ملالہ اور ہمارا قومی رویہ

عزیز قارئین ، ہو سکتا ہے کہ آپ نے یہ بات سنی ہوئی ہو، اس لیے دہرانے پر پیشگی معذرت، لیکن بعض اوقات کہی ہوئی باتوںکی تازگی بھی فطرت کی طرح نہیں بدلتی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب کو فرشتہ دوسری دنیا میںلے گیا۔ وہاں اُس نے دیکھا کہ عقربی برتنوں کے نیچے خوفناک آگ جل رہی ہے۔ ان برتنوں کے گرد دیوہیکل محافظ ہیں ۔ جب کوئی گناہ گار باہر آنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ گرز مار مار کر ان کو واپس دھکیل دیتے ہیں۔ جب وہ صاحب ایسے برتن کے پاس سے گزرے جس میں پاکستانی گناہگاروں کو ڈالا گیا تھا تو اُس نے دیکھا کہ اس کے کناروں پرکوئی محافظ نہیںہے۔ جب اس کی وجہ پوچھی تو فرشتے نے جواب دیا: ’’جب ان میں سے کوئی باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو باقی اُس کی ٹانگ کھینچ کر نیچے گرا لیتے ہیں‘ اس لیے یہاں محافظوںکی ضرورت نہیںہے۔‘‘ اس وقت بے چاری ملالہ یوسف زئی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔اقوام ِ متحدہ میں اس کی شاندار تقریر کے بعد دائیں اور بائیں بازو والے،دونوں اُس کی ساکھ تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے خلاف بہت سی ای میلز گردش میں ہیں جن میں اس کو شیطان کا مہرہ یا امریکی ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ نقطۂ نظر وہ ہے جسے میں اکثر اپنی قومی خامی سے تعبیر کرتا ہوں۔ ہم اکثر اوقات کسی بات سے اتفاق تو کر لیتے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں۔۔۔ ’’ٹھیک ہے، لیکن۔۔۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو ہم ٹھیک سمجھتے ہیں، اس پر فوراً کچھ سوال اٹھا کر اُسے متنازعہ بنا لیتے ہیں۔ یہ رویہ طالبان پر بڑا صادق آتا ہے۔ اکثر لوگ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ طالبان دہشت گرد ہیں، لیکن فوراً ہی امریکی مخالفت کے جذبات دل میں موجز ن ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’کیا امریکی ڈرون حملے دہشت گردی سے کم ہیں؟‘‘ اس کے بعد اپنے کسی شہر میں ہونے والی دہشت گردی کو‘ جس میں عام شہری ہلاک ہوئے ہوں‘ عراق، افغانستان اور اسرائیل کی کارروائیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس اخلاقی کنفیوژن میں طالبان کو سزا دینے کے لیے قومی اتفاق ِ رائے پیدا نہیں ہوپاتا۔ اور تو اور، میرے پرانے دوست ایاز امیر بھی اسی رو میں بہہ نکلے ہیں۔ اپنے گزشتہ کالم میں لکھتے ہیں: ’’ملالہ کہتی ہے کہ دہشت گردوں نے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردکون ہیں؟اگر ہم دہشت گردی کی امریکی تعریف کو درست سمجھیں تو طالبان اور القاعدہ والے دہشت گرد ہیں۔ لیکن کیا یہ سوال پوچھا جانا بے محل ہوگا کہ11 ستمبر کے حملوں کے بعد کس نے زیادہ انسانوں کو ہلاک کیا ہے؟ طالبان یا امن اور انسانی حقوق کے نام نہاد چمپئن امریکیوں نے ؟‘‘مسٹر ایاز، یہ بے محل سوال ہے کیونکہ دہشت گرد وہ افراد ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے نہتے شہریوں کو ہلاک کر تے ہیں جبکہ دوسری طرف ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جارحانہ کارروائیاں کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے بین الاقوامی معاہدے اور قوانین موجود ہیں جو ریاستوں کو جنگ کرنے یا اس سے بچنے کا اختیار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے طاقت کے بے جا استعمال پر‘ جس میں انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے، تنقید کی جانی چاہیے، لیکن اس کی ذمہ داری ملالہ کے کندھوں پر ڈالنا ناانصافی ہوگی۔ ایاز امیر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’اس پر ملالہ کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا‘‘، لیکن پھر اس کی تقریر کے ساتھ امریکیوں کی کارروائیوں کو نتھی کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ایاز امیر بھی بہت سے پاکستانیوں کی طرح طالبان کو آزادی کے مجاہد قرار دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے‘ تو پھر یہ بھی بتائیں کہ یہ جہادی کس سے ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہیں؟ جب وہ کوئٹہ کی ہزارہ برادری جیسے پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں تو اس کے پیچھے کس آزادی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے؟یا پھرجب وہ بچوں کے سکولوں کو تباہ کرتے ہیں تو کس آزادی کی شمع روشن کررہے ہوتے ہیں؟یا جب وہ پاکستانیوں کا سرقلم کرتے ہیں تو اس سے کس آزادی کا پرچم بلند ہوتا ہے؟دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بہت سے پاکستانی‘ جو دل میں امریکی نفرت رکھتے ہیں، دراصل اپنے گرد و نواح میں پیش آنے والے واقعات سے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی دوسری قوم کی بجائے ہم پاکستانی پاکستانیوں کے ہاتھوں ہی اذیت جھیل رہے ہیں۔ خدارا‘ طالبان کو ویت نام یا پی ایل او کے مرتبے پر فائز نہ کریں، قاتلوں کا یہ گروہ چالیس ہزار پاکستانی شہریوں کی جان لے چکا ہے۔ ا ن کے نزدیک اپنے نظریات کی ترویج کے لیے مردوں‘ عورتوں اور بچوںکی جانوں کی کوئی وقعت نہیںہے۔ ملالہ کے خلاف زہر افشانی کا ایک ثبوت اس ای میل میں دیکھیں: ’’اُسے تعلیم یا ملک کے امیج سے کوئی سروکار نہیں، وہ بس مغربی ممالک میں پرتعیش زندگی کی خواہاں ہے۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ ملالہ صحت یابی کے بعد کوئی پر تعیش زندگی بسر نہیںکر رہی۔ اس کے والد برمنگھم میں پاکستانی سفارت خانے میں ایجوکیشن آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں جبکہ ملالہ دوسرے طلبہ کی طرح سکول جارہی ہے اور وہاں کی سکول کی پڑھائی بہت محنت طلب ہے۔ چنانچہ وہاں وہ عیش نہیں کررہی۔ یہ تنقید مشرف کے بدنام ِ زمانہ بیان کی یاد دلاتا ہے جب اُنھوںنے مختاراں مائی کے گینگ ریپ کے حوالے سے کہا تھا کہ اس سے اُس کو بیرون ِ ملک جانے کا موقع مل گیا۔ اس سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ملک میںکیا ہورہاہے، انہیں ملک کے امیج کی فکر کھائے جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کی زندگی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ عالمی اعداد وشمار کے مطابق پاکستانی معاشرے میں عورتیں دشوار ترین زندگی گزارتی ہیں۔ اس ضمن میںہم بھارت ، افغانستان اور صومالیہ کے ’’ہم رتبہ ‘‘ ہیں۔ حالیہ دنوں ہمیں پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں دو لڑکیوں کو اُن کے رشتہ داروں نے اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ ان کے بارش میں کیے جانے والے رقص کی فلم کسی نے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کر دی تھی۔ ایک اور عورت کو جرگے نے صرف اس لیے سزائے موت سنادی کہ اُس بدقسمت کے پاس موبائل فون تھا۔ اس طرح کی سفاکی کی بہت سی کہانیاں ہیں لیکن ان کی زیادہ تشہیر نہیں کی جاتی۔ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہوجب عورتوںکے خلاف گھنائونے جرائم کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔ ہمارے اس تنگ نظر ماحول میں جب کوئی عورت اپنی صلاحیتوں کی بدولت کوئی مقام حاصل کرتی ہے تو کیا ہمیں اُس پر فخر نہیں کرنا چاہیے؟کیا ہمیں اُس پر سنگ باری کی بجائے پھولوںکی پتیاں نچھاور نہیں کرنی چاہئیں؟ جب کوئی عورت اس کھولتی ہوئی آگ سے باہر آنے کی کوشش کرے تو کیا اُسے واپس دھکیل دینا چاہیے؟ افسوس، جب طالبا ن کی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں کسی لڑکی نے ثابت قدمی دکھائی توہم طالبا ن کے ہم قدم ہولیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملالہ کی اس ملک میں پذیرائی ہوتی لیکن باقی دنیا اس کی تعریف کررہی ہے اور ہم اُس پر تنقید کررہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں