جب یہ خبر آئی کہ بی بی سی الطاف حسین پر ایک رپورٹ پیش کررہا ہے تو برطانیہ میں میرے بہت سے پاکستانی دوست اسے دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔یہ رپورٹ بی بی سی کے مشہور پروگرام ’’نیوز نائٹ‘‘ پر پیش کی جاتی تھی جو حالات ِ حاضرہ کا جائزہ لینے اور ان پر سیر حاصل تبصرہ کرنے والا بی بی سی کا چوٹی کا پروگرام ہے۔ عام طور پر اس پروگرام کے میزبان جرمی پاکس مین ہوتے ہیں جو برطانوی ٹی وی صحافت کے روٹویلر (Rottweiler) کہلاتے ہیں اور اُن کے انٹرویو کرنے کا انداز خاصا جارحانہ اور چبھنے والا ہوتا ہے۔ جب مجھے علم ہوا کہ وہ ’’نیوز نائٹ‘‘ پر بی بی سی کے شہرہ آفاق رپورٹر اور پاکستان پر ایک کتاب کے مصنف اوون بینٹ جونز کی تیار کردہ ایک رپورٹ پیش کررہے ہیں تو میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں اس پروگرام کو ضرور دیکھوں۔ اب چونکہ زیادہ تر لوگ ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت سے حقائق سے جن پر اُس رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی‘ آگاہ ہیں اس لیے میں ان الزامات کا اعادہ نہیں کروں گا۔ اس رپورٹ کے بعد پاکستان میں کئی ٹی وی ٹاک شوز میں ایم کیو ایم کو موضوع بنایا گیا ۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں ایک مہمان نے کہا کہ نواز حکومت کولند ن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ایم کیو ایم کے قائد کو ان کے حوالے کیا جائے تاکہ اُن پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ تاہم یہ دستیاب آپشن نہیں کیونکہ اب الطاف حسین ایک برطانوی شہری ہیں۔ جب ایک متنازعہ شخصیت اور انتہائی نظریات رکھنے والے اردن کے مذہبی رہنما ابوقتادہ کو جو جعلی پاسپورٹ پر برطانیہ آگئے تھے، جلاوطن کرنے کا عمل شروع ہوا تو اس میں ایک عشرہ لگ گیا؛ حالانکہ الطاف حسین کے برعکس وہ قانونی تحفظ نہیں رکھتے تھے۔ برطانیہ میں رہنے کے لیے ابوقتادہ نے طویل آئینی جنگ لڑی۔ اس سلسلے میں یکے بعد دیگرے مختلف عدالتوں میں گئے اور جب آخر کار اُن پر برطانیہ میں قانونی مدد کے تمام آپشن ختم ہوگئے تو اُنھوںنے یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت سے رجوع کیا۔ یہ عدالت ایسے معاملات میں یورپی اقوام کے لیے اعلیٰ ترین بنچ ہے۔ اس نے فیصلہ سنایا کہ ابوقتادہ کو واپس اردن نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اُن کے آبائی ملک میں اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس پر بہت سے برطانویوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا کیونکہ اُن کو محسوس ہوا تھا کہ اس سے ان کے عدالتی نظام کی سبکی ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ یورپی یونین کی عدالت کی طر ف سے ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ایک اور مثال کے طور پر بھی لیا گیا۔ بہرحال ابو قتادہ برطانیہ چھوڑنے پر راضی ہو گئے کیونکہ لندن نے اردن کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ ان سے تشددکے ذریعے حاصل کیے گئے بیان کو قانونی کارروائی کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ وہ عمان جانے والے جہاز پر بیٹھ تو گئے لیکن ان کو ڈی پورٹ کرنے میں دس سال کا عرصہ اور لاکھوں پائونڈز لگ چکے تھے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ الطاف حسین کو ڈی پورٹ کیا جانا بہت مشکل ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق الطاف حسین کی برطانوی شہریت ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے ایکٹ کی ضرورت ہے ، جس کے بعد ہی ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد پھر پاکستانی قانون بھی ایک رکاوٹ بنے گا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کے قوانین شہریوں کو ان ممالک میں بھیجنے کی ممانعت کرتے ہیں جہاں مشتبہ افراد پر تشدد کرنے کی روایات موجود ہوں۔ اس صورت حال میں ایم کیو ایم کے قائد کی لندن میں گرفتار ی اور اُن پر مقدمہ چلائے جانے کے کیا امکانات ہیں؟اس وقت اُن کے خلاف تحقیقات تین مختلف خطوط پر ہورہی ہے۔ پہلا یہ کہ ان کے گھر اور دفتر سے چار لاکھ پائونڈز ملے ہیں۔ اس پر یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ رقم برطانیہ میں جائز ذرائع سے کمائی گئی ہے اور کیا اس پر ٹیکس ادا کیا گیا ہے؟ اگر یہ دوسرے ملک سے منگوائی گئی ہے تو کہیں باضابطہ بنکنگ کے نظام کو نظر انداز کرتے ہوئے ناجائز ذرائع سے تو نہیں منگوائی گئی؟ کہیں یہ رقم ’’منی لانڈرنگ ‘‘ کے زمرے میں تو نہیں آتی؟ اُن پردوسرا الزام جو پی ٹی آئی کے ہزاروں حامیوں کی طرف سے بھی لگایا جارہا ہے، یہ ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر کراچی میں اپنے کارکنوں کو تشد د پراکساتے ہیں۔ اس پر برطانوی ہوم ڈپارٹمنٹ الطاف حسین کی تقاریر کا ترجمہ کرا کے ان کا تجزیہ کررہا ہے۔ تیسرا اور سب سے سنگین الزام ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا ہے۔ اس قتل کا ایک ملزم گرفتار ہوچکا ہے اور اس وقت وہ ضمانت پر رہا ہے۔ ان تمام الزامات کا ’’سی پی ایس ‘‘(Crown Prosecution Service) نے جائزہ لینا ہے کہ کیا مقدمہ چلانے کے لیے شہادت کافی ہے۔ ایسا ہر کیس میں کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کے وسائل اُن مقدمات پر ضائع نہ ہوں جن میں مشکوک گواہیوں اور کمزور شہادتوں کی بنا پر ملزمان کو سزا ملنے کا امکان نہ ہو؛ تاہم اس کیس پر میڈیا کی توجہ کے پیش نظر پولیس اور سی پی ایس پر بھی دبائو ہو گا کہ وہ اسے منطقی انجام تک پہنچائے۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس کیس کا کیا انجام ہوتا ہے، لیکن ’’نیوزنائٹ‘‘ میں جرمی پاکس مین کے سامنے ڈاکٹر فاروق ستار اپنے انٹرویو میں پاکس مین کے بے رحمانہ سوالات کے جواب میں اس کے سوا اور کچھ نہ کہہ سکے کہ اُن کا قائد زیر حراست نہیں ہے اور نہ ہی اُن پر کوئی مقدمہ چل رہا ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ اگر ان میں سے کسی الزام کی بنا پر الطاف حسین کو گرفتا رکیا جاتا ہے تو وہ اس بات کو ترجیح دیں گے کہ وہ برطانیہ کی بجائے پاکستانی عدالتوں کاسامنا کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے وطن میں تو کوئی بھی اُن کے خلاف گواہی دینے نہیں آئے گا‘ کیس چلتا رہے گا یہاں تک کہ حکومت تبدیل ہو جائے گی۔ اگر ایم کیو ایم کی کراچی میں قوت اور اختیار کو مد ِ نظر رکھیں تویہ بات یقینی ہے کہ برسوں بعد بھی اس کیس کا کوئی فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔ جبکہ برطانیہ میں مقدمات بہت جلد نمٹا دیے جاتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے پہلے ہی بہت سے ثبوت حاصل کرلیے ہیں۔ یہاں نہ گواہوں کو دھمکایا جاتا ہے نہ سماعت التوا کا شکار ہوتی ہے اور نہ ہی کیس پر کسی قسم کا سیاسی دبائو ہوتا ہے۔ واقعات جس تیزی سے پیش آرہے ہیں اس ڈرامے کا ڈراپ سین سامنے آنے والا ہے۔