تخیلاتی ریاست کے لیے تخریبی کارروائیاں

یہ ایک مروجہ جملہ ہے۔۔۔’’ جو شخص ایک کے لیے دہشت گرد ہے وہ دوسرے کے لیے آزادی کا مجاہد ہے۔‘‘ بہت سے مروجہ جملوں کی طرح اس میں بھی کچھ صداقت پائی جاتی ہے۔ اپنے گزشتہ کالم میں ، میںنے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ دہشت گرد کون ہے۔۔۔ ایک شخص جو سیاسی یا نظریاتی مقاصد کے لیے نہتے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کالم میں ، میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ اس ضمن میں بے گناہ کون ہے۔ اگر عام مہذب لوگوںکی رائے لی جائے تو وہ جواب دیںگے کہ بچے بے گناہ ہوتے ہیں۔ وہ مثال دیںگے، فرض کریں کہ نیویارک میں رہنے والے ایک بچے کا اسرائیلی فوج کی فلسطینی شہریوںکے خلاف جارحیت سے کوئی تعلق نہیںہے‘ لیکن القاعدہ والے کہیں گے، غلط، جب تک امریکہ کے لوگ اور ریاست ایک بچے کی ہلاکت کا صدمہ برداشت نہیں کریںگے، وہ فلسطینی ریاست پر اسرائیلی تسلط کی حمایت کرتے رہیںگے۔ جہاں تک نوجوان امریکیوں کا تعلق ہے تو وہی امریکی حکومت، جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہے، کو منتخب کرتے ہیں، چنانچہ ان کو بھی نشانہ بنایا جانا ضروری ہے۔ امریکی مفادات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے جنگجو عناصر کے پاس یہ دلیل ہے اور مجھے شبہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس کی خاموش حمایت کرتی ہے۔ وہ مسلمان جو امریکیوںکو نشانہ بنانے پر اعتراض نہیں کرتے، دعویٰ کریں گے کہ قرآن ِ پاک ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون حرام قرار دیتا ہے؛ تاہم یہ حرمت جہادیوں کی کارروائیوں میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی کیونکہ وہ دوسرے مسلمانوں ، جو ان کے نظریات سے اختلاف رکھتے ہوں، پر حملہ کرنے کے لیے چودہویں صدی کے ایک اسلامی مفکر ابن تیمیہ کے ’’تکفیری ‘‘ نظریے کا سہارا لیتے ہیں۔ جب کسی مسلمان کو تکفیری یا مرتد قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر اُسے ہلاک کرنا اُن پر واجب ہو جاتا ہے۔ تکفیری دراصل سلفی فرقے کی ایک شاخ ہے۔ ان کے نزدیک ایمان کی خاطر خود کشی بھی جائز ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اپنی جان کی بھی پروا نہیںکرتا تو اپنے عقیدے کی سربلندی کے لیے کچھ مسلمانوں ، جو اُس کے نزدیک مرتد ہوں، کو ہلاک کرنا اس کے نزدیک باعث ِ ثواب ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی ہتھیاروں سے اتنے مسلمان ہلاک نہیںہوئے ہیں جتنے اس نظریے کے حامل مسلمانوںنے ہلاک کیے ہیں۔ یہ نام نہاد مذہبی تصورات بہت سے مسلمانوںکے ذہن میں انتہاپسندی اور جنگجویانہ ذہنیت ، جس نے ان کے معاشروں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، کے بارے میں ابہام پیدا کرتے ہوئے اس کینسر کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے درکار اقدامات سے روکتے ہیں۔ ایک اور تصور ، جو پاکستان اورافغانستان جیسے ممالک میں دہشت گردوں کے لیے خلاف کارروائی میں آڑے آتا ہے‘ یہ ہے کہ یہ جنگجو آزادی کے مجاہد ہیں جو اپنی سرزمین کو غیر ملکی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوںسے آزاد کرانے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ میڈیا اور عوامی حلقوںمیں ان دونوں تصورات کو پذیرائی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اسی تصور کو ہوا دی جاتی ہے کہ قاتل دراصل غیر ملکی ہیں کیونکہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو ہلاک کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جہادی کلچر کے حوالے سے اسی منتشر خیالی اور کنفیوژن کا شاخسانہ ہے کہ بہت سے سرکردہ سیاست دان ان قاتلوں کو مجرم نہیں گردانتے‘ بلکہ ان سے بات چیت کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور پہلو ، جو مجھ جیسے لبرل سوچ رکھنے والے افراد نظر انداز کر دیتے ہیں‘ یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان جیسے گروہ عام مجرم نہیں ہیں بلکہ وہ کسی نظریے کے تحت قتل و غارت کرتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور ہے جو ان کے نزدیک اسلام کے ابتدائی دورمیںموجود تھا۔ اس میں یہ انتہا پسند ایک خلیفہ، جو ان میںسے ہی ہوگا ، کا چنائو کریں گے اور اپنے نظریات کے مطابق قوانین کو رائج کریں گے۔ مثالیت پسند گروہوں نے ماضی میں بھی دہشت گردی کا سہارا لے کر اپنے تصورات کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں یورپ میں انتہاپسند گروہوں کی طرف سے بہت سی کارروائیاں کی گئیں۔ ان کا مقصد حکومتوں کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ نظریات کو آگے بڑھانا تھا۔ آج دنیا کے ہمارے والے حصے میں اسلامی انتہاپسند ، جو جمہوریت کی نفی کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تعداد کم ہے اور وہ کبھی انتخابی عمل میں کامیاب نہیںہو سکیںگے، بھی ایسی تخریبی کارروائیوں کے ذریعے ریاستوں پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جب کبھی اُنہیں اپنے لوگوں کے سامنے قتل و غارت کا جواز فراہم کرنا پڑے تو اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ اُن کے پیشِ نظر ایک بہت بڑا مقصد ہے، چنانچہ اس کی راہ میں کچھ بھی جائزہے۔ ایلکس بٹرورتھ کی مشہور کتاب \"The World That Never Was\" یورپ میں انتہاپسند تحریکیوں کا جائزہ لیتی ہے۔اس کتاب میں مصنف نے بیکنن، کروپو تکن اور ریکلس جیسے مثالیت پسند رہنمائوں کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔ یہ انسان دوست ہونے کے باوجود تشدد کی حمایت کرتے تھے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ ’’انڈے توڑے بغیر آملیٹ نہیں بن سکتا ہے۔‘‘ اُنھوںنے ایک اصول وضع کیا۔۔۔’’فعالی پروپیگنڈہ‘‘۔ اس کے مطابق وہ بم دھماکے کرکے خوف کی فضا قائم کرتے اور امید کرتے کہ اس سے حکومتی نظام درہم برہم ہو جائے گااور پھر ان کی ’’مثالی ریاست ‘‘ کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔ اس دوران بہت سے گروہوں اور مذہبی جنونیوں کی باہم لڑائیاں بھی چلتی رہیںلیکن ایک بات سب میں مشترک تھی(جو آج بھی ہے) کہ وہ نظام کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم یورپ میں ریاستوںنے مختلف سطحوں پر اقدامات کرتے ہوئے ان کو کافی حدتک دبادیا۔ ایک طریقہ یہ بھی استعمال کیا گیا کہ پولیس کے جاسوس اور ایجنٹوںنے ان تنظیموں تک رسائی حاصل کی، ان کا اعتماد جیتا اور ان کو مزید تخریبی کارروائیاں کرنے کے لیے اکسایا۔ اس طرح وہ تحریکیں عوام کی نفرت کا نشانہ بن گئیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک یورپ کی حکومتوںنے نہایت مستقل مزاجی سے ان کا پیچھا کرتے ہوئے ایسے گروہوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔اب وہ یورپ میں برائے نام نظریاتی موجودگی رکھتے ہیںلیکن ان کی تخریبی فعالیت ختم کر دی گئی ہے۔ بیسویں صدی کے صفحات تیزی سے پلٹتے ہوئے اکیسویں صدی میں داخل ہوں تو دنیا ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ زیادہ ترجنگجو مسلمان ہیں لیکن ان سب کے پیش ِ نظر اسلام نہیں بلکہ اپنے قومی مقاصد ہیں، جیسا کہ حماس اور چیچنیا کی آزادی کے لیے لڑنے والے گروہوں کا عالمی جہاد سے کوئی تعلق نہیںہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک آئرلینڈ میں IRA اور سپین کےBasque کے خطے میں Eta علیحدہ ریاستوںکے لیے تخریبی کارروائیوں میں مصروف تھیں۔ اگر اس معاملے پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ جب دہشت گرد گروہ تعداد اور ہتھیاروں میں کمی کی وجہ سے باقاعدہ فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں تو پھر وہ عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے سکولوں، مارکیٹوں اور بسوں پر بم حملے کرتے ہیں؛ تاہم پاکستان میں ایک منظر نامہ تشکیل پارہا ہے جو اس سے پہلے دنیا کے کسی ملک میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہاں اکثر جہادی گروہ سکیورٹی فورسز کا آمنے سامنے آکر مقابلہ کرتے ہیں اور اکثر جیت جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ اُس وقت تک ممکن نہیںہے جب تک کسی حکومت کے پاس ایسا کرنے کے لیے سیاسی قوت ِ ارادی نہ ہو۔ جب تک میڈیا اور سیاست دان عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکتے رہیں گے کہ وہ ان جہادیوںکے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں، وہ بڑی دیدہ دلیری سے جیلیں توڑ توڑ کر اپنے گرفتار شدہ ساتھیوں کو رہا کرا کے لے جاتے رہیںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں