقاد التوا میں ڈال دیا گیا تھا۔جب میں نے اُن سے دریافت کیا کہ کیا اُن کی حکمران جماعت اس التوا کے سنگین نتائج کا ادراک رکھتی ہے تو اُنھوں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ اُن کی حکمران جماعت اور فوج کسی بھی صورت ِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یقینا یا تو وہ صاحب اپنے ملک کی صورت ِ حال سے بے خبر تھے یا پھر وہ ایک غیر ملکی کو کھل کر اپنے ملک کی سیاسی صورت ِ حال کے بارے میں بتانا نہیں چاہتے تھے۔ اس وقت مجھے خدشہ لا حق ہے کہ کہیں مصر میں بھی یہی صورت ِ حال نہ پیدا ہو جائے۔ معزول صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں اب تک درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس صورت ِ حال میں پر تشدد احتجاج کا دائرہ پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اخوان المسلمون جبر کا شکار رہی ہے۔ ایک حوالے سے مصر کے تحریر چوک میں صدر مرسی کے خلاف ہونے والا مظاہرہ استنبول کے تقسیم چوک میں ہونے والے عوامی احتجاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ دیگر مسلم ممالک میں بھی اس تنائو کی کسی نہ کسی سطح پر جھلک دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اس سے یہ تاثر لینا غلط ہے کہ صدر مرسی کو صرف کٹر مسلمانوںنے ہی ووٹ دیا تھا۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بہت سے لبرل مصریوںنے مبارک دور کے رہنما ،جو مرسی کے مخالف امیدوار تھے، کو شکست دینے کے لیے ان کو ووٹ دیے۔ اُن کو یہ بھی امید تھی کہ وہ اپنے وعدے ’’تمام مصریوں کا صدر‘‘ کی پاسداری کریں گے، تاہم منتخب ہونے کے بعد اُنھوںنے اسلامی آئین کے ذریعے سیکولر قوتوں کو بلڈوز کرتے ہوئے اُن کے بدترین خدشات کی تصدیق کردی۔ اگرچہ مرسی کو پہلے بھی اخوان المسلمون کا خاموش مہرہ سمجھا جاتا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو قدم قدم پر عدالت اور افسرشاہی کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ اس دوران سیاحت کی صنعت، جو مصر کے لیے زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کو نقصان ہوا ۔ اس کے علاوہ مرسی نے بھاری رقوم امدادی قیمت کی مد میں خرچ کیں جبکہ مصری معیشت پہلے ہی افراط ِ زر کا شکا ر تھی۔ مختصر یہ کہ عوام کے پاس یہ کافی وجوہات تھیں کہ وہ صدر مرسی کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے۔ جب الجیریا میں انتخابات کو صرف اس لیے ملتوی کیا گیا کہ کہیں ایف آئی ایس کامیاب نہ ہوجائے تو واشنگٹن ، لندن اور پیرس نے اس اقدام کی حمایت کی تھی کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کسی اسلامی جماعت کو اقتدار میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے پیچھے ایک خوف ہے کہ اگر ایسی کسی جماعت کو ایک مرتبہ حکومت مل گئی توپھر کسی بھی صورت میں اقتدار کے ایوانوںسے رخصت نہیںہوگی۔ ایران ا س کی ایک واضح مثال ہے کہ جب ایک مرتبہ آیت اﷲ نے قوت حاصل کرلی تو پھر اُنھوںنے جمہوری عمل کو اپنے کنٹرول میں لے کر مخالف جماعتوں کا اقتدارمیں آنا ناممکن بنا دیا۔ اس مقصد کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی عقیدے کی بنیاد پر سختی سے جانچ پڑتا ل کی جاتی ہے جبکہ مذہبی رہنما، جو کہ غیر منتخب شدہ ہوتا ہے، اس عمل میں حتمی اور فیصلہ کن رائے رکھتا ہے۔ یہ ہے اصل مسئلہ: کیا مذہبی جماعتیں، جبکہ وہ ایک مخصوص مدت کے لیے اقتدار میں آتی ہیں ، ریاست کے بنیادی آئین کو تبدیل کرنے کا حق رکھتی ہیں؟یا پھر اُنہیں اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقوں کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے؟ اقتدار میں آنے کے بعد کیا وہ ایسا تو نہیں کریںگی کہ اگر اُنہیں خدشہ ہو کہ اُن کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے اور وہ اگلا الیکشن نہیں جیت پائیں گی تو آئین کے مذہبی ڈھانچے کا سہارا لے کر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی راہ پر چل پڑیں؟ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی سے بے دین جماعتوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے تو پھر یہ دھاندلی جائزہے۔ کیا جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھنے والوں کے ذہن میں موجود یہ خدشات بے بنیاد ہیں؟ مصرمیں ہونے والے واقعات کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ اب دیگر ممالک، خاص طور پر پاکستان، میں اسلامی جماعتیں اپنے اس موقف کو درست قرار دیں گی کہ جمہوریت درست راستہ نہیں ہے، چنانچہ اقتدار پر بزور ِ بازو ہی قبضہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے تشدد کی راہ اپنانا ضروری ہے کیونکہ اگر گلیوں اور چوراہوں میں ہونے والے مظاہرے منتخب حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں تو پھر جمہوری عمل میں شریک ہو کر عوامی خواہشات کا احترام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟مصری فوج ، جو روشن خیال ہونے کے ساتھ ساتھ مالی امور کو بھی ہاتھ میں رکھنا پسند کرتی ہے، کو دوبارہ اقتدار کی ایوانوں میں داخل ہونے کا بہانہ اچھا لگا ہو گا۔ اگرچہ اُنھوںنے ایک جج صاحب کو نگران صدر مقرر کر دیا ہے، لیکن ظاہری اقدامات سے دھوکہ نہیں ہونا چاہیے۔ مصری عوام کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں کئی ایک مواقع پر لوگوں نے فوج کوخوش آمدید کہا ، اور اُدھر سے بھی جلد انتخابات کا پکا وعدہ کیا گیا۔ بہرحال مصری بھائی خبردار رہیں کہ کہیں اُن سے ’’نوّے دن‘‘ کا وعدہ نہ کر لیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں